108

نیوٹرلز طے کریں چوروں کے ساتھ ہیں یا حقیقی آزادی کے، عمران خان

نیوٹرلز طے کریں چوروں کے ساتھ ہیں یا حقیقی آزادی کے، عمران خان
پشاور (ایجنسیاں)تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے مارچ لیکر ڈی چوک اسلام آباد پہنچنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیوٹرلز، ججز، وکلاء سمیت سب کو پیغام دیتا ہوں یہ فیصلہ کْن وقت ہے‘قوم نیوٹرلز کو بھی دیکھ رہی ہے ‘بیچ میں کھڑے رہنے کا مطلب مجرموں کی مدد کرنا ہوگا‘ملک تباہی کی طرف گیا تو آپ بھی اتنے ہی ذمہ دار ہوں گے‘ججمنٹ آپ کی طرف بھی آئے گی ‘عدلیہ، پولیس، بیوروکریسی اور نیوٹرلز کا امتحان ہے کہ وہ چوروں کے ساتھ ہیں یا پاکستان کی حقیقی آزادی کے ساتھ کھڑے ہیں‘ آج عوام کے سمندر کو کوئی نہیں روک سکے گا‘جو بھی سمندر کو روکنے کی کوشش کرے گا وہ بہہ جائے گا‘ راستے میں رکاوٹیں ہٹانے کی ذمہ داری یوتھ کی ہوگی‘ حکومت اپنے غیر قانونی اقدامات سے فوج کو متنازع بنارہی ہے‘ عوام کا نزلہ پاکستانی افواج پر بھی گر رہا ہے‘اسلام آباد کا آئی جی مجرم ہے‘ہم ایک ایک افسر اور بیورو کریٹ کا نام نوٹ کررہے ہیں ‘بیوروکریسی کو پیغام ہے اگر آپ غیر قانونی احکامات مانیں گے تو آپ کے خلاف ایکشن لیا جائے گا‘ عوام کو کوئی نہیں روک سکتا،کیا ہماری عدلیہ اس کی اجازت دے گی جو ہورہا ہے‘عدلیہ نے جمہوریت کا تحفظ نہ کیا تو اس کی ساکھ ختم ہوجائے گی‘ہر حال میں اسلام آباد جائیں گے‘جوروکنا چاہے روک کر دکھا دے۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے پشاور میں پریس کانفرنس ‘یوتھ ونگ کی تقریب سے خطاب اورویڈیوپیغام میں کیا ۔ منگل کو یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ موجودہ حکومت اورآمرمیں کوئی فرق نہیں ‘یہ وہی حربے استعمال کرتے ہیں جو آمرکرتے ہیں‘جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو انہیں جمہوریت یاد آجاتی ہے۔عمران خان کا کہنا تھاکہ اب فیصلہ ہوگا کہ کس طرح کا پاکستان بننا ہے۔ ہمیں ملک کو قائداعظم کا پاکستان بنانا ہے یا چور ڈاکوؤں کا پاکستان۔میرا سوال سب سے ہے، وہ ادارے جنہوں نے ملک کے فیصلے کرنے ہیں، میں اپنی عدلیہ سے کہتا ہوں یہ آج آپ کا ٹرائل ہے،ساری قوم آپ کے فیصلوں کی طرف دیکھے گی‘میرا سوال ہے کہ کیا ہمیں یہ اتنا غلام سمجھتے ہیں کہ اتنا بڑا ظلم ہو قوم کے ساتھ اور ہمیں اسلام آباد میں احتجاج تک کرنے کی اجازت نہیں ہے۔کیا جب بلاول اسلام آباد میں ’’کانپیں ٹانگنے والی‘‘ مارچ کیلئے آیا تھا کیا کسی کو پکڑا گیا؟ کیا کسی کے گھر پر ریڈز کی گئیں؟ میں اپنی عدلیہ سے بڑے ادب سے پوچھ رہا ہوں کہ اگر آپ نے اس کی اجازت دی جو یہ کررہے ہیں ، ملک بند کردیا، رکاوٹیں کھڑی کردیں، اور یہ ہراساں کر رہے ہیں، خواتین کا خیال نہیں کر رہے شریف لوگوں کے گھروں پر حملے کررہے ہیں،کیا ہماری عدلیہ اس کی اجازت دے گی؟اگر آپ نے اجازت دی تو اس ملک میں عدلیہ کی ساکھ ختم ہو جائیگی۔پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھاکہ اس وقت کسی کیلئے نیوٹرل رہنے کی گنجائش نہیں ہے،نیوٹرل رہنے کی قرآن میں اللہ اجازت ہی نہیں دیتا، آپ نے فیصلہ کرنا ہے آپ اچھائی کے ساتھ کھڑے ہیںیا دوسری طرف کھڑے ہیں، اللہ نے آپ کو اجازت نہیں دی کہ بیچ میں بیٹھ جائیں‘ بیچ میں بیٹھنے کا مطلب مجرموں کی مدد ہے، میری خود کو نیوٹرل کہنے والوں سے گزارش ہے کہ آپ نے پاکستان کی سالمیت اورخوداری کی حفاظت کا حلف لیا ہے ‘یہ جو سابق فوجیوں کے ساتھ کررہے ہیں تو آپ کے اوپر بھی ʼججمنٹ آنے والی ہے‘مجھے خوف آرہا ہے کہ ہم ہفتوں میں سری لنکا جیسی صورتحال کی طرف جارہے ہیں۔ عمران خان نے کہ اگر اس ملک میں کسی کی جان کو خطرہ ہے تو وہ میری جان کو خطرہ ہے لیکن مجھے اس کی کوئی فکر نہیں ہے‘ ان کی غلامی سے موت بہتر ہے ۔عوام سے کہنا چاہتا ہوں کہ خوف کی زنجیریں توڑ دیں۔میں پنجاب کی بیورو کریسی سے پوچھتا ہوں کہ آپ حمزہ شہباز کے آرڈر مان کیسے رہے ہیں؟ اس کا توفیصلہ ہونے والا ہے، اس کی تو اکثریت نہیں ہے۔ہم ایک ایک نام یاد رکھیں گے۔ بعدازاں یوتھ ونگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہاکہ الیکشن کی تاریخ ملنے اور امپورٹڈ حکومت کے جانے تک تحریک جاری رہے گی‘ عدلیہ، پولیس، بیوروکریسی اور نیوٹرلز کا امتحان ہے کہ وہ چوروں کے ساتھ ہیں یا پاکستان کی حقیقی آزادی کے ساتھ کھڑے ہیں‘ جو بھی سمندر کو روکنے کی کوشش کرے گا وہ بہہ جائے گا،قوم چوروں کی غلامی اور امپورٹڈ حکومت کوقبول نہیں کرے گی ۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھاکہ راستے میں رکاوٹیں ہٹانے کی ذمہ داری یوتھ کی ہوگی‘ کل رات سندھ اورپنجاب میں کریک ڈاؤن کیا گیا، خواتین اور چادر دیواری کا تقدس پامال کیا‘پولیس نے جو حرکتیں کیں، ویڈیو چل رہی ہے‘قوم بیدار ہے، قوم سمجھ گئی ہے قوم کو سازش کا پتا ہے‘لانگ مارچ سیاست نہیں جہاد اور ملکی آزادی کی جنگ ہے ۔ انٹرنیٹ بند کریں، موبائل فونز کوریج بند کریں سب کی تیاری کریں گے۔دریں اثناءمنگل کو رات گئے ایک ویڈیو پیغام میں عمران خان نے کہا ہے کہ میں کشمیر روڈ سے ہوتا ہوا ڈی چوک پہنچوں گا، خاص طور پر چاہوں گا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے لوگ نکلیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں