90

ریلیف آپریشن جاری مگر مزید بہت کچھ درکار

ریلیف آپریشن جاری مگر مزید بہت کچھ درکار
حالیہ سیلابوں کے بعد ملک کے بیشتر حصوں میں وسیع تر ریلیف آپریشن جاری ہے۔ امدادی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ بین الاقوامی فلاحی اداروں کے اکاؤنٹس پر پابندیاں ہٹائی جائیں، جس سے ریلیف آپریشن میں مدد ملے گی۔
پاکستان میں حالیہ سیلابوں کے بعد اس وقت ملک کے بیشتر حصوں میں وسیع تر ریلیف آپریشن جاری ہے۔ حکومت نے ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے بین الاقوامی امداد کی اپیل کی ہے۔ اتوار کو ترکی اور متحدہ عرب امارات سے امدادی پروازیں پہنچنا شروع ہوئیں۔ وزیر اعظم کے دفتر سے بتایا گیا ہے کہ بین الاقوامی امداد کی پہلی ترسیل راولپنڈی کے قریب نور خان ایئر بیس پر پہنچی اور آنے والے دنوں میں مزید 15 طیارے امداد لے کر آئیں گے۔
وزیر برائے ترقیاتی امور احسن اقبال نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا، ”کچھ ممالک نے امداد کا وعدہ کیا ہے لیکن ہمیں بارشوں سے متاثرہ لوگوں کے لیے مزید امداد کی ضرورت ہے۔‘‘ امریکہ، برطانیہ، چین اور متحدہ عرب امارات ان ممالک میں شامل ہیں، جنہوں نے تعاون کا وعدہ کیا ہے۔
فلاحی اداروں کے اکاؤنٹس پر پابندیاں ختم کی جائیں، فیصل ایدھی
ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے بتایا، ”تحصیلوں کے اندر گوٹھ میں جانا مشکل ہے لیکن شہروں تک رسائی ممکن ہے۔ ہم لوگوں کو کچا راشن دے رہے ہیں، جس میں آٹا، چاول، گھی، دو اقسام کی دالیں اور نمک شامل ہے۔ کچھ علاقوں میں ڈائریا کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔‘‘
بین الاقوامی فلاحی اداروں کے اکاؤنٹس پر جو پابندیاں لگائی گئی تھیں ان کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ فیصل ایدھی نےبات کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اگر یہ پابندیاں ایک سال یا چھ مہینے کے لیے ہٹا دی جائیں، تو بہتر طریقے سے کام کیا جا سکے گا۔ ”سن 2012 میں یہ ادارے موجود تھے، تو لوگوں کو ریلیف ملا تھا۔ اس وقت بہت کم لوگ مدد کر پا رہے ہیں۔ سیلاب سے ایک بہت بڑی آبادی متاثر ہوئی ہے، کچھ لوگوں نے پانچ یا چھ دن سے کھانا تک نہیں کھایا۔‘‘
جون سے اب تک سینکڑوں افراد ہلاک
جون میں بارشوں کے آغاز سے لے کر اب تک ملک بھر میں 1,061 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، گو کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ شمالی پہاڑی علاقہ جات میں سڑکیں اور پل بہہ جانے کی وجہ سے کئی دیہات سے رابطہ منقطع ہے۔ پاکستان میں مون سون کی بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلابوں سے مجموعی طور پر 33 ملین سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ ملک ان دنوں سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور معیشت زوال کا شکار ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق پاکستانی وزیر شیری رحمان نے بتایا کہ پاکستان کو ایک ‘سنگین موسمیاتی سانحے‘ کا سامنا ہے۔ ان کے بقول موسمیاتی بحران اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہا ہے۔
”میں کسی کو نہیں جانتی جو آٹھ ہفتوں کی مسلسل مون سون بارشوں کے لیے منصوبہ بندی کر سکتا ہو۔ مجھے نہیں لگتا کہ مسئلہ منصوبہ بندی کا ہے۔ گو کہ یقیناً ہمیں بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں