2,912

تبیان القرآن کا تعارف اوراسلوب و منہج

تبیان القرآن کا تعارف اوراسلوب و منہج
تحریر: ارم شفیق (گولڈ میڈلسٹ نمل یونیورسٹی)
تعارف ِتفسیر:
“تفسیر تبیان القرآن”علامہ غلام رسول سعیدی صاحب کا ایک عظیم اور قابلِ قدر کارنامہ ہےجوکہ قرآن حکیم کی ایک مبسوط اور جامع تفسیر ہے۔سعیدی صاحب نے ۲۱ فروری ۱۹۹۶ء کو اس تفسیر کا آغاز کیاتھا جس کا اختتام ۲ فروری ۲۰۰۵ء کو ہوا۔
۱۲ جلدوں پر مشتمل یہ تفسیر عہد جدید کی جامع کامل اور مکمل تفسیر ہے۔اس حوالے سے سعیدی صاحب خودفرماتے ہیں:
“ہمارے بزرگ علماء نے اپنے اپنے زمانہ میں اس دوران کے مطابق قرآن مجید کے مفاہیم کو اردو زبان میں منتقل کیا۔مگر زبان کا یہ اسلوب وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے اس وجہ سے میں محسوس کرتاتھاکہ اس دور کے اردو پڑھنے والوں کے مزاج اور ان کے اسلوب کے مطابق قرآن مجید کا ترجمہ کرنا چاہیے تاکہ ترجمہ پڑھنے والوں کے لیے ترجمہ اجنبی نہ ہو۔”
چنانچہ آپ نے آسان اردو قرآن مجید کابامحاورہ اور سلیس ترجمہ کیا اور احکام القرآن کی تشریح و توضیح کے ساتھ ساتھ احادیث رسول اور صحابہ و تابعین کے اقوال کے بکثرت حوالے دیئے ہیں۔اسی طرح نئے اور تازہ مسائل کو نئے انداز میں بیان کیا ہے۔نیز مفسرین کی آراء بھی نقل کی ہیں۔
فقہی مسائل کے سلسلے میں آپ نے ہر مکتبہ فکر کی رائے کو درج کیا ہے اور آخر میں احناف کو دلائل کے ساتھ ترجیح دی ہے۔
مصادر و مراجع کی فہرست میں آپ نے مؤلفین کی تاریخ وفات کے اعتبار سے کتب کو مرتب کیا ہے جو اس تفسیر کی خصوصیت ہے۔

