خلافت بنو عباسیہ 1,979

خلافت بنو عباسیہ | 750ء بمطابق 132ہجری تا 1258 ء بمطابق 656ہجری

خلافت بنو عباسیہ

750ء بمطابق 132ہجری تا 1258 ء بمطابق 656ہجری

تعارف:

واقعہ کربلا میں نواسہ رسول امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ کو ان کے 72 اہل بیعت سمیت جس بے دردی سے شہید کیا گیا ؛اس بربریت کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ اس واقعہ نے عالم اسلام کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا ۔ اس کے بعد بنو امیہ نے 100سال تک عالم اسلام پر حکومت کی لیکن ان کے دور میں خاندان علیؓ کو حکومت میں لانے کے تحریکیں چلتی رہیں ۔

اس تما م دور میں شیعان حضرت علی ؓ نے اموی خلفاء کا ناک میں دم کئے رکھا۔ جیسے جیسے عوام کو علم ہوتا گیا تواموی سلطنت بھی کمزور ہوتی چلی گئی اور یہ تحریکیں زیر ِزمین پھلتی پھولتی گئیں تا آنکہ ان کی باگ دوڑ خاندان حضرت علی ؓ سے نکل کر ڈرامائی انداز میں خاندان بنو عباسؓ کے ہاتھوں میں چلی گئی ۔ یوں ایک طویل جد جہد کے بعد بنو عباس کے پہلے خلیفہ ابوالعباس السفاح نے چودھویں اور آخری اُموی خلیفہ مروان ثانی بن محمد بن مروان الحکم کو دریائے ژاب(عراق میں واقع ہے ) کے کنارے شکست دی ۔ اس نےخلافت بنی عباسیہ کی داغ بیل ڈالی جو 1258ء تک قائم رہی اور بالاخر چنگیز کے خان کے پوتے ہلاکو خان نے عباسی خلیفہ مستعصم بااللہ اور اس کے بیٹوں کے قتل کے بعد ملت اسلامیہ سے خلافت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا۔

خاندان عباس کا پس منظر:

ایک روایت کے مطابق سرور کائنات ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباسؓ کو خبر دی تھی کہ آپؓ کی اولاد بنو امیہ کے بعد منصب خلافت پر فائز ہوگی۔ حضرت عباس ؓ ؛حضرت محمد ﷺ سے تین سال بڑے تھے اور تراسی سال کی عمر حضرت عثمان غنی ؓ کے عہد میں مدینہ منورہ میں انتقال فرمایا۔ ان کی آخری عمر میں بینائی جاتی رہی ۔ان کے چار فرزند حضرت عبداللہ ؓ ، عبیداللہؓ، فضل ؓاور قثم ؓتھے۔ فضلؓ کا انتقال شام میں ،عبیداللہ ؓکا مدینہ منورہ میں جب کہ قثم ؓ کا ثمر قند میں ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ؛رسول ﷺ کے وصال کے وقت آٹھ سال کے تھے ۔ آخری عمر میں ان کی بینائی بھی جاتی رہی ۔ انہوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے عہد میں طائف میں انتقال فرمایا۔وفات کے وقت آپ کی عمر 73 سال تھی۔ ان کے آٹھ میں سے ایک فرزند علی بن عبداللہ خلفائے بنی عباس کے جد امجد ہیں۔

علی بن عبداللہ رضی اللہ عنہ:

ان کا نام حضرت علی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود رکھا۔ وہ زاہد و عابد تھے۔ایک باغ میں پانچ سو درخت تھےوہاں جا کر ہر درخت کے نیچے دو رکعت نماز ادا کرتے تھے۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے آپ کو کوڑے لگائے کہ آپ نے اس کی مطلقہ خاتون سے نکاح کر لیا تھا۔ علی بن عبداللہ کو چودہ سال کی عمر میں اللہ نے ایک فرزند عطا فرمایا ؛اس کا نام محمد رکھا گیا ۔یہی محمد خلفائے بنی عباس کا جد امجد تھا۔

اس نے عمر بن عبدالعزیز سے اجازت لے کر ایک حارثیہ خاتون رایطہ بنت حارث سے شادی کر لی ۔بنو امیہ نے عباسیوں کو بنی حارث کی کسی خاتون سے شادی کرنے سے منع کر رکھا تھا۔ کیونکہ ایک روایت بیان کی جاتی تھی کہ بنی امیہ کی خلافت اس شخص کو ملے گی جس کا باپ عباسی اور ماں حارثیہ ہو گی۔ اسی خاتون سے محمد کا بیٹا ابوالعباس السفاح پیدا ہو ا ۔جب کہ دیگر بیٹے ابراہیم، ابوجعفر منصور، علی اور حسن تھے۔ اس کی بیٹیاں بھی تھیں ۔کہاجاتا ہے کہ محمد حنفیہ کے بیٹے ابوہاشم نے بوقت مرگ محمد بن علی کو وصیت کی تھی کہ جب ہجرت کو ایک سو سال گزر جائیں تو اپنے داعی اطراف ملک میں بھیج دینا تا کہ خلافت بنوعباس کی دعوت دی جائے ۔چنانچہ محمد بن علی نےایسا ہی کیا ۔104 ہجری میں جب ابو العباس السفاح پیدا ہوا تو محمد بن علی نے خراسانی نقیبوں سے کہا یہی تمہارا امام ہو گا۔

125ہجری میں خراسانی نقیبوں نے ابومسلم خراسانی کو کوفہ میں یوسف بن ابو سفیان باہلی کی خدمت گزاری میں دیکھا تو اسے اپنے مطلب کا پا کر اپنے ہمراہ محمد بن علی کے پاس لے گئے۔ محمد کی وفات پر انکا بڑا بیٹا محمد ابراہیم جانشین ہوا تو اس نے ابو مسلم خراسانی کو خراسان بھیج دیا۔ابو مسلم ایسے ہی موقع کے انتظار میں تھا۔ وہ لشکر جمع اور خندقیں کھدوا چکا تھا ۔ اس نے 129 ہجری بمطابق 747 عیسوی کو عید الفطر کے دن مرو میں حملہ کیا اور بنو امیہ کے اعمال کو خراسان سے نکال باہر کیا ۔ابومسلم بظاہر آل رسول ﷺ اور خفیہ طور پر آل عباس کی دعوت دیتا تھا۔ اموی گورنر نصر بن سیار مقابلے سے بھاگ کر ساوہ پہنچا تو انتقال کر گیا اور مملکت عجم پر ابو مسلم کا قبضہ ہو گیا۔اس نے بہت سا سامان مال غنیمت کے طور پر ابرہیم عباسی کی خدمت میں بھیجا۔ اس نے بھائیوں ،اہل خانہ اور نوکروں کے ہمراہ حج کیا ۔

اموی خلیفہ مروان حمار کو جب خبر ملی تو اس نے ابراہیم عباسی کو گرفتار کر کے حران کے قید خانے میں ڈال دیا۔ وہیں ابراہیم نےوفات پائی۔ ابراہیم کا بھائی ابو جعفر منصور اپنے چچاؤں ، بیٹوں اور بھائیوں کے ساتھ کوفہ میں رپوش ہو گیا۔ ابو مسلم عراق میں امیر “آل محمد” مشہور ہو گیا ۔اس نے زید بن علی علوی جو ہشا م بن عبدالملک کے دور میں بغاوت کے جرم میں قتل ہو گیا تھا ؛کی یاد میں لوگوں کو ماتم داری اور سیاہ لباس پہننے کا حکم دیا۔

کہا جاتا ہے کہ اس مرحلےمیں ابو مسلم نے تین علویوں حضرت امام جعفر صادق، عبداللہ بن حسن رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ اور عمر بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ کو یکے بعد دیگرے امامت کی پیش کش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔اسی اثنا میں کوفہ میں خراسانی نقیبوں نے ہنگامہ کر دیا اور ابو حمید ثمرقندی نامی ایک خوارزمی غلام نے ابوالعباس السفاح سے بیعت کر کے لوگوں کو بھی اس کے بارے میں خبر کر دی۔ لوگ جمع ہو گئے تو ابوالعباس بروز جمعرات بارہ ربیع الاول 132 ہجری بمطابق 29 اکتوبر 749 ء بوقت شام سیاہ لباس پہن کر باہر آیا ۔مسجد جامعہ میں بیعت خلافت ہوئی۔

ابومسلم خراسانی کی وجہ سے خلافت عباسیہ قائم ہوئی:

ابو مسلم کے نام و نسب میں اختلاف پایا جاتاہے۔ بعض مورخین اسے اصلاَ عرب لیکن اصفہان کی پیدائش بتاتے ہیں اور بعض مورخین کے نزدیک وہ عجمی تھا۔ لیکن اس پر سب متفق ہیں کہ وہ بڑا عالم فاضل اور حافظ قرآن تھا۔ قد چھوٹا ،رنگ گندمی جلد صاف بالائی حصہ لمبا اور پنڈلیاں چھوٹی تھی۔ کسی نے اسے مزاق کرتے ،ہنستے یا خوشی میں نہیں دیکھا۔ بڑا سخت دل اور بے رحم تھا۔ اس نے بنی امیہ کے ہر حامی اور ہمدرد کو قتل کیا ۔اس نے لڑائیوں کے علاوہ جن لوگوں کو قتل کیا ان کی تعداد تین لاکھ ساٹھ ہزار بتائی جاتی ہے۔اس کی تین بیویاں تھیں۔اس کے باورچیوں کی تعداد ایک ہزار تھی ۔روزانہ تین ہزار روٹیاں پکتی اور ایک سو تیس بکرےذبح ہوتے تھے۔ بارہ سو جانور صرف اس کے باورچی خانے کا سامان اٹھاتے تھے۔ وہ جس سال حج کے لئے نکلا پورے قافلے کے کھانے پینے کا اہتمام اس نے کیا۔ وہ جب حد حرم پہنچا تو سواری سے اتر کر ننگے پاؤں ہو گیا۔ 102 ہجری بمطابق 720-21میں پیدا ہو اور 137ہجری بمطابق 754 -55 میں 30 سال کی عمر میں ابوجعفرمنصور عباسیوں دوسرے خلفیہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔

بنی عباس کے معمار حکمران :

1۔ ابو العباس السفاح:

اس کا اصل نام عبداللہ تھا۔ اس کی بیعت 13 ربیع الاول 132ہجر ی میں کوفہ میں ہوئی۔ سب سے پہلے اس کے چچا داؤد بن علی پھر بھائی ابوجعفر منصور نے بیعت کی ۔ ابوالعباس نے اپنے چچا عبداللہ بن علی کو خلیفہ مروان ثانی سے جنگ کے لئے مقرر کیا۔ اس نے مروان ثانی کو شکست دے کر دریائے ژاب کے کنارے قتل کیا۔ دمشق کی فصیل گرا دی ۔تمام اموی حکمرانوں کی قبریں اکھاڑ کر ان کی ہڈیا ں جلائیں۔ ان کے تمام رشتہ داروں اور معاونوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ان کے سربراہ ابو العباس کے پاس بھیج دئیے۔ ابوالعباس کی مدت حکومت چار سال اور دوماہ تھی ۔اس نے ذی لحج 136 ہجری بمطابق جون 754 عیسوی میں انتقال کیا۔

2۔ ابو جعفر منصور:

اس کا اصل نام بھی عبداللہ تھا۔ یہ ابوالعباس السفاح کا سوتیلا بھائی تھا اور عمر میں اپنے بھائی سے بڑا تھا۔ اس لئے سفاح نے اس کو ولی عہد بنایا۔ ابوجعفر کو عبدالملک طویل بھی کہتے ہیں۔ 95ہجری میں بمقام شراۃ، شام میں پیدا ہوا۔ بیعت خلافت کے وقت عمر 42 سال تھی۔چچا عبداللہ بن علی شام میں خلافت کا مدعی بن گیالیکن ابومسلم خراسانی نے گرفتار کر کے ابو جعفر کے پاس بھیج دیا۔ عبداللہ کی وفات قید میں ہوئی۔ ابو جعفر منصور ابو مسلم کے اثر ورسوخ سے خوف زدہ تھا۔اس لئے موقع ملتے ہی ابو مسلم کو قتل کروا دیا۔ منصور نے بغداد شہر کی بنیاد رکھی اور اسے مدینہ الاسلام یعنی شہر امن کا نام دیا۔ تین دن کم بائیس سال کی حکمرانی کے بعد پانچ ذی الحج 158ہجری بمطابق 7 اکتوبر 775عیسوی کو 63 سال کی عمر میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔

3۔ مہدی محمد بن جعفر منصور:

وہ منصور کا بڑا بیٹا تھا۔ اس کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ ایک سو اکیس ہجری بمطابق 739 عیسوی میں پیدا ہوا۔ باپ کی موت پر مکہ مکرمہ میں بیعت ہوئی ۔وہ نیک خصلت باجماعت نمازی ،سخی اور منصف مزاج تھا۔ اس نے تمام خزانے جو منصور نے جمع کئے تھے ؛خیرات کر دئیے۔ مسجد حرام میں توسیع کروائی۔ بیماروں اور معذوروں کے لئے شفا خانے بنوائے۔ اپنے بیٹے ہادی بعض کے مطابق ہارون کو ایک لاکھ جنگجوؤ ں کے ساتھ روم کی طرف بھیجا۔ یہ لشکر فاتخانہ واپس آیا اور رومیوں نے سترہزار دینار سالانہ جزیہ دینا منظور کیا۔ اسی کے عہد میں ایک چشمی حکیم مقنع مروی نےبغاوت کی۔ وہ عقیدہ تناسخ کا پرچارک تھا۔ حاکم خراسان نے اسے کش (سبز شہر) میں گھیر کر شکست دی اور مقنع مارا گیا۔ مہدی نے 22 محرم 169 ہجری بمطابق 4اگست 785عیسوی کو بروز جمعرات رے کے مقام پر وفات پائی۔ اس مد ت حکومت دس سال ایک ماہ اور انیس دن تھی۔

4۔ ہادی ابو موسیٰ بن مہدی:

ابو محمد موسی ٰ ہادی 145 ہجری میں کوفہ میں پیدا ہوا۔ والد کی وفات کے وقت وہ جرجان میں تھا۔ حقیقی بھائی ہارون نے اس کی طرف سے بغداد میں بیعت لی۔ ہادی بڑا عقل مند، بلند ہمت اور کشادہ دل تھا۔ 25 سال کی عمر میں 17 ربیع الاول 170 ہجری بمطابق 16 دسمبر 786 عیسوی کو عراق میں فوت ہوا۔ اس کو حکومت کرنے کے لئے کم عرصہ ملا لیکن اس کے قلیل دور میں مملکت اسلامیہ نے خوب ترقی کی۔

عباسیوں کا عہدِ عروج کے خلفاء:

5۔ ہارون رشید:

ابو جعفر ہارون رشید کی بیعت 17 ربیع الاول 170 ہجری کو ہوئی۔ مورخین کے مطابق ایک دن پہلے ہادی نے وفات پائی، دوسرے دن ہارون خلیفہ کی کرسی پر بیٹھا اور تیسرے دن اس کا بیٹا مامون پیدا ہوا۔ خلیفہ بنتے ہی کرسی وزارت پر خالد برامکی کو متمکن کیا۔ حضرت ابو طالب کی اولاد کو امان دی اور بنی ہاشم کے لئے مال کا 5/1 حصہ مقرر کر دیا۔ قاضی ابو یوسف ؒ کو قاضی القضاۃ بنایا۔ رے اور مغرب کی قضاپر امام محمد حسن شعیبانی کو مقرر کیا۔ برامکہ کا عروج بہت بڑھ گیا تھا جسے توڑنے کے لئے ہارون نے جعفر بن یحییٰ کو مرو ا دیا۔ یحییٰ اور اس کے بیٹے فضل کو قید میں ڈلوایا۔ وہ دونوں قید خانے میں مرے۔ہارون ایک سال حج اور ایک سال جہاد کرتا تھا۔ اس کی خلافت مدت 23 سال تھی۔

6۔ محمد الامین بن ہارون:

اس کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ہارون نے امین اور اس کے بعد مامون کو ولی عہد نامزد کیا تھا۔ شوال 171 میں پیدا ہوا۔ بیعت طوس میں ہوئی۔ امین فاضل اور فیاض تھا لیکن نازونعم میں پلا تھا۔اس لئے جلد ہی لہو لہب میں مشغول ہو گیا۔مہینے میں صرف ایک بار دربار کرتا تھا۔ اس نے تمام اختیارات فضل بن ربیع کے حوالے کر دئیے تھے۔ مامون نے علی بن موسی علوی کے لئے بیعت کا اہتمام کر دیا تو امین نے ایک لشکر مامون سے جنگ کے لئے بھیج دیا ادھر مامون نے بھی ایک بھاری لشکر بغداد روانہ کردیا جس میں ایک سال کے محاصرے کے بعد فتح پائی ۔امین کو ہلاک کر دیا گیا۔ امین کی عمر 27 سال اور خلافت صرف چار سال تھی۔ بغداد میں اس کی موت کے بعد ابراہیم مبارک بن مہدی کی بیعت کر لی گئی تا کہ خلافت عباسیوں کے ہاتھ سے نہ چلی جائے۔ کیونکہ مشہور تھا کہ مامون نے علی موسیٰ رضاکی ولی عہدی کا اعلان کر دیا ہے۔ ابراہیم کی خلافت ایک سال اور گیارہ مہینے قائم رہی۔

7۔ عبداللہ المامون:

عبداللہ المامون کا رنگ سرخ و سفید ، آنکھیں بڑی اور سر کے بال کم تھے۔ چہرے پر ایک سیاہ تل تھا۔ وہ نیک سیرت ،رعیت پرور ، عادل و منصف اور محکمہ قضاۃ میں خود بیٹھتا تھا۔ وہ خطبہ دیتا اور جمعہ پڑھاتاتھا۔ علی بن موسیٰ رضاؒ کی موت کے بعد اپنے بھائی معتصم کو ولی عہد بنایا۔پرانے علوم ،فلسفہ، حکمت ،طب اور نجوم کو یونانی زبان سے عربی میں منتقل کروایا۔رومیوں کےخلاف کئی بار جہا د کیا اور ان کے متعدد قلعے اور شہر فتح کر لئے۔ پہلے فضل بن سہل اور پھر اس کے بھائی حسن بن سہل کو وزیر بنایا۔ طاہر بن حسن کو سپہ سالار مقرر کیا اور امین کی موت کے بعد بیس سال حکومت کی اور اڑتالیس سال کی عمر میں 218ہجری بمطابق 833 عیسوی میں رومی علاقے میں فوت ہوا۔ اس کی میت طرطوس لاکر دفن کی گئی۔

8۔ معتصم باللہ:

ابو اسحاق محمد معتصم بااللہ بن ہارون کا اصل نام ابراہیم تھا۔شعبان 181 ہجری اکتوبر 797 عیسوی میں پیدا ہوا، بڑا عادل ، علم دوست ،منتظم ،حد درجہ فیاض اور بنی عباس کا بہادر ترین حکمران تھا۔ امین کی موت کے بعد مامون کے ساتھ رہا۔ اس نے خوش ہو کر تمن کے بجائے اسے ولی عہد بنا دیا ۔ مامون کے زمانے میں بابک خرمی نے آذربائیجان میں بغاوت کی تو معتصم نے اسے گرفتار کر کے بغداد بھیج دیا جہاں اسے پھانسی دی گئی۔ بابک نے بیس سال میں اڑھائی لاکھ مسلمان قتل کئے تھے۔ اس کے علاوہ متعصم نے رومیوں کا شہر عموریہ فتح کیا۔ نواح بغداد میں سرمن رائے کے نام سے نیا شہر آباد کیا ۔وہ عباسی خاندان کا آٹھواں حکمران، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی آٹھویں پشت میں تھا اور آٹھ سال آٹھ ماہ اور آٹھ دن حکمران رہا۔ اس کے آٹھ بیٹے اور آٹھ بیٹیاں تھیں۔ اس نے آٹھ ہزار دینا ر اور آٹھ ہزار درہم ترکہ میں چھوڑے۔ اس وجہ اسے خلیفہ مثمن کہتے تھے۔ 19 ربیع الاول 227 ہجری بمطابق 6 جنوری 842 عیسوی کو بروز جمعرات وفات پائی۔ وفات کے وقت اڑتالیس عمر تھی۔

9۔ واثق بااللہ:

ابو جعفر ہارون الواثق بااللہ بن معتصم بااللہ ایک رومی خاتون کا بیٹا تھا۔ بڑا اکھڑ مزاج اور تند خو تھا۔ اس کا رحجان معتزلہ عقائد کی طرف تھا۔ قرآن مجید کو مخلوق نہ کہنے پر امام احمد بن حنبل کو کوڑے لگوائے۔قصص ابن الہشم میں درج ہے کہ واثق نے سلامہ ترجمان نامی شخص کوپچاس ہزار آدمیوں کے ساتھ سد سکندر کی خبر لانے کو بھیجا۔ وہ دو سال سات مہینے گزار کر واپس آئے اور تمام معلومات اپنے ساتھ لائے۔ واثق کے عہد میں مشرق سے خوف ناک آواز والی آگ ظاہر ہوئی ۔ بہت سی خلقت خوف سے ہلاک ہو گئی۔ واثق نے پانچ سال اور نو ماہ کی حکمرانی کے بعد ذی الحج 232ہجری جولائی یا اگست 847عیسوی کوسرمن رائے کے مقام پر وفات پائی۔

10۔ متوکل علی اللہ:

متوکل علی اللہ جعفر اپنے بھائی واثق کی موت پر 26 سال کی عمر میں خلیفہ نامزد ہوا۔ وہ پسندیدہ اخلاق ،فیاض، راسخ العقیدہ اہلسنت تھا۔ اس نے قرآن مجید کو مخلوق کہنے والے موسیٰ بن عباس کو قتل کروا دیا۔ امام احمد بن حنبل کو قید سے رہا کیا۔ 247 ہجری بمطابق 861 عیسوی کی ایک شب مشغول طرب تھا کہ ترک غلاموں نے قتل کر دیا۔ چالیس سال کی عمر میں چودہ سال اور دس دن حکومت کرنے کے بعد مارا گیا۔

11۔مستنصر بااللہ:

مستنصر باللہ بن توکل علی اللہ باپ کی شہادت کے بعد فوراَ بعد خلیفہ بنا ۔اس کی ماں رومی خاتون تھی۔ اپنے حقیقی بھائیوں معتز اور معید کو یکے بعد دیگرے ولی عہد قرار دیا ۔مگر باپ کے قتل کی سازش کے الزام میں صرف چھ ماہ بعد تخت سے دست بردار کر دیا گیا۔ چار ربیع الاول 248 ہجری بمطابق 9 مئی 862 عیسوی کو وفات پائی۔ موت کے وقت اس کی عمر بیس سال تھی۔ بعض روایات کے مطابق اسے زہر دیا گیا۔

12۔ مستعین بااللہ:

مستعین بااللہ ابوالعباس احمد بن محمد بن معتصم بااللہ مستعین بااللہ کے لقب کے ساتھ مستنصر بااللہ کی وفات کے دو دن بعد 28 سال کی عمر میں خلیفہ بنا۔ وہ نیک سیرت تھا۔ اس نے معتز کو قید میں ڈال دیا ۔ طاہر بن عبداللہ کی موت پر اس کے بیٹے محمد کو خراسان کا والی مقرر کیا۔اس کے عہد میں حسن بن زید علوی نے طبرستان میں بغاوت کی۔ آخر تین سال نو ماہ کی حکومت کے بعد مستعین بااللہ کو تخت سے دستبردار ہونا پڑا اور معتز بااللہ خلیفہ بنا۔ اسے بغداد سے نکال دیا گیا۔ اس دستبراری کے نو مہینے بعد وفات پائی۔

13۔ معتز بااللہ:

ابو عبداللہ محمد بن متوکل علی اللہ کانام ایک روایت کے مطابق زبیر تھا۔ 232 ہجری بمطابق 847 عیسوی کو پیدا ہوا۔ اس کی بیعت پر چھ محرم 253 ہجری بمطابق 16 جنوری 867 عیسوی کوہوئی ۔ خلافت پر تین سال گزرے تھے کہ ترکوں نے سرکشی کر کے خلافت سے الگ کر دیا۔ اس کے بیس روز بعد شہادت پائی۔

14۔ مہتدی بااللہ:

ابو عبداللہ محمد بن الواثق کی معتز بااللہ کی علیحدگی کے بعد رجب 255 ہجری بمطابق جولائی 869 میں سرمن سرائے میں بیعت کی ۔وہ زاہد عابد اور پرہیز گار تھا۔ اس نے عدل کامل کو اپنامسلک بنایا۔ عمر بن عبدالعزیز کی مثال پر عمل کرتے ہوئے ترکوں اور عباسیوں سے لوگوں کی املاک واپس کرنا چاہتا تھا کہ ترکوں سے ٹھن گئی۔ جنگ میں معتدی کو کئی زخم لگے ۔ترکوں نے پکڑ کر خلافت سے علیحدہ کر دیا۔ اس نے زخموں کے باعث وفات پائی ۔وہ 218 ہجری میں پیدا ہوا تھا ۔معتز نے بھی اس کے عہد میں وفات پائی۔اس کے عہد میں برقعی ( صاحب الزنج ) نے بغاوت کر کے بصرہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ مسلمانوں کو خوب لوٹا ۔وہ خود کو اہل بیت سے بتاتا تھا۔ کئی سال تک اس کا فتنہ جاری رہا۔

15۔ معتمدعلی اللہ:

ابو العباس احمد بن متوکل علی اللہ 16 رجب 256 ہجری کو خلیفہ بنا ۔ بھائی ابو احمد موفق بن احمد متوکل علی اللہ کو اپنا سپ سالار بنایا ۔جس نے بہت سے کارنامے سرانجام دئیے۔ موفق نے برقعی کو محاصرے میں لے کر گرفتا ر کیا پھر قتل کر کے اس کا سر بغداد بھیج دیا۔ معتمد کے عہد میں سجستان میں یعقوب لیث اور خراسان میں احمد عبداللہ خجستانی نے شورش برپا کی۔ مرو اور سر خس پر شرکب عمار نے قبضہ کر لیا اور بھی کئی فتنے پیدا ہوئے۔ معتمد نے 19 رجب 279 ہجری میں کثرت شراب نوشی سے وفات پائی۔

