جہاد جنگ اور دہشت گردی 2,076

جہاد، جنگ اور دہشت گردی مجتبیٰ محمد راٹھور

جہاد، جنگ اور دہشت گردی
مضمون نگار: مجتبیٰ محمد راٹھور
اس وقت دنیا کے تمام تصادم زدہ علاقوں بالخصوص پاکستان میں ان تینوں اصطلاحات جہاد، جنگ(War)اور دہشت گردی کا بکثرت استعمال کیا جارہاہے۔ اگرچہ تینوں اصطلاحات کئی اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا جدا ہیں۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ متصادم فریقین کے درمیان ان اصطلاحات کے استعمال میں حددرجہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ اگرایک فریق اپنی جنگ لڑائی کو جہاد سمجھتا ہے تو دوسرا فریق اسے دپشت گردہ قرار دیتا ہے اسی طرح ایک فریق اپنی جنگ کو دہشت گردی کے خلاف کاروائی کے طورپر درست قرار دیتا ہے تودوسرا فریق اس کاروائی کوہی دہشت گردی قرار دیتا ہے اسی اختلاف کی بناء پر عام لوگوں کو یہ سمجھنے میں دشواری پیش آرہی ہے کہ ان میں سے کون فریق حق پر ہے اور کون باطل پر۔ اس لئے سب سے پہلے ہمیں ان اصطلاحات کا جاننا بہت ضروری ہے۔ تاکہ ان کے درمیان فرق واضح ہو سکے۔
جہاد:
اسلام میں جہاد کا تصور اور مفہوم بہت وسیع ہے۔ جنگ یاقتال(لڑائی) کو جہاد کا جزو تو کہا جا سکتا ہے لیکن صرف جنگ یا قتال پر ہی جہاد کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ جہاد کو جنگ اور قتال کے ضمن میں استعمال کرنے کے لیے جہاد کے اعلیٰ وارفع مقصد کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ اسلام نے جہاد کا حکم اس لیے دیا تاکہ دنیا سے ظلم کا خاتمہ ہو، شراور فساد کی سرکوبی کی جائے مگر ساتھ ہی احترام نفس اور احترام انسانیت کا بھی خیال رکھا جائے۔ جو لوگ بھی دنیا میں ظلم و ستم اور غارت گری کریں انہیں اس بات سے روکا جائے تاکہ یہ دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکے۔ اس لئے اسلام میں جہاد کا حکم ہمیشہ کے لیے نافذ العمل ہے اور اس کے لیے یہ بتایا گیا کہ جہا دکا آغاز اپنے نفس سے کرو جہاد بالنفس سے مرادیہ ہے کہ اپنی نفسانی خواہشات اور لالچ کے خلاف مجاہدہ کرو۔ ساتھ ہی شیطان کے خلاف جہاد کرو جو تمہیں غلط راستے کی طرف لے کر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کا حکم دیا انہیں پورا کرو اور جن باتوں سے منع کیا ان سے رک جاؤ۔ مزید برآں اپنے خاندان کی تربیت کے لیے جہاد کرو۔ اپنی اولاد کی صحیح اسلامی بنیادوں پر تربیت کرو تاکہ وہ معاشرے میں اچھے شہری بن سکیں پھر معاشرے میں جہاد کا حکم دیاکہ لوگوں کو ظلم اور برائی سے باز رہنے کی تلقین کرو۔ ساتھ ہی ہر وہ کام کرو جو معاشرے کے لئے بہتری لائے اور لوگ امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گزاریں۔مزید بر آں ہر اس طریقے کی مخالفت کرو جو فطرت اور اخلاق کے خلاف ہو۔اس کے ساتھ یہ حکم بھی دیا گیا کہ اس امر کے باوجودکہ تم دنیا میں امن و سلامتی کے پیغام کو فروغ دے رہے ہو، کسی کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے مرتکب بھی نہیں ہوئے، اگر کوئی شخص یا گروہ تمہارے ساتھ ظلم اور زیادتی کرے اور تمہارے درمیان شروفساد پھیلائے تو تم پر لازم ہے کہ (بطور قوم)تم اللہ کی راہ میں ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ارادوں سے باز آجائیں۔ اسلام میں جنگ اور لڑائی کا حکم تو ظلم اور زیادتی کے خلاف آخری حربے کے طور پر دیا گیا اور حتی الامکان یہ کوشش کی گئی کہ جنگ اور قتال سے دور رہا جائے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج مسلمانوں نے جہاد کے مقصد کو بھلا دیا ہے۔بعض کم علم مسلمان جہاد کے نام پر دنیا میں فتنہ و فساد برپاکرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اغیار کے اس دعوے کو ثابت کرنے میں برابر کے شریک ہیں جو اسلام پر ہمیشہ طعنہ زنی کرتے آئے ہیں کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا ہے۔ جہاد کے یکسر مخالف اہل مغرب اور جہاد کی خود ساختہ تعبیرو تشریح کرنے والے یہ دونوں طبقات اسلام اور جہاد کے مفہوم سے یکسر نابلد ہیں۔ جہاد کے اصول و مبادی جو جنگ اور قتال کے لیے اسلام نے متعین کئے ہیں۔ وہ اسے تمام روئے زمین کے مذاہب سے ممتاز کرتے ہیں اور انہی اصولوں کو لیکر آج کی جنگوں کے لیے عالمی قوانین بنائے جارہے ہیں اور دنیا میں ایک بار پھر احترام نفس اور احترام انسانیت کے لیے اسلام کے اصولوں کو اپنانے کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ جہاد کا یہ وسیع مفہوم اسے دنیا میں لڑی جانے والی دیگر جنگوں سے ممتاز کرتا ہے۔ جنگ کا جو مفہوم اسلام کے علاوہ دیگر اقوام میں ہے وہ جہاد سے یکسر مختلف ہے۔
جنگ:
جس طرح اسلام نے جہاد میں قتال کے لیے جو اخلاقی پہلو وضع کیا ہے وہ ہمیں آج کی مغربی تہذیب میں نظر یہ جنگ کے طورپر کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ ان کےہاں ان اصولوں کا کوئی تعین نہیں کہ جنگ کن مقاصد کے لیے جائز ہے اور کن کے لیے ناجائز۔ اگر ان کے ہاں جنگ کا کوئی پاکیزہ نصب العین ہے تو کیا وہ اس پر پورا اتر رہے ہیں یا اندرون خانہ، جنگ کے کوئی اور مقاصد کار فرما ہیں۔ ان تمام سوالوں کا ہمیں جواب تلاش کرنے کے لیے قبل از اسلام اور بعد از اسلام کی تما م جنگوں کے اسباب و وجوہات پر ایک سر سری نظر ڈالنا ہوگی۔ اگر ہم زیادہ دور نہ جائیں تو ہمیں دو عالمی جنگوں کے اسباب ہی سے صورتحال کا ادراک ہو جا تاہے۔ اسلام سے پہلے جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں انکی بنیاد آپس کی دشمنی اور ایک دوسرے پہ اپنی برتری ثابت کرنا تھی۔ روم، فارس اور عرب کی اقوام کے درمیان جتنی بھی جنگیں ہوئیں انکا موازنہ جب ہم عالمی جنگوں کے ساتھ کرتے ہیں تو ہمیں ان میں یہ قدر مشترک نظر آتی ہے کہ جو قوم بھی علمی، سائنسی اور معاشی اعتبار سے مقدم ہے وہ دوسروں کو اپنے زیر تسلط رکھنا چاہتی ہے۔ ان جنگوں کے نہ تو اھداف و مقاصد ہوتے ہیں اور نہ ہی ان جنگوں کے دوران مہذبانہ طریقوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ آج کل کی جنگوں میں ہو رہا ہے۔ مغربی تہذیب کے بظاہر نظریا ت کے برعکس جو عملی حقیقت نظر آتی ہے اس کے مطابق جنگ کا مقصد صرف کمز وراقوام کی آزادی کو سلب کرنا اور انکی دولت و وسائل پر قبضہ کرنا اور لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا شامل ہے۔ ان جنگوں کے دوران جنگ کے طے شدہ عالمی ضابطوں اور قوانین کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں اور نہتے شہریوں کا بے دریغ قتل عام کیا جاتاہے۔ جہاد اور جنگ میں یہی بنیادی اصول وجہ تفریق ہیں کہ جہاد کا مقصد دنیا میں امن وسلامتی ہے جبکہ جنگ صرف تباہی لاتی ہے۔ اسلام نے کسی بے گناہ کا خون بہانے سے سختی سے منع کیا ہے اور اس میں مسلمان اور کافر کی کوئی قید نہیں کی گئی۔ ظلم و زیادتی سے ہر حال میں منع کر دیا گیا حتی کہ آپ حالت جنگ میں بھی کسی سے زیادتی نہیں کر سکتے۔ اسلام نے تو ایسے قوانین دیے ہیں جو کسی بھی انسان کو ناجائز تکلیف پہنچانے یا اسے قتل کرنے پر جرم کے برابر سزا کا تعین کرتے ہیں۔ اسلام کے علاوہ دنیا میں اور کوئی بھی ایسا نظریہ یا نظام قانون نہیں وضع کیا گیا جو انسان کی حفا ظت اور امن و سلامتی کے لیے اس حد تک مفید و کار آمد رہا ہو۔ اور انسان کی قدروقیمت کا تعین کرسکے۔
آج کا بین الاقوامی قانون، جنگ کے قوانین پر توبحث کرتا ہے لیکن وہ کسی بھی جنگ کے جائز و ناجائز ہونے کے متعلق رائے دینے سے قاصر ہے۔ چند ایک ایسے قوانین بن چکے ہیں جن کی بناء پر کسی بھی جنگ کے جواز یا عدم جواز کی حیثیت بتائی جاسکتی ہے۔ لیکن اقوام متحدہ میں بڑی اقوام کی اجارہ داری ہے جن کے نزدیک ان قوانین کی کوئی اہمیت نہیں۔۱
آج کی قوموں اور ملکوں نے وسائل جنگ میں تو ترقی کے آسمانوں کو چھو لیا ہے لیکن جنگ کے دوران جو روح کام کررہی ہوتی ہے، اس میں وہی وحشت سمائی ہے جو قدیم زمانے کاخاصہ تھا۔ اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنگ کا مغربی تصور اسلام کے تصور جہاد سے قطعی مختلف ہے۔
دہشت گردی:
دہشت گردی دور حاضر کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور اس وقت کئی ممالک دہشت گردی کا شکا ر ہیں حتیٰ کہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ بھی دہشت گردی کا شکار ہو چکا ہے۔ لیکن اسکے باوجود ابھی تک اس لفظ”دہشت گردی“(Terrorism)کی کوئی ایسی جامع تعریف سامنے نہیں آئی جس کی بنیاد کسی گروپ، تنظیم یا کسی بھی ملک کی جارحانہ کاروائی کو متفقہ طور پر دہشت گردی قرار دیا جاسکے۔ اس اختلاف کی بنیادی وجہ جہاں تک سمجھ میں آتی ہے وہ صرف یہی ہے کہ ہر ایک فریق اپنے خلاف کی جانے والی کاروائی کو دہشت گردی قراردے کر تصادم کے راستے پر چل پڑتا ہے اس لئے ہر ایک گروہ کے نزدیک دہشت گردی کی الگ تعریف ہے۔ مغربی ممالک جانبدارانہ طور پر ریاست کے خلاف مزاحمت کی ہر صورت کو دہشت گردی قرار دینا چاہتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کی تعریف سے مستثنیٰ قرار دینا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں طے کیا گیا ہے کہ آزادی کی جدو جہد اگر اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قانون کے اصول عامہ کے مطابق ہو تو جائز ہے مگر ہر ریاست اسے کچلنے کی کوشش کرتی ہے۔ دور حاضرمیں تو چند ناعاقبت اندیش مسلمانوں کی وجہ سے اسلام اور جہاد پر بھی دہشتگردی کے الزامات لگنا شروع ہوگئے ہیں حالانکہ اسلام میں جہاد کاحکم دہشت گردوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیے آیا ہے۔ کیونکہ جہاد کیا ہی ان لوگوں سے جاتا ہے جو اپنے مذموم مقاصد کے لیے طاقت کا استعمال کر تے ہیں اور لوگوں کو دہشت زدہ اور مرعوب کرتے ہیں۔ جہاد و قتال پر امن غیر مسلم افراد کے خلاف تونہیں کیا جاتا بلکہ ان متحارب کفار کے خلاف ہوتا ہے جو مسلمانوں پر ظلم و ستم کرتے ہیں یا ان کی عبادت گاہوں کو تباہ کرنے اور انھیں عبادت سے روکنے کے لیے مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کا ارتکاب کرتے ہیں دہشت گردی کی جو تعریفیں مغربی دانشوروں نے کی ہیں ان میں سے جو تعریفات اسلام میں دہشت گردی کے تصور کے قریب تر ہیں یو نا ہ الیگز ینڈ ر کی تعریف بھی اس زمرے میں آتی ہے۔
اس کے مطابق”دہشت گردی یہ ہے کہ عام شہری آبادی اور تنصیبات کے خلاف تشدد کا استعمال اس طرح کیا جائے کہ لوگوں میں ایک عمومی خوف کا احساس پیدا ہواور اس طرح کوئی سیا سی مقصد حاصل کیا جائے۔“۲
جبکہ ایک اور تعریف جو عالمی عدالت انصاف کے سابق جج ھگنز نے کی ہے، وہ اس طرح ہے۔
”دہشت گردی کی اصطلاح دراصل ان بالعموم ناپسندیدہ افعال کو ایک ہی عنوان کے تحت ذکر کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن میں یا تو طریقہ ناجائز ہوتاہے۔یا اھداف کو حملے سے قانونی تحفظ حاصل ہوتاہے۔ یا یہ دونوں باتیں ان میں شامل ہوں۔ خواہ ان کا ارتکاب ریاست کرے یا افراد“
اس تعریف کی رو سے افراد کے ساتھ ساتھ ریاستیں بھی دہشت گردی کی مرتکب ہو سکتی ہیں جب کہ وہ جارحیت کریں۔ اس لئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی ریاست کے عہدیداروں کی جانب سے کسی دوسری ریاست میں دہشت گردی کی کاروائی کرنا یا اس کی حوصلہ افزائی کرنا بھی جارحیت میں شامل ہے۔ ایک اور ماہر قانون برائن جینکز نے دہشت گردی کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔
”دہشت گردی کی تمام صورتیں اصلاًجرائم ہیں۔ اسکی اکثر شکلیں آداب القتال کی خلاف ورزی پر مبنی ہوتی ہیں۔ تمام صورتوں میں طاقت کا استعمال یاا س کی دھمکی شامل ہوتی ہے اور اس کے ساتھ کوئی مطالبہ ہوتا ہے عموماًاس کاروائی کا نشانہ غیر مسلح شہری ہوتے ہیں، محرکات ہمیشہ سیاسی ہوتے ہیں۔ کاروائی اس طرح کی جاتی ہے کہ اسے بڑی شہرت حاصل ہو۔ کاروائی کرنے والے عموماًکسی منظم گروہ کے رکن ہوتے ہیں“
مندرجہ بالاتعریفوں میں کوئی نہ کوئی ابہام پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ تعریفیں دہشت گردی کی تعریف کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ اس کے لیے جب ہم شریعت اسلامی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ تو ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کے نزدیک ہر وہ عمل چاہے اس کا مرتکب کوئی فرد، گروہ یاریاست ہو۔ جس میں ظلم و زیادتی کا شائبہ ہو، جس سے معاشرے میں خوف و ہراس پیدا ہو، جس سے شر اور فساد کو فروغ ملے اور جس کے لیے طاقت کا استعمال یاا سکی دھمکی دی جائے، ایساہر عمل دہشت گردی کہلائے گا۔ چاہے اس عمل کے پیچھے کوئی بھی مقصد کار فرما ہو۔ اس لئے یہ تعریف ان جرائم کو بھی شامل کرتی ہے جو براہ راست معاشرے میں فساد کا سبب بنتے ہیں کیونکہ اسلام نے معاشرے میں امن و سلامتی کے فروغ پر بہت زیادہ زور دیا ہے تا کہ لوگ بغیر کسی خوف کے اپنی زندگی گزار سکیں۔
