ایمل کانسی 253

ایمل کانسی: ’کاروبار‘ کے لیے امریکہ جانے والا پاکستانی شخص قاتل کیوں بن گیا؟

ایمل کانسی: ’کاروبار‘ کے لیے امریکہ جانے والا پاکستانی شخص قاتل کیوں بن گیا؟
واشنگٹن ڈی سی میں سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی یعنی سی آئی اے کے مرکزی داخلی گیٹ کے سامنے ٹریفک سگنل پر ریڈ لائٹ جگمگاتی ہے اور گاڑیاں رُک جاتی ہیں۔ ان گاڑیوں میں سوار بیشتر لوگ اکیلے ہیں، ماسوائے ایک جوڑے کے جن کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔

اسی دوران ایک مسلح شخص گاڑیوں کے پیچھے سے برآمد ہوتا ہے اور فائرنگ شروع کر دیتا ہے۔ چند ہی لمحوں میں سی آئی اے کے دو اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہو جاتے ہیں۔ گاڑیوں میں موجود تین خواتین کو خراش تک نہیں آتی۔ حملے کے بعد یہ شخص اپنی گاڑی میں سوار ہو کر فرار ہو جاتا ہے۔ یہ واقعہ آج سے ٹھیک 28 برس قبل یعنی 25 جنوری 1993 کی صبح پیش آیا تھا۔

امریکہ پر نائن الیون کے حملے سے آٹھ سال قبل یعنی سنہ 1993 میں امریکہ کی انتظامیہ پر یہ اس وقت کا سب سے بڑا حملہ کہا جاتا تھا۔ مقامی پولیس، ایف بی آئی اور سی آئی اے تحقیقات میں شامل ہو جاتے ہیں اور ابتدائی تحقیقات کی بنیاد یہ تھی کہ یہ حملہ کسی کا ذاتی فعل تھا یا دہشت گردی کی منظم کارروائی۔

تحقیقاتی اداروں کو جائے وقوع سے 10 گولیوں کے خول اور بغیر چلی گولی ملتی ہے، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ حملہ آور کی بندوق جام ہو چکی تھی اسی لیے ایک گولی چل نہ سکی۔ حملے میں محفوظ رہنے والی خواتین کی مدد سے حملہ آور کا خاکہ تیار کیا گیا اور اخبارات میں اس کی تشہیر کی گئی۔ عام شہریوں سے معلومات کے حصول کے لیے ایک فون لائن وقف کر دی گئی۔