Seerat-ul-Nabi 285

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ – کڑی آزمائش

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ – کڑی آزمائش
ایک روز حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھےکہ ابوجہل آپ کے پاس آیا اور بولا:
” کیا میں نے آپ کو اس سے منع نہیں کیا تھا، آپ جانتے نہیں ، میں سب سے بڑے گروہ والا ہوں ۔”
اس پر سورۃ العلق کی آیت ۱۷، ۱۸ نازل ہوئیں ۔
ترجمہ: سو یہ اپنے گروہ کے لوگوں کو بلالے، اگر اس نے ایسا کیا تو ہم بھی دوزخ کے پیادوں کو بلالیں گے۔
حضرت ابن عباس رضی الله عنہہ فرماتے ہیں ۔
” اگر ابوجہل اپنے گروہ کو بلاتا تو الله تعالٰی کے عذاب کے فرشتے اسے پکڑ کر تہس نہس کردیتے۔”
ایک روز ابوجہل حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور آپ سے مخاطب ہوا:
” آپ کو معلوم ہے میں بطحا والوں کا محافظ ہوں اور میں یہاں ایک شریف ترین شخص ہوں ۔ “
اس وقت اللہ تعالٰی نے سورہ دخان کی آیت 49 نازل فرمائی:
” ترجمہ: چکھ تو بڑا معزز مکرم ہے۔”
آیت کا یہ جملہ دوزخ کے فرشتے ابوجہل کو ڈالتے وقت پھٹکارتے ہوئے کہیں گے۔
ابولہب بھی حضور اکرم ﷺ کی ایذارسانی میں آگے آگے تھا۔ نبی کریم ﷺ کی تبلیغ میں رکاوٹیں ڈالتا تھا،آپ ﷺ کو برا بھلا کہتا تھا۔ اس کی بیوی ام جمیل بھی اس کے ساتھ شامل تھی، وہ جنگل سے کانٹے دار لکڑیاں کاٹ کر لاتی اور نبی کریم ﷺ کے راستے میں بچھاتی، اس پر الله تعالٰی نے سورۃ اللھب نازل فرمائی ۔ اس میں ابولہب کے ساتھ اس کی بیوی کوبھی عذاب کی خبر دی گئ۔وہ غصے میں آگ بگولہ ہوگئ، پتھر ہاتھ میں لیئے آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف بڑھی۔اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ ابوبکر صدیق رضی الله عنہہ تھے۔ انہوں نے ابولہب کی بیوی کو آتے دیکھا تو فرمایا:
” الله کے رسول! یہ عورت بہت زبان دراز ہے، اگر آپ یہاں ٹھرے تو اس کی بدزبانی سے آپ کو تکلیف پہنچے گی۔”
ان کی بات سن کر حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
” ابوبکر! فکر نہ کرو، وہ مجھے نہ دیکھ سکے گی۔”
اتنے میں ام جمیل نزدیک پہنچ گئ۔ اسے وہاں صرف ابوبکر صدیق رضی الله عنہہ نظر آئے۔ وہ آتے ہی بولی:
” ابوبکر! تمہارے دوست نے مجھے ذلیل کیا ہیں ، کہاں ہے تمہارا دوست جو شعر پڑتا ہے۔”
ابوبکر بولے:
” کیا تمہیں میرے ساتھ کوئی نظر آرہا ہے۔”
“کیوں کیا بات ہے، مجھے تو تمہارے ساتھ کوئی نظر نہیں آرہا۔”
انہوں نے پوچھا:
“تم ان کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہو؟”
جواب میں اس نے کہا:
“میں یہ پتھر اس کے منہ پر مارنا چاہتی ہوں ،اس نے میری شان میں نازیبا شعر کہے ہیں ۔” وہ سورة اللہب کی آیات کو شعر سمجھ رہی تھی۔
اس پر انہوں نے کہا:
” نہیں ! اللہ کی قسم! وہ شاعر نہیں ہیں ۔ وہ تو شعر کہنا جانتے ہی نہیں ، نہ انہوں نے تمہیں ذلیل کیا ہے۔”
یہ سن کر وہ وآپس لوٹ گئی۔ بعد میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے پوچھا:
” اے اللہ کے رسول! وہ آپ کو دیکھ کیوں نہیں سکی۔”
آپ نے ارشاد فرمایا:
“ایک فرشتے نے مجھے اپنے پروں میں چھپالیا تھا۔”