اس جامع تعریف کی رو سے اگر ہم مسلمانوں کے فلسفہ جہاد کو دیکھتے ہیں تو اس میں واضح طورپر یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر وہ عمل جو اسلام کے تصور جہاد او ر آداب القتال کے معیار پر پورا نہ اترتاہو وہ دہشت گردی کہلائے گا۔ آج اگر چند نادان مسلمان جہاد کے نام پر صراحتہً، اسلام کے تصور جہاد کی نفی کرتے ہوئے کسی بھی معاشرے میں خوف اور دہشت گردی کو پھیلا رہے ہیں تو ان کے اس عمل کو دہشت گردی ہی کہا جائے گا۔ مگر ان چند افراد کا حکم پوری امت اسلامیہ اور دین اسلام پر لگانے سے تہذیبوں کے درمیان تصادم کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ اس لیے مغربی دنیا کے دانشوراور پالیسی ساز خود بھی ایک واضح دہشت گردی کے مرتکب ہورہے ہیں جو اسلام کو بطور مذہب نشانہ بنا کر عالمی معاشرے میں انتشار اور جنگ کی کیفیت پیدا کر رہے ہیں۔ دین اسلام میں دہشت گردی کی متذکرہ بالا تعریف کی رو سے کوئی ریاست یا حکمران یا کوئی بھی تنظیم اور ادارہ ناجائز طور پر عوام الناس کے ساتھ ظلم و زیادتی کا مرتکب ہوتاہے، ان کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کرتا ہے اور معاشرے میں خونریزی پھیلانے کا سبب بنتا ہے تو اسکا یہ فعل دہشت گردی کہلائے گا۔ اگر ہم دور حاضر کے تصادم پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ہر طرف ظلم اور تعدّی نظر آتا ہے۔ ہر ایک فریق اپنے آپ کو مظلوم سمجھ کر ظالم بن بیٹھا ہے حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر کوئی مظلوم اپنے اوپر کئے جانے والے ظلم کا بدلا لینا چاہتاہے تو اسے چاہیے کہ وہ ایسا ہی بدلا لے جتنا اس پر ظلم ہوا ہے۔اگر وہ اس میں زیادتی کرتاہے تو وہ خود ظالم بن جاتا ہے۔ اسی طرح مختلف ریاستوں کی جانب سے بے گناہ عوام پر کی جانے والی بمباری اور عورتوں، بچوں اور عام لوگوں کا قتل عام بھی دہشت گردی ہی کہلائے گا۔ لیکن یہاں ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ وہ لوگ یا گروپ جو صراحتہً دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں، حکومت یا ریاست سے بغاوت کرتے ہیں اور معاشرے میں فساد پیدا کرتے ہیں۔ ایک اسلامی مملکت میں ان کے خلاف حکومت کی کاروائی اسلامی اصولوں کے مطابق جہاد کے زمرے میں آتی ہے۔ اس لئے حکومت کا فرض ہے کہ ایسے افراد یا تنظیمیں جو معاشرے میں فساد پھیلاتے ہیں ان کے خلاف علم جہاد بلند کرے۔ جو لوگ کسی نہ کسی طریقے سے ان کی مدد کر رہے ہوں ان کے خلاف بھی کاروائی کرنا حکو مت کے فرائض میں شامل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔تفصیل ملاحظہ کیجیے،جنگ کے عالمی قوانین میں۔
۲۔ جہاد، مزاحمت اور بغاوت، محمد مشتاق احمد۔ صفحہ563