Seerat-ul-Nabi 278

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ تبوک سے واپسی

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ تبوک سے واپسی
وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ تبوک کے چشمے میں پانی بہت کم ہے-لشکر کی ضرورت اس سے پوری نہیں ہوسکتی-آنحضرت ﷺ نے اس میں سے اپنے دستِ مبارک میں پانی لیا اور اس کو منہ میں لے کر واپس چشمے کے دہانے پر کلی کردی…چشمہ اسی وقت ابلنے لگا اور پورا بھر گیا-اس طرح سب نے پانی سے سیرابی حاصل کی-یہ علاقہ اس وقت بالکل بنجر تھا…اس موقع پر نبی اکرم ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:
“اے معاذ!اگر تمہاری عمر نے وفا کی تو تم دیکھو گے یہ علاقہ باغ و بہار بن جائے گا-”
یعنی گرد و پیش کی یہ سرزمین باغات والی نظر آئے گی-مورخ علامہ ابن عبد البر اندلسی لکھتے ہیں کہ میں نے وہ علاقہ دیکھا تھا…تمام کا تمام باغات سے بھرا ہوا تھا-
تبوک کے مقام تک پہنچنے سے ایک رات پہلے آنحضرت ﷺ ایک رات سوئے تو صبح آپ ﷺ کی آنکھ دیر سے کھلی،بیدار ہوئے تو سورج سوا نیزے کے قریب بلند ہوچکا تھا-اس سے پہلے رات کو آپ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو جاگ کر نگرانی کرنے اور فجر کے وقت اٹھانے کا حکم دیا تھا-
حضرت بلال رضی اللہ عنہ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے تھے- اتفاق سے ان کی بھی آنکھ لگ گئی تھی،وہ بھی سوتے رہ گئے تھے-اس طرح نماز کا وقت نکل گیا-آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
“کیا میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ ہمیں فجر کے وقت جگادینا؟”
جواب میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
“اے اللہ کے رسول!جس چیز نے آپ کو غافل کردیا، اسی نے مجھے غافل کردیا-”
یعنی مجھے بھی نیند آگئی تھی-
آپ ﷺ نے وہاں سے پڑاؤ اٹھانے کا حکم فرمایا اور اس کے بعد فجر کی نماز ادا کی گئی- یعنی یہ قضا نماز تھی-
تبوک کے سفر کے دوران ایک جگہ پھر پانی ختم ہوگیا…آنحضرت ﷺ کو یہ بات بتائی گئی تو آپ ﷺ نے حضرت علی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا:
“کہیں سے پانی تلاش کرکے لاؤں ”
یہ دونوں حضرات وہاں سے چل کر راستے پر آبیٹھے…جلد ہی انھوں نے دور سے ایک بوڑھی عورت کو آتے دیکھا…وہ اونٹ پر سوار تھی-اس نے پاؤں دونوں طرف لٹکا رکھے تھے اور مشکیزوں میں پانی بھر رکھا تھا-انھوں نے اس سے پانی مانگا-اس پر وہ بولی:
“میں اور میرے گھر والے تم سے زیادہ پانی کے ضرورت مند ہیں …میرے بچے یتیم ہیں -”
اس پر انہوں نے کہا:
“تم پانی سمیت ہمارے ساتھ رسول اللہ کے پاس چلو-”
یہ سن کر وہ بولی:
“کون رسول اللہ!وہ جادوگر…جن کو بےدین کہا جاتا ہے…پھر تو یہی بہتر ہے کہ میں ان کے پاس نہ جاؤں -”
اس کا جواب سن کر حضرت علی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما اسے زبردستی آنحضرت ﷺ کے پاس لے آئے…حضور اکرم ﷺ نے جب انہیں اس بڑھیا کو اس طرح لاتے دیکھا تو ان سے فرمایا:
“اسے چھوڑدو-”
پھر اس سے ارشاد فرمایا:
“کیا تم ہمیں اپنے پانی کو استعمال کرنے کی اجازت دوگی،تمہارا پانی جوں کا توں جتنا تم لے کر آئی ہو،اتنا ہی محفوظ رہے گا؟”
بڑھیا بولی:”ٹھیک ہے-”
اب آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:”ایک برتن لے آؤ-”
وہ برتن لے آئے-آپ ﷺ نے اس عورت کا مشکیزہ کھولا اور اس برتن میں تھوڑا سا پانی لیا…پھر آپ ﷺ نے اپنا دستِ مبارک اس میں ڈالا…اور لوگوں سے فرمایا:”میرے قریب آجاؤ اور پانی لینا شروع کردو-”
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا…پانی اس برتن میں چشمے کی طرح ابل رہا تھا…یوں لگتا تھا جیسے آپ ﷺ کی انگلیوں سے نکل رہا ہو-سب اس برتن سے پانی لینے لگے…پینے لگے…اپنے جانوروں کو بھی پلانے لگے-پھر انھوں نے اپنے خالی برتن بھر لیے… یہاں تک کہ تمام جانور سیراب ہوگئے…تمام برتن بھر گئے اور پانی اس برتن میں اسی طرح جوش مار رہا تھا…اب آپ ﷺ نے وہ پانی واپس اس عورت کے مشکیزے میں ڈال دیا اور اس کا منہ بند کرنے کے بعد فرمایا:
“تم لوگوں کے پاس جو کچھ ہو،لے آؤ-”