ایک روایت کے مطابق آپ نے یہ جواب ارشاد فرمایا تھا:
“میرے اور اس کے درمیان ایک آڑ پیدا کردی گئی تھی۔”
ابو لہب کے ایک بیٹے کا نام عتبہ تھا اور دوسرے کا نام عتیبہ تھا۔ اعلانِ نبوّت سے پہلے رسول کریم ﷺ نے اپنی دو بیٹیوں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا نکاح ابو لہب کے ان دونوں بیٹوں سے کردیا تھا۔ یہ صرف نکاح ہوا تھا، ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ اسلام کا آغاز ہوا اور سورۂ لہب نازل ہوئی تو ابو لہب نے غصے میں آکر اپنے بیٹوں سے کہا:
” اگر تم محمد کی بیٹیوں کو طلاق نہیں دوگے تو میں تمہارا چہرہ نہیں دیکھوں گا۔”
چنانچہ ان دونوں نے انہیں طلاق دے دی۔( دیکھا جائے تو آپ ﷺ کی بیٹیوں کے لئے اس میں حکمت تھی گویا اللہ تعالٰی نے چاہا کہ یہ پاک صاحب زادیاں عتبہ اور عتیبہ کے ہاں نہ جاسکیں ۔) یہ رشتہ اسلام دشمنی کی بنیاد پر ختم کیا گیا، یعنی آپ دونوں چونکہ نبی کریم ﷺ کی صاحب زادیاں تھیں ، اس لئے یہ قدم اٹھایا گیا۔
اس موقع پر عتیبہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ کی شان میں گستاخی کی۔ آپ صاحب زادیوں کی وجہ سے پہلے ہی غمگین تھے، ان حالات میں آپ نے اس کے حق میں بد دعا فرمائی:
” اے اللہ! اس پر اپنے کتوں میں سے ایک کتا مسلط فرمادے۔”
عتیبہ یہ بد دعا سن کر وہاں سے لوٹ آیا، اس نے اپنے باپ ابو لہب کو سارا حال سنایا۔ اس کے بعد دونوں باپ بیٹا ایک قافلے کے ساتھ ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں یہ لوگ ایک جگہ ٹھہرے۔ وہاں قریب ہی ایک راہب کی عبادت گاہ تھی۔ راہب ان کے پاس آیا۔ اس نے انہیں بتایا:
“اس علاقے میں جنگلی درندے رہتے ہیں ۔”
ابو لہب یہ سن کر خوف زدہ ہوگیا، نبی کریم ﷺ کی بد دعا یاد آگئی۔اس نے قافلے والوں سے کہا:
“تم لوگ میری حیثیت سے باخبر ہو اور یہ بھی جانتے ہو کہ میرا تم پر کیا حق ہے۔”
انہوں نے ایک زبان ہو کر کہا:
“بےشک ہمیں معلوم ہے۔”
ابو لہب یہ سن کر بولا:
“تب پھر تم ہماری مدد کرو، میں محمد کی بد دعا کی وجہ سے خوف زدہ ہوگیا ہوں ، اس لئے تم لوگ اپنا سامان اس عبادت گاہ کی طرف رکھ کر اس پر میرے بیٹے کا بستر لگا دو اور اس کے چاروں طرف تم لوگ اپنے بستر لگالو۔”
ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، یہی نہیں ، انہوں نے اپنے چاروں طرف اپنے اونٹوں کو بھی بٹھادیا۔ اس طرح عتیبہ ان سب کے عین درمیان میں آگیا۔ اب وہ سب اس کی پاسبانی کرنے لگے۔ ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود حضور نبی کریم ﷺ کی پیش گوئی پوری ہوگئی۔نصف رات کے قریب ایک شیر وہاں آیا اور سوئے ہوئے لوگوں کو سونگھنے لگا۔ ایک ایک کو سونگھتے ہوئے وہ آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ لمبی چھلانگ لگا کر عتیبہ تک پہنچ گیا۔ بس پھر کیا تھا، اس نے اسے چیر پھاڑ کر ہلاک کرڈالا۔
تکالیف پہنچانے کا ایک اور واقعہ اس طرح پیش آیا کہ ایک روز آپ ﷺ مسجد الحرام میں نماز پڑھ رہے تھے۔ قریب ہی کچھ جانور ذبح کئے گئے تھے۔ وہ لوگ اپنے بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے۔ ان جانوروں کی ایک اوجھڑی ابھی تک وہیں پڑی تھی۔ ایسے میں ابو جہل نے کہا:
“کیا کوئی شخص ایسا ہے جو اس اوجھڑی کو محمد کے اوپر ڈال دے۔”
ایک روایت کے مطابق کسی نے کہا:
“کیا تم یہ منظر نہیں دیکھ رہے ہو تم میں سے کون ہے جو وہاں جائے جہاں فلاں قبیلے نے جانور ذبح کئے ہیں ، ان کا گوبر، لید، خون اور اوجھڑی وہاں پڑے ہیں ۔ کوئی شخص وہاں جاکر گندگی اٹھالائے اور محمد کے سجدے میں جانے کا انتظار کرے۔ پھر جونہی وہ سجدے میں جائیں ، وہ شخص گندگی ان کے کندھوں کے درمیان رکھ دے۔”
تب مشرکوں میں سے ایک شخص اٹھا۔ اس کا نام عقبہ بن ابی معیط تھا۔ یہ اپنی قوم میں سب سے زیادہ بدبخت تھا۔ یہ گیا اور اوجھڑی اٹھالایا، جب آپ ﷺ سجدے میں گئے تو اوجھڑی آپ پر رکھ دی۔
اس پر مشرکین زور زور سے ہنسنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ ہنسی سے بے حال ہوگئے اور ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ ایسے میں کسی نے حضرت فاطمة الزهراء رضی اللہ عنہا کو یہ بات بتادی۔ وہ روتی ہوئی حرم میں آئیں ۔ نبی کریم ﷺ اسی طرح سجدے میں تھے اور اوجھڑی آپ کے کندھوں پر تھی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اوجھڑی کو آپ پر سے ہٹایا۔ اس کے بعد آپ سجدے سے اٹھے اور نماز کی حالت میں کھڑے ہوگئے۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ ﷺ نے ان لوگوں کے حق میں بد دعا فرمائی:
“اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے، اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے، اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے۔”
قریش جو مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہورہے تھے، یہ بد دعا سنتے ہی ان کی ہنسی کافور ہوگئی۔ اس بد دعا کی وجہ سے وہ دہشت زدہ ہوگئے۔ اس کے بعد آپ نے نام لے لے کر بھی بد دعا فرمائی:
“اے اللہ! تو عمرو بن ہشام کو سزا دے۔(یعنی ابو جہل کو)، عقبہ بن ابی معیط اور امیہ بن خلف کو سزا دے۔”
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
“اللہ کی قسم! آپ ﷺ نے جن جن قریشیوں کا نام لیا تھا، میں نے انہیں غزوۂ بدر میں خاک و خون میں لتھڑا ہوا دیکھا، اور پھر ان کی لاشوں کو ایک گڑھے میں پھینک دیا گیا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
“ایک روز نبی کریم ﷺ طواف فرمارہے تھے، اس وقت آپ کا ہاتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ حجر اسود کے پاس تین آدمی بیٹھے تھے۔ جب آپ حجر اسود کے پاس سے گزرے اور ان کے قریب پہنچے تو ان تینوں نے آپ کی ذات با برکات پر چند جملے کسے۔ ان جملوں کو سن کر آپ کو تکلیف پہنچی۔ تکلیف کے آثار آپ کے چہرے سے ظاہر ہوئے۔دوسرے پھیرے میں ابو جہل نے کہا:
” تم ہمیں ان معبودوں کی عبادت کرنے سے روکتے ہو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ، لیکن ہم تم سے صلح نہیں کر سکتے۔” جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا:
“میرا بھی یہی حال ہے۔”
پھر آپ آگے بڑھ گئے۔ تیسرے پھیرے میں بھی انہوں نے ایسا ہی کہا۔ پھر چوتھے پھیرے میں یہ تینوں یک دم آپ کی طرف جھپٹے۔