قرآن کا ترجمہ:
سعیدی صاحب نے قرآن مجید کاترجمہ تحت اللفظ نہیں کیابلکہ اپنے آپ کو الفاظ اور عبارت کا پابند رکھا ہے اور لفظی ترجمہ سے احتراز کیا ہے۔ترجمہ میں علامہ احمد سعیدکاظمی کے ترجمہ”البیان”سے استفادہ کیا ہے۔
قرآن کی تفسیر:
سعیدی صاحب نے قرآن کی تفسیر میں احکام القرآن ،الجامع لاحکام القرآن،البحر المحیط،تفسیر کبیر،الدرالمنثوراور روح المعانی سے استفادہ کیاہے۔اسی طرح موجودہ تفاسیر میں سے تفسیر منیر،مراغی،فی ظلال القرآن اور تفسیر قاسمی کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔
اسباب نزول:
اسباب نزول کے بیان میں “جامع البیان”پر اعتماد کیا ہے۔
حوالہ جات:
سعیدی صاحب نے تفسیر میں جو احادیث درج کی ہیں ان کو ان کے اصل حوالہ جات کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔اسی طرح فقہی مباحث میں مذاہب اربعہ کو ان کی اصل کتابوں کے حوالے کے ساتھ درج کیا ہے۔
سعیدی صاحب اپنی تفسیر کے انداز تحریر اور اسلوب کے بارے میں لکھتے ہیں۔
“میں نے اس تفسیر کو متوسط طریقہ پر لکھا ہے۔اس میں بہت زیادہ تفصیل ہے اور نہ بہت اختصار ہے۔مسائل حاضرہ پر میں نے بحث شرح وبسط کے ساتھ شرح صحیح مسلم میں لکھ دیاہے،اسی طرح عبادات اور معاملات پر بھی سیر حاصل بحث اس میں آگئی ہے۔تاہم جو مسائل اور مباحث اس میں آنے سے رہ گئے ہیں ان شاء اللہ ان کا اس میں تفصیل سے ذکر کروں گا۔معاصرین اور عہد قدیب کے مفسرین کی تحقیقات اور نگارشات کو میں نے اپنے پیش نظر رکھا ہے۔اور جہاں میری رائے ان کے ساتھ متفق نہ ہو سکی میں ادب واحترام کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کر دیاہے۔
مفتی منیب الرحمان( ) تبیان القرآن کے بارے میں لکھتے ہیں:
“تبیان القرآن عہد جدید کی نہایت جامع،کامل اور مکمل تفسیر ہےمیرے محدو د مطالعے کے مطابق اردو اور عربی کی کسی تفسیر میں اتنا ذخیرہ معلومات یکجا نہیں ہے ،اگرچہ ہر تفسیر میں آپ کو جستہ جستہ تمام علوم و فنون سے متعلق معلومات ملیں گی لیکن بالعموم ہر تفسیر میں کوئی نہ کوئی رنگ غالب ہوگا۔”
صدر رابطۃ المدارس (جماعت اسلامی)مولانا عبدالمالک لکھتے ہیں:
“شیخ الحدیث مولانا غلام رسول سعیدی صاحب عصر حاضر کے ممتاز مفسر،عظیم القدر محدث اور وسیع النظر فقیہ ہیں۔متعدد گراں قدر علمی تصانیف ان کی باقیات الصالحات ہیں۔ان کی تفسیر کا مطالعہ کرنے سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہےکہ مصنف نے ان خصوصیات اور اصولوں کی پوری پاسداری کی ہے جو کہ تفسیر کرنے کے لیے ضروری ہیں۔”
مختلف مکاتب فکر کے جید علماءاس تفسیر کی علمی اہمیت اور خوبیوں کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی مباحث کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
تبیان القرآن کا اسلوب ومنہج:
صاحب تبیان القرآن جب کسی آیت کی تفسیر یا کسی توضیح و تشریح اور تحقیق پرقلم اٹھاتے ہیں تو سب سے پہلے قرآن مجید سے رجوع کرتے ہیں ،پھراحادیث مبارکہ اور آثار صحابہ و تابعین سے اس کو مزین و آراستہ کرتے ہیں ،پھر آئمہ اربعہ کے اقوال اور مذاہبِ فقہاء کی روشنی میں اس مسئلہ کو بیان کرتے ہیں اور اس مسئلہ پر دلائل وبراہین کا انبار لگا دیتے ہیں اور پھر آخر میں اپنا موقف چند جملوں میں واضح کردیتے ہیں۔آپ کا انداز تحقیق اور اسلوب تحریر انتہائی دلآویز اور منفرد ہے اور آپ کا اندازِ تحقیق اور اسلوب سو فیصد معروضی رہا ہے۔
سعیدی صاحب ہر مسئلے کوتفصیلاًبیان کرتے ہیں تاکہ قاری بالکل تشنہ نہ رہے۔مثلاً:سورۃ النور کی آیت:
﴿اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ۔۔﴾
ترجمہ: اللّٰہ نور ہے ۔آسمانوں اور زمین کا اس کے نور کی مثال ایسی جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے۔
کی تفسیر کے لیے اللہ تعالیٰ پر نور کے اطلاق کی توجیہات میں امام رازی کا قول نقل کرتے ہیں۔امام رازی فرماتے ہیں:
“نور چونکہ کیفیت حادثہ کو کہتے ہیں اس لیے اس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی ذات پر محال ہے۔”ارشاد ربانی ہے:
﴿وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّورَ﴾
ترجمہ:روشنی اور اندھیرے کو بنایا۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نور مجہول اور مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ خالق نور ہےخود نور نہیں ہے اور چونکہ ا س آیت میں اللہ تعالیٰ نے خود پر نور کا اطلاق فرمایا ہے اس لئے علماء نے اس میں حسب ذیل توجیہات پیش کی ہیں:
1. نور ظہور اور ہدایت کا سبب ہے جیسا کہ درج ذیل آیات میں ہے :
﴿اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ﴾
ترجمہ: اللّٰہ والی ہے مسلمانوں کا انہیں اندھیریوں سے نور کی طرف نکالتا ہے۔
﴿وَلَكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا﴾
ترجمہ: ہاں ہم نے اسے نور کیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں سے جسے چاہتے ہیں۔
ان آیات سے واضح ہو ا کہ نور کا اطلاق ہدایت پر کیا گیا ہے تو “الله نور السموات والارض”کا معنیٰ ہے اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا نور والا ہے۔ا س كاحاصل یہ ہے کہ آسمان اور زمین والوں کو اللہ تعالیٰ ہی سے ہدایت حاصل ہوتی ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی یہی قول ہے۔
2. اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ سے آسمانوں اور زمینوں کا مدبر ہے جیسے بہت بڑے عالم کے لیے کہا جاتا ہے “وہ شہر کا نور ہے” جس سے لوگوں کو رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔اللہ آسمانوں اور زمینوں کا نا ظم ہے۔اللہ تعالیٰ آسمانوں
3. اور زمینوں کو منور کرنےوالا ہے ۔یہ تفسیر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ،حسن بصری سے منقول ہے۔
سعیدی صاحب آیات کے بیان میں احادیث کی روشنی میں استنباط کرتے ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ پر نور کے اطلاق کا احادیث کی روشنی میں تذکرہ کرتے ہیں۔نبی کریمﷺ تہجد کی نماز میں پڑھاکرتے تھے:
((اَللّٰهُمَّ لَکَ الحَمدُاَنتَ نُورُالسَّمَوَاتِ وَالاَرضِ))
ترجمہ:اےاللہ!تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں اورتوآسمان و زمین کا نور ہے۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا ،کیا آپﷺ نے اپنے رب کودیکھا؟آپ ﷺ نے فرمایا میں نے اپنے رب کو جہاں سے بھی دیکھاہے وہ نور ہی نور ہے۔
تفسیر کے تعارف سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے اس کی تالیف میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے ۔وہ ایک نظم اور منصوبہ بندی کے ساتھ علمی مواد کو جمع کرتے ہیں۔اور پھر اپنے مخصوص انداز میں بحث کرتے ہیں۔وہ بہت زیادہ کی طرف نہیں جاتے بلکہ ضرورت کے مطابق کسی بھی موضوع پر کلام کرتے ہیں۔