629

خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ منصور آفاقی

خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
منصور آفاقی
نواز شریف اور شہباز شریف نے پارٹی کی ہائی کمان کو لندن بلا لیا۔ کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ شہباز شریف نے خواجہ آصف، مریم اورنگزیب، ملک احمد خان، امیر مقام، رانا تنویر اور ایاز صادق سے علیحدہ علیحدہ تفصیلی ملاقات کیں۔ نواز شریف پرویز رشید سے تنہائی میں ملے۔ سنا ہے اس ملاقات کا موضوع مریم نواز کا مستقبل تھا۔ وہ فکرمند ہیں کہ سپریم کورٹ کہیں مریم نواز کی ضمانت منسوخ نہ کر دے۔

فائنل میٹنگ کے لئے جو ایجنڈا نواز شریف کو بھیجا گیا ہے اس کی شقیں درج ذیل ہیں:

1۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم

2۔الیکشن کمیشن ارکان کی تعیناتی

3۔اِن ہاؤس تبدیلی

4۔پرویز الٰہی کی وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد

5۔لیڈر شپ کے خلاف مقدمات پر ن لیگ کا رویہ

6۔حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز

7۔نیا بیانیہ کیا ہونا چاہئے

8۔اسٹیبلشمنٹ سے مراسم

اب دیکھتے ہیں کہ میٹنگ میں کس کس پر بحث ہوتی ہے۔ بیمار نواز شریف نے باقاعدہ سیاسی سر گرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ شہباز شریف کی صحت بھی بہتر نہیں شاید اِسی لئے نواز شریف، شہباز شریف کو اگلا وزیراعظم بنانے کے موضوع پر بالکل خاموش ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ مستقبل میں اقتدار مریم نواز کو ملے۔ انہیں تمام مقدمات سے باعزت بری ہونا چاہئے۔ مریم نواز کی موجودہ خاموشی شاید اِسی طرح کی کسی ڈیل کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔

بہرحال یہ بات طے ہے کہ شریف فیملی کے ایجنڈے کی پہلی شق یہی ہے کہ کسی طرح مقدمات سے نجات حاصل کی جائے۔ سزائیں ختم کرائی جائیں۔ اس میں شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ مینگل، چوہدری اور ایم کیو ایم ن لیگ سے مل گئی تو عمران خان کی حکومت کے لئے سچ مچ کے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ ایسی صورت میں عمران خان نئے انتخابات کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔

(پی ٹی آئی کے رہنما شہزادہ جہانگیر نے محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کا الزام لگایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ خود انہیں آصف علی زرداری نے کہا تھا محترمہ کو راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔)

پیپلز پارٹی بھی خاصی پریشان ہے۔ بلاول بھٹو چاہتے ہیں کہ اس کے باپ کو بھی نواز شریف کی طرح ملک سے باہر علاج کرانے کا حق ملنا چاہئے۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی باقاعدہ کمپین چلا رہی ہے۔ میڈیا کی وساطت سے اس ایشو کو اٹھایا گیا ہے۔ دوسری طرف آصف علی زرداری ہیں کہ ملک سے باہر جانا ہی نہیں چاہتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جیل میں رہ کر وہ پیپلز پارٹی کی زیادہ بہتر قیادت کر سکتے ہیں۔ بے شک آصف علی زرداری خاصے سخت جان لیڈر ہیں۔ اُن پر پی ٹی آئی کے رہنما شہزادہ جہانگیر نے محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کا الزام لگایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ خود انہیں آصف علی زرداری نے کہا تھا محترمہ کو راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔

محترمہ ناہید خان بھی پہلے دبے الفاظ میں ایسی باتیں کرتی رہی ہیں۔ شہزادہ جہانگیر کا معاملہ بہت سیریس ہے وہ برطانوی شہری ہیں اُن کے خلاف پیپلز پارٹی ضرور برطانوی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔ کہتے ہیں کہ محترمہ کے قتل کو چھپانے کے لئے خالد شہنشاہ کے قتل تک مقتولین کی ایک لمبی فہرست ہے۔ بہرحال الزام تو الزام ہی ہوتا ہے۔ محترمہ کا خون ابھی تک اپنے اصل قاتلوں کی نشاندہی چاہتا ہے۔ سنا تو یہی تھا کہ خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ مگر یہاں ابھی تک خون اور قانون دونوں خاموش ہیں۔ یہی حالت ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کی ہے وہاں بھی وقت انصاف کی تلاش میں رُکا ہوا ہے۔

پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی قیادت پر غیر متزلزل یقین رکھتی ہے۔ اُن کے خیال میں اُن کی قیادت پر لگائے جانے والے تمام الزامات سیاسی ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت دراصل پیپلز پارٹی کے خلاف میڈیا وار لڑ رہی ہے جس کا آغاز جنرل محمد ضیاء الحق نے کیا تھا۔ البتہ پیپلز پارٹی ن لیگ کے ساتھ تمام معاملات طے کر چکی ہے۔ کہہ چکی ہے کہ اِن ہاؤس تبدیلی ہو یا قومی اسمبلی سے اجتماعی طور پر مستعفی ہونا، پیپلز پارٹی ساتھ ہے مگر صوبائی سطح پر پیپلز پارٹی مستعفی نہیں ہوگی۔ یعنی وہ سندھ کی حکومت چھوڑنے کے لئے کسی قیمت پر تیار نہیں۔

(سندھ حکومت کا طرزِ حکمرانی خراب نہیں ناکام ہے۔ اربوں روپے کی کرپشن کے ثبوت ملے ہیں اور کرپشن کے خلاف جہاد کرنے آیا ہوں کرپٹ لوگوں سے کوئی ڈیل ہوگی نہ ڈھیل)

دوسری طرف وزیراعظم عمران خان سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے ابھی کل کہا ہے ’’سندھ حکومت کا طرزِ حکمرانی خراب نہیں ناکام ہے۔ اربوں روپے کی کرپشن کے ثبوت ملے ہیں اور کرپشن کے خلاف جہاد کرنے آیا ہوں کرپٹ لوگوں سے کوئی ڈیل ہو…