آپ ﷺ نے ایک کپڑابچھادیا… صحابہ کرام اس کے لیے گوشت اور کھجور وغیرہ لے آئے-آپ ﷺ نے وہ سب اسے دے کر فرمایا:
“ہم نے تمہارے پانی میں سے کچھ نہیں لیا…یہ سب چیزیں لے جاؤ…اپنے یتیم بچوں کو کھلا دینا-”
عورت حیرت زدہ تھی…اس نے یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا،ایسا منظر اس نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا…جب یہ اپنے گھر پہنچی تو گھر والوں نے کہا کہ تم نے بہت دیر لگادی-اس پر اس نے سارا واقعہ سنایا…اس بستی کے لوگوں کو بھی اس واقعہ کا علم ہوگیا-آخر یہ بڑھیا بستی کے لوگوں کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی،اس نے اور اس کے قبیلے والوں نے آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر کلمہ پڑھا-
غزوۂ تبوک میں ایک موقع پر کھانے کا سامان ختم ہوگیا-حالت یہاں تک پہنچی کہ ایک کھجور مل جاتی تو ایک پوری جماعت لے کر بیٹھ جاتی…پھر سب باری باری اسے چوستے…اور دوسروں کی طرف بڑھادیتے-آخر لوگوں نے عرض کیا:
“اگر آپ اجازت دیں تو ہم اپنے اونٹ ذبح کرکے کھالیں -”
اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا:
“اے اللہ کے رسول!اگر آپ نے یہ اجازت دے دی تو سواری کے جانور ختم ہوجائیں گے…آپ ان سے فرمایئے کہ جس کے پاس بھی کوئی بچی ہوئی چیز ہو، وہ لے آئے… پھر آپ اس خوراک میں برکت کی دعا کریں -”
چنانچہ ایسا ہی کیا گیا-ایک کپڑا بچھایا گیا…جس کے پاس کوئی چیز تھی،وہ لے آیا…جب سب چیزیں کپڑے پر جمع ہوگئیں تو آپ ﷺ نے ان میں برکت کی دعا کی اور فرمایا:
“اب تم لوگ اپنے اپنے برتن اس خوراک سے بھر لو-”
سب اپنے برتن بھرنے لگے-سب نے خوب سیر ہوکر کھایا بھی اور برتن بھی بھرے،پورے لشکر میں کوئی برتن ایسا نہ رہا جو بھر نہ لیا گیا ہو-
تبوک کے مقام پر پہنچ کر آنحضرت ﷺ دس پندرہ دن ٹھہرے-رومی چونکہ اسلامی لشکر سے خوف زدہ ہوگئے تھے،اس لیے مقابلے پر نہ آئے…اور اس طرح تبوک کے مقام پر جنگ نہ ہوسکی-
اس دوران آپ ﷺ قصر نمازیں پڑھتے رہے یعنی مسافر کی نماز،جس میں ظہر،عصر اور عشاء کی فرض نمازوں میں چار چار رکعت کی دو رکعت ادا کی جاتی ہیں –
آخر تبوک سے واپسی کا سفر شروع ہوا…راستے میں چند منافقوں حضور اکرم ﷺ کو کھائی میں دھکا دے کر قتل کرنے کی سازش کی،لیکن ان کی سازش کی اللہ تعالٰی نے آپ ﷺ کو وحی کے ذریعے خبر دے دی…اس طرح ان کی سازش ناکام ہوئی-
مدینہ منورہ کا سفر ابھی ایک دن کا باقی تھا اور اسلامی لشکر ذی اوان کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے حکم نازل ہوا کہ مسجد ضرار کو گرادیں …یہ مسجد منافقوں نے بنائی تھی…وہ اس مسجد کو اپنی سازشوں کا مرکز بنانا چاہتے تھے…جس وقت حضور اکرم ﷺ تبوک کے لیے روانہ ہوئے تھے اور اس مسجد کے پاس سے گزرے تھے، تب ان منافقوں نے آپ ﷺ سے اس مسجد میں دو رکعت ادا کرنے کی درخواست کی تھی- اس وقت آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ واپسی پر پڑھوں گا…لیکن واپسی پر اللہ تعالٰی نے ان کی سازش سے باخبر کردیا تھا،چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا:
“اس مسجد میں جاؤ اور جن لوگوں نے وہ مسجد بنائی ہے،ان کی آنکھوں کے سامنے اس کو آگ لگا کر گرادو…اس مسجد کو بنانے والے بڑے ظالم لوگ ہیں -”
چنانچہ صحابہ نے حکم کی تعمیل کی…مغرب اور عشاء کے درمیانی وقت میں ایسا کیا گیا-مسجد کو بالکل زمین کے برابر کردیا گیا-
جب حضور اکرم ﷺ کے لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو فرمایا:
“یہ شہر پاکیزہ اور پرسکون ہے-میرے پروردگار نے اس کو آباد کیا ہے-یہ شہر اپنے باشندوں کے میل کچیل کو اسی طرح نکال دیتا ہے جس طرح لوہار کی بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کرکے صاف کردیتی ہے-”
پھر احد کے پہاڑ کے لیے فرمایا:
“یہ احد کا پہاڑ ہے،یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت کرتے ہیں -”
اس سفر میں جانے سے کچھ لوگوں نے جی چرایا تھا…مدینہ منورہ میں داخل ہوتے ہی حضور اکرم ﷺ نے حکم فرمایا:
“جب تک میں حکم نہ دوں ،تم اس وقت تک ان لوگوں سے نہ بولنا،نہ ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا-“

اپنا تبصرہ بھیجیں