عباسی دورِزوال کے خلفاء:

16۔ معتضد بااللہ بن الموفق:

اس کانام احمد تھا۔ والد کا نام ابو احمد تھا۔ معتضد 37 سال کی عمر میں تخت خلافت پر بیٹھا۔ بڑا عالم ، نیک سیرت اور منتظم تھا۔ کاروبار اس نے خلافت کو درست کیا ۔شام میں خارجیوں کا فتنہ فرو کر نے کےلئےخود گیا۔ ماورالنہر میں نصر بن احمد ثانی کو اپنا نائب بنایا۔ خراسان کی حکومت عمرو لیث کو دی۔ جب اسماعیل سامانی نے زور پکڑا تو پورے خراستان کی حکومت اس کو دے دی۔ نو سال نو مہینے حکمرانی کی۔ بعض روایات کے مطابق دس سال حکمرانی کے بعد 22 ربیع الاول 289 ہجری بمطابق 6 مارچ 903 کو وفات پائی۔

17۔ مکتفی بااللہ ابومحمد بن علی بن المعتضد:

مکتفی ترک ماں سے یکم ربیع الاول 264 ہجری بمطابق 11 نومبر 877 عیسوی کو بغداد میں پیدا ہوا۔ اس نے باپ کی موت پر مسند خلافت سنبھالی۔ وہ عقل مند اور بااخلاق تھا۔اس کے عہد حکومت میں زکرویہ خارجی نے کوفہ میں بغاوت کی تو اس کا سر قلم کر کے اسماعیل سامانی کے پاس خراسان بھیج دیا۔شام میں صاحب شامہ قرمطی نے بغاوت کی تو اسے گرفتار کر کے جلا دیا گیا۔ اسماعیل سامانی کے انتقال پر خراسان کی حکومت احمد بن اسماعیل کو دے دی گئی۔ مکتفی بااللہ نے 6 سال 9 ماہ کی حکمرانی کے بعد ذی قعد 295 ہجری بمطابق اگست 908 عیسوی کو وفات پائی۔

18۔ مقتدر بااللہ ابوالفضل جعفر بن معتضد:

اس کی ماں کا نام شعب تھا۔ اس کی عمر خلافت کے وقت تیرہ سال ایک ماہ پچیس دن تھی۔ 25 سال حکمرانی کرنے کے بعد 27 شوال 320 ہجری بمطابق 21 اکتوبر 932 عیسوی کو شہید کیا گیا۔ اس کے عہد میں نصر قرمطی نے بغاوت کی لیکن قتل ہوا۔ اس کے علاوہ ابو لہیجا نے بغاوت کی اور مارا گیا کیونکہ اس نے مکہ مکرمہ کا قصد کیا تھا ۔ اس نے حجر اسود کو اکھاڑ ا اور غلاف کعبہ بھی اس نے اتار لیا تھا۔ احمد بن اسماعیل کی موت پر اس کے بیٹے نصر بن احمد کو خراسان کی حکومت تفویض کی گئی۔

19۔ قاہر باللہ ابوالمنصور بن معتضد:

قاہر جمادی الاولیٰ 287 ہجری میں پیدا ہوا۔اس کی ماں کا نام قول تھا۔ مقتدر بالاللہ کی شہادت پر مسند خلافت پر بیٹھا۔قاہر بااللہ نے مقتدر بااللہ کی ماں اور بیوی سے بے عزتی کا سلوک کیا اور پھر ان کو ہلاک کر دیا۔ بھائی مکتفی کو چار میخ کر کے آنکھوں میں سلائی پھیروائی دی۔ ساجہ ترکوں کے اثر و رسوخ کو توڑنے کی کوشش کی تو انہوں نے سیماناطی سالار کی قیادت میں ہلہ بول کر اسے گرفتا ر کر دیا۔ پھر آنکھوں میں سلائی پھیروادی۔ یہ 6 جمادی الاولیٰ 322ہجری کا واقعہ ہے۔اس نے 332 ہجری میں وفات پائی۔

20۔ راضی بااللہ ابوالعباس محمد بن مقتدر:

قاہر بااللہ کی معزولی پر راضی بااللہ کی بیعت کی گئی۔ وہ رجب 297 ہجری کو پیدا ہوا۔ بڑا فاضل، نیک ، عادل اور شاعر تھا۔ عجم کی حکومت نصر بن احمد سامانی کو دے دی۔ وزیرابن مقلہ پر زندقہ کا الزام لگا کر اس کا بایاں بازو کندھے سے کاٹ دیا۔ راضی کی حکومت چھ سال دس ماہ اور دس دن قائم رہی۔

21۔ متقی بااللہ ابو اسحاق ابراہیم بن مقتدر:

متقی کی ماں روم کی رہنے والی تھی ۔اس کا نام حلوت تھا۔ اس کی 20ر بیع الاول 329 ہجری بمطابق 5 دسمبر 940 کو بیعت ہوئی۔ ترکوں نے متحد ہو ایک ترک توران کو لشکر کا امیر وسالار بنا لیا۔ متقی کو ترکوں پر اعتماد نہ رہا تورانہوں نے موصل کے مقام پر صلح کے بہانے متقی کو اپنے خیمے میں بلایا اور اس کی آنکھوں میں سلائی پھیروا دی۔یہ حادثہ صفر 33 3 ہجری بمطابق اکتوبر 944 عیسوی کو پیش آیا۔ متقی کے زمانے میں نصر بن احمد سامانی کی وفات پر اس کے بھائی نوح بن احمد سامانی کو عجم کے لئے فرمان حکومت دیا گیا۔ اس کا انتقال شعبان 357 ہجری میں ہوا۔

22۔ مستکفی بااللہ ابوالقاسم عبداللہ بن مکتفی بااللہ:

مستکفی لونڈی سے پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش 292 ہجری میں ہوئی۔ اس کی صفر 333 ہجری میں بیعت ہوئی ۔اس کے عہد میں اآل بویہ نے عراق پر اپنا اثر قائم کر لیا تھا۔ 22 جمادی آلاخر 334 ہجری کو احمد بویہ نے خلیفہ کو گرفتار کروا کر اس کی آنکھوں میں سلائی پھیروا دی اور مطیع بااللہ کی بیعت کرلی،اس زمانے میں قحط بھی پڑا ۔ احمد بویہ بغداد سے گیا تو مخلوق کے لئے آسانی پیدا ہوئی، مستکفی کی مدت حکمرانی ایک سال چار ماہ تھی۔

23۔ مطیع بااللہ ابو القاسم فضل بن مقتدر بااللہ:

مطیع 301 ہجر ی بمطابق 914 عیسوی میں پیدا ہوا۔ ابوالحسن بویہ نے اس کی بیعت کر لی۔ اس نے سلطنت کا انتظام بڑی عمدگی سے کیا۔ اس نے ممالک عجم پر نوح بن نصر سامانی کو حکمران بنایا۔ 29 سال کی حکمرانی کے بعد فالج کے آثار نمایا ں ہوئے تو مطیع بااللہ نے ازخود خلافت اپنے بیٹے الطائع اللہ کو دے دی۔ بعد ازاں وفات پائی۔

24۔ الطائع باللہ:

ابوبکر عبدالکریم بن مطیع بااللہ 310 ہجری میں پیدا ہوا ۔ 366 ہجری میں باپ کی دستبرداری پر مسند خلافت سنبھالی۔ عبدالملک بن نوح سامانی کو ممالک عجم کی نیابت سونپی۔ اس کے عہد میں رومی طرسوس اور انطاکیہ کو روندتے ہوئے حمص تک پہنچ گئے۔ اہل مغرب فاطمی مصر پر قابض ہو گئے اور نیا شہر منصورہ ؛موجودہ قاہرہ آباد کیا۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ان کا خطبہ پڑھا گیا۔ آل بویہ مرکزی حکومت بغداد پر مسلط ہو گئے۔ خارجیوں نے ہر ظلم و ستم شروع کر دیا۔ابو نصر حسن بویہ نے الطائع اللہ کو گرفتار کر کےخلافت سے الگ کیا اور قادر بااللہ کو عراق سے بلا کر مسند خلافت پر بٹھایا۔ الطائع باللہ کی مدت خلافت 17 سال نو ماہ چھ دن تھی۔ رمضان 393 ہجری بمطابق جولائی 1003 عیسوی میں بمقام بغداد وفات پائی۔

25 ۔قادر باللہ ابوالعباس احمد بن اسحاق بن مقتدر بااللہ:

قادر بااللہ عالم، ادیب ، فاضل پرہیز گار اور عبادت گزار تھا۔ 9 ربیع الاول 336 کو پیدا ہوا۔ اس نے ممالک عجم کی خدمت کا فرمان سلطان محمود بن سبکتگین کو بھیجا اور اپنے بیٹے غالب بااللہ کو ولی عہد نامزد کیا۔ مگر غالب باپ کی زندگی ہی میں ہی فوت ہو گیا تو دوسرے بیٹے قائم باامراللہ کو ولی عہد نامزد کیا ۔ 93 سال کی عمر میں ذی الحجہ 422 ہجری بمطابق 1033 عیسوی میں وفات پائی۔

26۔ قائم باامراللہ:

ابو جعفر عبداللہ بن قادر ذی قعدہ 391 ہجری میں پیدا ہوا۔ اس کی ماں لونڈی تھی جس کانام بدرالدجیٰ تھا۔ اپنے عہد خلافت میں نصاریٰ کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا ۔ سلطان الپ ارسلان نے اسے رہا کروایا۔ 13 شعبان 467 ہجری بمطابق 3 اپریل 1075 عیسوی کو اس کا انتقال ہوا۔

27۔ مقتدی باامراللہ:

ابولقاسم عبداللہ بن محمد الذخیرہ اپنے دادا قائم باامراللہ کے بعد مقتدی باامراللہ کے لقب سے خلافت پر براجمان ہوا کہ باپ الذخیرہ قائم کی زندگی ہی میں انتقال کر گیا تھا۔ وہ لونڈی زادہ تھا۔ ماں کانام علم تھا۔ اس نے 9 سال 5 ماہ کی حکومت کے بعد 15 محرم 487 ہجری بمطابق 4 فروری 1094 عیسوی میں وفات پائی۔

28۔مستظہر بااللہ:

ابوالعباس احمد مستظہر بااللہ بن مقتدی 478 ہجری میں پیدا ہوا۔ ترک لونڈی کا بیٹا تھا۔ 25 سال اور چند ماہ کی خلافت کے بعد 512 ہجری بمطابق 1118 عیسوی میں وفات پائی۔

29۔ مسترشدبااللہ:

ابوالمنصور الافضل مسترشد بااللہ بن مستظہر بااللہ 486 ہجری کو پیدا ہوا۔خلافت کی ذمہ داریاں سنھبالتے ہی عجمیوں کی ایک جماعت نے بغاوت کر دی ۔خود جنگ کے لئے نکلا اور انہیں شکست دی ۔پھر مراغہ کے علاقے میں باطنیوں سے جنگ کی مگر اس جنگ میں شہید ہو گیا۔ یہ 7 ذی قعدہ 529 ہجری بمطابق 19 اگست 1135 عیسوی کا واقعہ ہے۔اس کی مدت خلافت ساڑھے سترہ سال تھی۔

30۔ راشد باللہ:

ابو جعفر منصور بن مسترشد بااللہ صرف اڑھائی سال خلیفہ رہا ۔اسے مسند خلافت سنبھالتے ہی موصل جانا پڑا ۔غیر حاضری میں مسعود سلجوقی نے بغداد پہنچ کر مکتفی لامراللہ کے لئے بیعت لے لی۔راشد بااللہ اصفہان میں باغیوں سے لڑتا ہوا رمضان 532 ہجری میں شہید ہوا۔

31۔ مکتفی لامراللہ:

ابو عبداللہ محمد بن مستظر بااللہ ، راشد بااللہ کے بعد چوبیس سال تین ماہ 21 روز خلیفہ رہا۔ 2 ربیع الاول 555 ہجری وفات پائی۔

32۔ مستنجد بااللہ:

ابوالمظفر یوسف بن مکتفی بلند رتبہ اورپسندیدہ خصائل خلیفہ تھا ۔وہ 11 سال 6 ماہ کی خلافت کے بعد 8 ربیع الاول 566 ہجری بمطابق 19 نومبر 1170 عیسوی بروز پیر بغداد میں انتقال کر گیا۔

33۔ مستضی بااللہ:

ابو محمد الحسن مستضی بااللہ بن یوسف مستنجد بااللہ کی بیعت خلافت کے وقت عمر تیس سال تھی۔ باپ کے بعد حکمران ہوا۔ نو سال چھ ماہ اور بیس دن کی خلافت کے بعد یکم شوال 575 ہجری بمطابق 28 مارچ 1180 عیسوی کو وفات پائی۔

34۔ الناصرالدین اللہ:

ابوالعباس احمد الناصر بن مستضی بااللہ کو مستضی بااللہ نے اپنی زندگی ہی میں ولی عہد نامزد کر دیا تھا ۔ یکم ذی حجہ 575 ہجری بمطابق 28 اپریل 1180 عیسوی کو الناصر بیعت ہوئی۔ اس کے عہد میں غور و خراسان اور غزنی و ہندوستان کی فرماروائی سلطان غیاث الدین محمد سام اور سلطان معز الدین محمد سام ، خوارزم کی سلطان تکش خوارزم شاہ بن الپ ارسلان کو حاصل تھی۔ سلطان تکش باغی ہو کر عراق پر حملہ آور ہوا۔ خلیفہ کی طرف سے وزیر ابن الفضل لشکر لے کر نکلا لیکن شکست کھائی۔ خلیفہ نے غیاث الدین محمد غوری سے مدد طلب کی۔ اسی اثنا میں سلطان تکش کی موت پر خوارزم میں اس کا بیٹا علاء الدین محمد خوارزم جانشین ہوا۔ ادھر محمد غوری کا انتقال ہوگیا۔ محمد خوارزم شاہ کے حوصلے بڑھ گئے لیکن چنگیز خان نے محمد خوارزم شاہ کا تختہ الٹ دیا۔ نصر الدین بااللہ نے 48 سال کی حلافت کے بعد 622 ہجر ی میں وفات پائی۔

35۔ ظاہر بااللہ:

ابو نصر بن الناصر الدین بااللہ عادل، سخی اور فیاض خلیفہ تھا۔ مسند خلافت پر بیٹھتے ہی ظلم وجور ختم کیا جو املاک و اموال غاصبانہ خلافت کے قبضے میں تھے واہگزار کر دیئے اور آخر ایک سازش کا شکارہوا اور زہر آلود لباس پہننے سے ہلاک ہو گیا۔ وہ صرف نو مہینے نو دن خلیفہ رہا۔

36۔ مستنصر بااللہ:

مستنصر بااللہ ابوجعفر منصور بن ظاہر بااللہ کو مسند خلافت بیٹھتے ہی رومیوں اور تاتاریوں سے نبرد آزما ہونا پڑا لیکن تاتاری بار بار کی لشکرکشی کے باوجود کامیاب نہ ہو سکے۔ مستنصر ایک عادل اور بہادر خلیفہ تھا۔ اس نے 625 ہجری بمطابق 1228 عیسوی میں سلطان شمس الدین التمش کو دلی میں فرمان حکومت اور پر چم بھیجا جس پر سلطان نے خوب جشن منایا۔ اس کی مدت خلافت 17 سال اور سات ماہ تھی۔

37۔ مستعصم باللہ:

ابوعبداللہ بن المستنصر بااللہ اپنے والد کی وفات کے بعد 641 ہجری بمطابق 1243 عیسوی میں بمقام بغداد کرسی خلافت پر براجمان ہوا ۔ اس کے عہد میں خلافت کا وقار قدرے بحال ہوا اور اکثر ممالک نظم و ضبط میں آگئے۔ اس کے دور میں ہندوستان میں سلطان ناصر الدین محمود سریرائے سلطنت تھا ؛جب کہ خراسان ، ماورالنہر، طربستان ، فارس ، کرمان اورمکران کا بڑا حصہ تاتاریوں کے قبضے میں آ گیا تھا۔ 654 ہجری بمطابق 1258 عیسوی میں منکو خان کا بھائی ہلاکو خان خراسان بغداد کی جانب بڑھا ۔ ذی الحجہ 655 ہجری بمطابق دسمبر 1257 عیسوی میں بعض مقاما ت پر جھڑپیں ہوئیں۔ 9 محرم 656 ہجری بمطابق 16 جنوری 1258 عیسوی کو بغداد کے دروازے پر بغدادی لشکر نے سلیمان شاہ کی قیادت میں تاتاری لشکر کو شکست دی اور انہیں دھکیلتا ہوا اصفہان تک لے گیا۔ اس دوران ایک لاکھ سے زیادہ تاتاری ہلاک ہوئے۔ادھر بغداد میں وزری علقمی نے خلیفہ سے غداری کرتے ہوئے ہلاکو خان سے ساز باز کر لی۔ آخرکار تاتاری بغداد پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ خلیفہ مستعصم بااللہ اپنے بیٹوں اور لشکر کے ساتھ مارا گیا۔ صرف ایک بیٹا زندہ بچا۔

بنو عباسیہ کے عہد کے کارنامےاور اسلامی دنیا کی ترقی میں ان کا حصہ:

عباسی سلطنت کے پہلے 15 خلیفہ یکے بعد دیگر انتہائی موثر ، مضبوط قوت ارادی کے مالک ، عالم وفاضل اور جنگ وجدل کے ماہر بہادرتھے۔ عباسی دور میں اسلامی مملکت کی حددود عرب سے نکل کر ترکی ،وسطی ایشیائی ممالک، ہندوستان اور مشرق بعید کے ممالک تک جاپہنچیں۔ اس سے قبل خلفائے راشدین اور خلافت بنی امیہ کے دوران مسلمانوں نے ایران، روم اور جنوب مشرقی ایشیا کے علاقے فتح کر لئے تھے ؛لہذا خلفائے بنو عباس ی نظر میں فتوحات سے زیادہ وسیع وعریض مملکت کا انتظام وانصرام اور رعایا کی فلاح وبہود زیادہ اہم تھے ۔ خلفائے بنی عباس کے دور میں بغداد اور سرائے امن جیسے شہر آباد ہوئے۔ بغداد تہذیب و ثقافت کا گہوارہ بن گیا۔ اس شہر میں دنیا کے ممتاز عالم دین، مذہبی سکالر، سائنسدان ، علم نجوم ، منطق اور ہندسہ کے ماہرپیدا ہوئے۔

مسلمانوں نے ایجادات کی دنیا میں اپنا سکہ منوایا۔ اس وقت یورپ اور افریقہ کے براعظم جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ البیرونی، ابن رازی، بو علی سینا، ابن خلدون ، ابوموسی ٰالخوارزمی اور یعقوب الکندی جیسے نامور مسلم سائنسدانوں نے علم کی خوب خدمت کی اور علم وفن روم اور یونان سے نکل کر بغداد پہنچ آئے۔ اسی دور میں بغداد کی لائبریری میں پانچ لاکھ سے زائد کتابیں جمع کی گئیں۔ خلیفہ ہارون الرشید، مامون اور ہادی خود بہت بڑے عالم فاضل انسان تھے جنہوں نے علمائے کرام کی خوب قدردانی کی۔ اس دور میں علوم نقلیہ اور علوم عقلیہ دونوں میں مسلمانوں نے خوب ترقی کی۔ عالم اسلام اور مسلمانوں کو دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔

خاندان بنو عباسیہ کے زوال کی وجوہات:

بنو عباس کی حکومت کم و بیش 500 سال کے طویل دور پر محیط رہی اور پھر کئی وجوہات کی بنا پر نیست ونابود ہوگئی۔ اس خاندان کے پہلے 15 بادشاہ اپنی ذاتی خوبیوں مثال کے طور پرعقل مندی، دوراندیشی، تحمل و بردباری، علم و ہنر اور بہادری کی بنا پر ممتاز تھے۔ وہ نہ صرف عوامی مسائل کو جاننے کے لئے عوام میں رہتے تھے بلکہ جنگ کی حالت میں وہ میدان جنگ میں اپنے لشکریوں کی قیادت خود کرتے تھے۔ ان کی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے ہر خاص وعام کے دل میں خلافت کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور کسی کو بغاوت یاسرکشی کی جرات نہ تھی ۔تاہم وقت کے ساتھ ساتھ دربار خلافت علم وفضل کی بحثوں کے ساتھ ساتھ طاؤس و رباب کا بھی مرکز بنتا گیا ۔

خلفاء کی اکثریت ناچ گانے اور شراب و کباب کی دلدادہ تھی ۔ا ن کے حرم میں خوبصورت خواتین کا ہجوم تھا اور درباری سازشیں بام عروج پر تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنی عبا س کو اقتدار میں لانے والے ایرانی تھے ؛جس میں ابو مسلم خراسانی سرفہرست تھا اور جس کو خلیفہ ابو جعفر منصور نے اپنے سامنے قتل کروا دیا تھا۔ اس کے بعد ایرانیوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لئے میل بیٹھ گئی۔ایرانیوں کا اثر رسوخ ختم کرنے کے لئے خلفاء نے ترکوں کو اہم عہدے دینے شروع کر دئیے جنہوں نے اپنے من پسند ترکوں کو اہم ترین عہدوں پر تعینات کیا۔ عباسی خلفاء کی فوج کا کثیر حصہ اپنی بہادری اورجرات کی وجہ سے ترکوں پر مشتمل ہوتا تھا جنہوں نے طاقت پکڑتے ہی من مانی شروع کر دی۔ وہ خدمت گزار ہونے کے بجائے بادشاہ گر بن گئے۔ انہوں نے کئی خلفاء کی آنکھوں میں سلاخیں پھیروا دیں۔ کئی کو قید میں ڈالے رکھا اور کئی بادشاہ انکا اثر روسوخ ختم کرتے کرتے خود اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اس کے علاوہ خلفاء اپنے آپ کو قصر صدارت میں لہو ولہب کی محافل میں دن رات مستغرق رکھتے تھے جس کی وجہ سے کئی ممالک یا تو خلافت عباسیہ سے بالکل نکل گئے یا پھر ان پر ان کی گرفت بالکل ڈھیلی پڑگئی۔ بغداد کے زیر سایہ کئی مطلق العنان حکومتیں قائم ہو گئیں جن میں سلجوقوں کی حکومت، ہندوستانی حکومت، فاطمی حکومت، ایوبی حکومت اور سامانی حکومت خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ عالم اسلام کے بڑے بڑے فتنے جس میں معتزلہ، خارجی، قرامطی اورسباحی شامل تھے ؛نے بھی اسلامی حکومت کی بنیادوں کو اندر سے کھوکھلاکر کے رکھ دیا۔

عباسی خلفاء کے آخری دور میں جب خدا خدا کر کے ترکوں کا زور کسی حد تک ٹوٹا توتاتاریوں نے چنگیز خان کی قیادت میں خلافت عباسیہ کے درو دیوار کو ہلا کر رکھ دیا۔ چنانچہ 1258 عیسوی میں چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے خلیفہ المعتصم بااللہ کے وزیر علقمی سے ساز باز کر کے بغداد کو فتح کر لیا اور خلافت عباسیہ کو ہمیشہ کے لئے صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ بغداد کی فتح کے وقت شہر میں تمام مردوں کو قتل کر دیا گیا اور شہر کو لوٹنے کے بعد آگ لگا دی گئی۔

خلاصہِ کلام:

بنی عباس نے اہل بیت کے نام پر عباسی تحریک کا آغاز کیا تو ان کو بے پناہ عوامی پذیرائی صرف اس لئے ملی کہ عام آدمی بنی امیہ کو خلافت کے معاملے میں ظالم وغاصب سمجھتا تھا۔ لوگ عباسیوں کی تحریک میں جوق در جوق شامل ہونے لگے۔ ان کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح خلافت ان کے جائز ورثاء کے حوالے کی جائے اور شہادت امام عالی مقام کا بدلہ لیا جائے ۔ لیکن ابومسلم خراسانی نے جب ابراہیم اور بعد ازاں ابوالعباس السفاح کی خلافت کا اعلان کیا تو وہ لوگ جو ہمدردی کی بنا پر عباسیوں کے حامی بنے تھے، خلافت سے کنارہ کش ہو گئے۔ پھر رفتہ رفتہ مقامی عرب آبادی سرکاری امور سے کنارہ کش ہو تی گئی۔ رفتہ رفتہ خلفاء کی اکثریت لہو ولہب اور عیش و عشرت کا شکار ہوتی چلی گئی۔ خلیفہ کے چناؤ کے وقت بڑے بیٹے کو جانشین بنانا اور ولی عہدی کے لئے کو باقاعدہ ادارے کا نہ ہونا ؛نہ صرف خلافت کے دعوے داروں میں جنگ جدل کا باعث بنابلکہ اس سے درباری سازشوں کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی چل پڑا۔ولی عہدی کے اس جھگڑے کی وجہ سے خلافت کی جڑیں مزیدکھوکھلی ہوتی چلی گئیں۔ بعض نااہل خلفاء جو کسی خوبی کی بجائے محض اس لئے منتخب کئے گئےکہ وہ مرنے والے خلیفہ کے بیٹے تھے؛ خلافت کا بار عظیم ملنے پر سنجیدگی سے اپنے فرائض منصبی سرانجام نہ دے سکے ۔اس کے بجائے وہ شراب وکباب کی محفلوں میں مشغول ہو گئے۔ان کی اس کمزوری کی وجہ سے اعمال پر ان کی گرفت کمزور ہوئی جس سے وہ باغی ہوتے چلے گئے۔

تاہم اس میں کوئی کلام نہیں کہ عباسیوں نے علم و فن کی خوب قدر ومنزلت کی اور اسلامی تہذیب کو زبردست پروان چڑھایا۔ان کے دور میں اسلام سپر پاور بن گیا اور دنیا کے آدھےحصے پر مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہوئیں۔مزید براں مسلمان دنیا بھر میں مسند خلافت کو کامیابی و کامرانی کا سرچشمہ سمجھتے تھے اور اس سے روحانی تعلق رکھتے تھے

اپنا تبصرہ بھیجیں