2,325

مولانا طارق جمیل کے نام۔ مفتی گلزار احمد نعیمی

مولانا طارق جمیل کے نام۔
السلام علیکم۔۔!!!
مولانا صاحب آپ ایک بڑے واعظ اور سٹائلش قسم کے سپیکر ہیں، آپکی پوری دنیا میں فالوونگ ہے۔ہمارے دل میں آپکا احترام ہے مگر چند دن پہلے آپکی تقریر کا ایک کلپ کراچی سے ہمارے دوست جناب مولانا عرفان صاحب نےتصدیق کے لیے مجھے وٹس اپ کیا۔جب میں نے سنا تو مجھے بہت تکلیف ہوئی۔آپ نے سورہ یوسف کی آیت کا ترجمہ کیا اور آیت کے ساتھ کھلواڑ کیا جو بہت ہی قابل مذمت ہے۔پھر آپ نے پیغمبر یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی شخصیت کےساتھ توہین آمیز رویہ محض زیب داستان کے لیےروا رکھا۔اس پر بھی میں بہت دکھی ہوا۔قرآن مجید کی آیت کا ترجمہ کر کے منشاء خداوندی کے خلاف دریدہ دہنی اور جماعت نبوت کے ایک عظیم اور جلیل القدر پیغمبر کی توہین یقینا ایک ناقابل معافی جرم ہے۔
میرے آپ سے تین سوالات ہیں۔آپ انکے جوابات عنایت فرمادیں۔
1. آپ نے “نحن نقص علیک احسن القصص” کا ترجمہ کیا” میرے محبوب آپکو سب سے خوبصورت کہانی سناؤں؟” یہ خوبصورت کہانی ترجمہ آپ نے کہاں سے لیا؟؟. کیا آپ مفسر ہیں جو اپنی مرضی سے خود ترجمہ کر سکتے ہیں؟؟ میرے سامنے جو تراجم موجود ہیں ان میں سے ایک ترجمہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں احسن القصص کا ترجمہ سب سے خوبصورت کہانی کیا گیا ہو۔ میرے سامنے تفسیر ابن کثیر کا ترجمہ موجود ہے جو خطیب الھند مولانامحمد جوناگڑھی نے کیا ہے۔انہوں نے نحن نقص کا ترجمہ کیا ہے” ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں”. مولانا سید ابوالعلٰی مودودی نے اسکا ترجمہ کیا” اے محمد،ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کرکے بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں” مفسر شھیر جناب مفتی محمد شفیع علیہ الرحمہ نے اسکا ترجمہ کیا” ہم بیان کرتے ہیں تیرے پاس بہت اچھا بیان” اسی طرح اہل سنت کے مایہ ناز مفسر ومحدث استاذنا الکریم جناب علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ نے اسکا ترجمہ کیا”ہم آپکو اس قرآن کی وحی کے ذریعہ سب سے حسین قصہ سناتے ہیں”
ان تمام جلیل القدر مفسرین نےاحسن القصص کا معنی خوبصورت کہانی نہیں کیا۔کیونکہ یہ جانتے تھے کہ قرآن مجید نے کہانی کو کوئی قابل تعریف پیرائے میں نہیں لیا۔اس لیے آپ سےگزارش ہے کہ آپ اس ترجمہ کی وضاحت فرمائیں۔
2. آپ نے کہا کہ انہوں نے( کنہوں نے؟) یوسف علیہ السلام کو گدھے پہ بٹھاکے منہ کالا کرکے پورے شہر کا چکر لگوایا۔(معاذاللہ)یہ گستاخانہ اور توہین پر مبنی مواد کہاں سے لیا؟؟. قرآن نے نہیں بیان کیا حدیث میں نہیں ہے اگر کسی مستند کتاب میں ہے تو حوالہ پیش فرمائیں۔یہ تو قرآن کے اسلوب اور اسکی آیات کے بالکل برعکس ہے۔قرآن کا اسلوب تو یہ بتا رہا ہے کہ جب پیغمبر یوسف علیہ السلام اپنا دامن عصمت چھڑا کے قصر شاہی سے باہر بھاگے تو آپکا اور زلیخا کا سامنہ بادشاہ سے براہ راست ہوااور زلیخا نے بادشاہ سے کہا کہ آپ کے اہل خانہ سے جو برآئی کا ارادہ کرے تو اسکی کیا جزا ہے؟ جب بچے نے گواہی دی توعزیز مصر نے تو زلیخا کو خود کہا کہ یہ تمہارا مکرو فریب ہے۔قرآن فرماتا ہے “انہ من کیدکن۔”یہ تمہارا مکر ہے۔اس کے بعد یوسف کو گدھے پر بٹھا کر پورے شھر میں پھرا کر یوسف کی توہین کا کیا جواز رہتا ہے؟؟؟۔یہ کسی نے نہیں لکھا۔اللہ آپ پر رحم کرے اتنے شد ومد سے اس جھوٹ کو بیان کررہے ہیں جیسے پیغمبر یوسف پر الزام لگانے میں آپ زلیخا کی ہمونائی میں کھڑے تھے۔آپ کے ایمان نے آپکو نہیں روکا کہ آپ کیا زہر اگل رہے ہیں۔
3. یہ جو آپ نے ایک عربی عبارت پڑھی ہے” ھذا جزآء من اراد بسیدہ سوء“( ترجمہ۔یہ بدلہ ہے جو اپنے آقاء کے ساتھ برائی کرے) یہ کس کا قول ہے؟؟ کس کتاب میں ہے؟؟ کس موقع پر کہا گیاہے اور اسکا قائل کون ہے.؟
ان تینوں سوالوں کے جوابات آپ کے لیے از بس ضروری ہیں ورنہ توہین پیغمبر کا ارتکاب آپ پر لازم آئے گا۔میں بات بات پر کفر کے فتوے لگانے والوں کے سخت خلاف ہوں بلکہ فتنئہ تکفیر کے خلاف کام کررہا ہوں اللہ کی توفیق سے۔ہمارا مقصد آپکی توہین یا تکفیر ہر گز نہیں ہے لیکن آپکے ان الفاظ سے دل سخت رنجیدہ ہوا ہے اور یہ الفاظ پیغمبر کی توہین پر مبنی ہیں میری دانست کے مطابق۔۔۔۔ہم جانتے ہیں کہ آپکو “اساطیر الاولین” بہت یاد ہیں اور آپ ان کہانیوں کے ذریعے بہت داد سمیٹتے ہیں مگر قرآن کو بازیچئہ اطفال نہ بنائیں۔
اگر آپ نے اس ناچیز کے ان سوالات کے جوابات نہ دیے تو پھر میں یہ مسئلہ تمام مکاتب فکر کے علماء و محققین کی خدمت میں پیش کرونگا۔
نوٹ: میرے پوسٹ کردہ اس کلپ پر بعض دوستوں نے بہت ناروا کمنٹ کیے ہیں میں ان سے بالکل متفق نہیں ہوں۔
طالب دعاء
گلزار احمد نعیمی۔