اچھی حکمرانی کے اصول 1,741

ایران ایک عظیم ملک از مفتی گلزاراحمد نعیمی

ایران ایک عظیم ملک۔
ایران مسلم دنیا کا قابل فخر ملک ہےاور امت مسلمہ کا عظیم سرمایہ ہے۔اسلامی دنیا کا واحد ملک جو استکباری قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔پرعزم قوم کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایماندار اور قوت حوصلہ اور قوت فیصلہ رکھنے والی قیادت نصیب ہے۔یہ وہ قیادت ہے جو ہر طوفان سے ٹکرا جاتی ہے۔آج میں نے جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پریس کانفرنس سنی تو میں نے چاہا کہ میں ایرانی قوم اور اسکی قیادت کو خراج تحسین پیش کروں جس کی ثابت قدمی نے ٹرمپ کو انکی تعریف کرنے پر مجبور کر دیا۔یہ کانفرنس امریکی صدر نے چاپان کے شہر ٹوکیو میں جاپانی وزیر اعظم جناب شنزو ابی کے ساتھ کی۔امریکی صدر نے کہا:I am looking to have Iran say no nuclear weapons.Iran has a tremendous Economic potential.So many people from Iran great people.It is a
. great country with same leadership.We not looking for a regime change .I want to make it just clear
کہاں وہ بیانات کہ ہم ایران کو ختم کر دیں اور کہاں ایران کی تعریفین ایرانی قوم کی مدح سرآئی۔کہاں ایرانی حکومت کو تبدیل کرنے کا تھریٹ اور کہاں یہ فرمان کہ
we are not looking for regime change.
امریکی صدر کے اس نقطئہ نظر کو کسی دوسرے ملک کے دباؤکا نتیجہ نہ سمجھا جائے، اس بدمست ہاتھی کو کون دباؤ میں لا سکتا ہے۔ٹرمپ کے نقطئہ نظر کو ایرانی قیادت کی بہادری اور ثابت قدمی نے تبدیل کیا ہے۔2015ء میں ایران اور بین الاقوامی برادری کے کچھ ممالک کے درمیان معاہدہ طے پایا جسے JCPOAکہتے ہیں۔ اس معاہدہ پر امریکہ،روس،چین،ایران،برطانیہ،فرانس اور جرمنی کے علاوہ اقوام متحدہ نےبھی دستخط کیے تھے۔ اس معاہدہ کے مطابق ایران اپنے جوہری منصوبہ کو بہت ہی نچلی سطح پر لے آئے گا۔اور یہ طے پایا تھا کہ اگر ایران نے اس معاہدہ پر مکمل عمل درآمد کیا تو اس سے اقتصادی پابندیاں ہٹا لی جائیں گی۔حقیقت حال یہ ہے کہ ایران نے اس معاہدہ پر من وعن عمل کیا۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ بین الاقوامی ادارہ جو پوری دنیا میں جوہری توانائی کی دیکھ بھال کرتا ہے اس کے انسپیکٹرز نے ایران کے جوہری منصوبوں کا معائنہ کرنےکے بعد رپورٹ دی کہ ایران معاہدہ کی مکمل پابندی کررہا ہے۔
مگر امریکہ نے سب سے پہلے اس معاہدہ سے علیحدگی کا اظہار کیا۔علیحدگی کی وجہ یہ بیان کی کہ ایران خطے میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔میرے نزدیک امریکی صدر کا یہ بیان بہت لغو اور ناانصافی پر مبنی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دہشتگردی ایران نہیں بلکہ امریکہ اور اسکے حواری پھیلا رہے ہیں۔کئی دہایوں سے انہوں نے مشرق وسطی کو میدان جنگ بنایا ہوا ہے۔امریکہ مشرق وسطی کے عرب ممالک پر اپنا مکمل تسلط برقرار رکھے ہوئے ہے۔معدنی وسائل کی لوٹ مار کررہا ہے۔اربوں ڈالرز کی لوٹ مار میں ملوث ہے۔مشرق وسطی میں امریکہ ایک ڈاکو بن کر مسلط ہے جب بھی اسے ڈالرز کی ضرورت پڑتی ہے وہ ایران کے خلاف کوئی شوشا چھوڑ کر عربوں کو ڈرا کر ان سے بھتہ وصول کر لیتا ہے۔قابل افسوس بات یہ ہے کہ اس جوہری معاہدہ کے دوسرے ارکان اس معاہدہ کوبرقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن امریکہ اپنے معاشی مفادات کے حصول کے اس سے علیحدہ ہوا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ ایران کسی طرح اس معاہدہ کی خلاف ورزی کرے مگر ایران ایسا یقینا نہیں کرے گا۔
امریکہ نے ایران پر پابندیاں مزید سخت کردی ہیں۔اس نے اپریل 2019 میں پاسداران انقلاب کو دہشت گرد قرار دے کر اس کے اثاثہ جات منجمد کردیئے۔اسی طرح ایران کی فولاد کی بین الاقوامی ٹریڈ پر بھی پابندی عائد کردی۔یقینا یہ بہت بڑی ناانصافی ہے جو ایران کے ساتھ ہو رہی ہے۔ان بلاجواز پابندیوں پراسلامی دنیا خاموش تماشائی ہےاور بین الاقوامی برادری بھی ایران کا ساتھ نہیں دے رہی۔اس رویہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔
یہ بات بہت واضح ہے کہ ایران چالیس سال سے ان پابندیوں کا مقابلہ کررہا ہے اور اس عرصہ میں اس پر بہت نشیب وفراز آئے،ناگہانی آفات آئیں مگر ایران نے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایااور آئندہ بھی شایدایسا نہیں ہوگا۔اس لیے کہ ایرانی قیادت بہت سمجھ دار ہے اور سب سے بڑھ کر وہ اپنے ملک کے ساتھ بہت مخلص ہے۔اس لیے امریکہ ایران کو کبھی بھی نہیں جھکا سکتا۔ٹرمپ نے ایران کو جنگ کی دھمکی دی توایرانی قیادت نے اسے ایک گیدڑ بھبکی سمجھا۔ٹرمپ چاہتا تھا کہ ایران مذاکرات کی میز پر آئے لیکن ایرانی رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای نے زبردست بیان دیا۔انہوں نے کہا”جنگ نہیں ہوگی اور مذاکرات ہم نہیں کریں گے”مطلب بالکل واضح ہے کہ امریکہ ہمارے ساتھ جنگ نہیں چاہتا وہ مذاکرات چاہتا ہے مگر ہم مذاکرات نہیں کریں گے۔ایرانی فوج کے سالار نےکہاکہ اگر ایران سے اقتصادی پابندیاں نہ اٹھائیں گئیں تو ہم آبنائے ہرمز کو بند کردیں گے۔یادرہے کہ آبنائے ہرمز کے ذریعہ دنیا کوتقریبا 20فیصد تیل برآمد ہوتا ہے۔ایرانی آرمی چیف جنرل محمد باقری نے کہا کہ اگر ایرانی تیل کی برآمد پر پابندی ہوگی تو پھر کوئی خلیجی ملک آبنائے ہرمز کی بندرگاہ کے ذریعے دنیا کو تیل برآمد نہیں کر سکے گا۔یہ بیان جنرل باقری نے اس وقت دیا جب امریکہ نے ایران سے تیل برآمد کرنے والے ممالک کے استثناء کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ایران کے سخت ردعمل کی وجہ سے ٹرمپ نے اپنے رویہ میں تبدیلی کی اور کہا کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے،امریکی جریدے نیویارک ٹائمز نے خبر نشر کی کہ امریکی صدر نے پینٹاگون پر واضح کیاکہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا۔امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے عمانی صدر کو ثالث کا کردار ادا کرنے کا کہا۔اسکا مطلب بالکل واضح ہے کہ امریکہ ایرانی قیادت کی خود اعتمادی اور عزم کے سامنے گھٹنے ٹیک گیا ہے۔ایران کی سٹریٹجک پوزیشن کی وجہ اس کے ساتھ جنگ کرنے کا خطرہ کوئی مول نہیں لے سکتا۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے دورہ چین سے واپسی پر کہا کہ امریکی صدر جنگ نہیں چاہتے مگر ان کے مشیر انہیں جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ تہران جنگ نہیں چاہتا مگر کوئی ملک اس مغالطے میں نہ رہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ کرے گا۔
ایرانی قیادت امریکہ کو پسپا کرنے کے حوالہ سے بہت ہی پرجوش اور مطمئن دکھائی دیتی ہے۔ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر حسین سلامی نے کہا کہ ان کے ملک کی اس وقت امریکہ اوراسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کے ساتھ سراغ رسانی کی مکمل جنگ جاری ہے۔امریکہ تو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرح ایک وار کی مار ہے۔ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایرانی قوم کبھی منہ زوروں کے سامنے تسلیم خم نہیں ہوئی۔ایرانی قوم مذاکرات اور منطق پر یقین رکھتی ہے۔ایرانی قوم دشمن کی جارحیت اور منہ زوری کے سامنے کسی طور سر تسلیم خم نہیں کرے گی۔ایرانی قوم اپنے عزم اور ارادے سے امریکہ کو شکست دے گی۔
محترم قارئین کرام!آپ اندازہ لگا لیں کہ ایرانی قیادت میں کتنی انڈر سٹینڈنگ ہے۔پوری قیادت اور پوری قوم ایک پیج پر ہے۔جب ایسی قابل رشک صورت حال ہو تو ایسی قوم کو کیسے شکست دی جاسکتی ہے۔اسی لیے چاپان کے دورے پر امریکی صدر کو ایران کی تعریف کے قصیدے پڑھنے پڑے۔میراخیال ہے آنے والا وقت ایران کا ہے اور وہ ریجن کی ایک زبردست قوت بن رہا ہے۔
ہماری سعودی عرب سے گزارش ہے کہ وہ اپنے رویہ میں تبدیلی لائے اور ایران کے ساتھ تعلقات برادرانہ سطح پر لائے۔یہ دونوں ممالک کے لیے بہتر ہوگا۔ایرانی وزیر خارجہ کی تجویز پر اگر سعودی عرب عمل کرے تو وہ خود بھی بچ سکتا ہے اور ایران کو بھی بچا سکتا ہے۔ایرانی وزیر خارجہ نے عراق کے دورے کے دوران تجویز دی ہے کہ آئیں ریجن کے ممالک ایک معاہدہ کر لیں کہ ہم ایک دوسرے پر حملہ آور نہیں ہونگے۔یہی بات جواد ظریف نے پاکستان کے دورے کے دوران جناب وزیراعظم عمران خان سے بھی کہی کہ وہ سعودی عرب کو اس پر قائل کریں کہ وہ یہ معاہدہ کر لے۔مجھے امید ہے ہمارے وزیراعظم سعودیہ کو یہ بات پہچائیں گے اور قائل بھی کریں گے۔
خلیج کی صورت حال سے نہ صرف ایشیاء بلکہ پوری دنیا کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے۔امریکہ کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔آج کی دنیا میں کسی ملک کو شکست دینا آسان نہیں ہے۔ایران کو امریکہ کبھی نیچا نہیں دکھا سکے گا۔امریکہ دنیا کو خوشیاں دے خون میں مت نہلائے۔