ahleharam 631

ترک اور کرد مسئلے کا تاریخی پسِ منظر : نجیب اللہ زہری

ترک اور کرد مسئلے کا تاریخی پسِ منظر

نجیب اللہ زہری، 15-7-2019

کرد, کردستان, کردش, یہ وہ الفاظ ہے جن سے کرد قوم کی پہچان ہوتی ہے تاریخ کے جبر نے اس پہچان پر بڑا ظلم ڈھایا ہے کرد قدیم اقوامِ عالم میں تاریخی نام رکھتے ہیں ثقافتی پہچان ہو یا قومی پہچان کردوں نے ہمیشہ سے اپنی جداگانہ حیثیت حاصل کی ہے –
سنہ 1916 میں جہاں برطانیہ اور فرانس نے خفیہ معاہدے کے ذریعے کردستان جہاں ساڑھے تین کروڑ کرد آباد تھے کو چار ملکوں میں تقسیم کیا جن میں ترکی، ایران، عراق، شام، شامل ہے بعد میں کچھ کردوں کو آرمینیا میں بھی تقسیم کیا آرمینیا کو ملا کر پانچ ممالک بنتے ہیں جہاں کردوں کو تقسیم کیا گیا – اس جبری تقسیم سے کرد منتشر ہوئے اتنی بڑی تعداد میں بھی خالی ملک یعنی اپنی ریاست سے محروم ہوگئے اس کے باوجود کردوں نے اپنی ثقافت و تہذیب ، روایت و تاریخ اور مشترکہ زبان کی بدولت اپنے دلوں میں وطن کی محبت کو زندہ رکھا-

اسلامک انسائیکلو پیڈیا کے مطابق کردستان کا علاقہ تین لاکھ بیانوے ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے ترکی کردستان کے جو مشہور شہر ہیں ان میں نصیبین، رفا، دیار بکر، شانلی، موش، بِتلس، وان، جزیرہ ابن عمر، دیارِ بکر اور جزیرہ ابن عمر یہ دونوں علاقے دریائے دجلہ کے کنارے پر واقع ہیں اور اتفاق یہ ہے کہ دریائے دجلہ ترکی، ایران، اور شام کے کرد علاقوں کے درمیان بہتا ہے جو کہ کرد ریاست کے لئے بہت بڑی اہمیت کے قابل ہے
عراقی کردستان کے مشہور شہر جس نام سے آباد ہے وہ یہ ہیں اربیل اور سلیمانیہ، اربیل تو عراق میں کردوں کا دار الخلافہ ہے،
ایرانی کردستان جن علاقوں پر مشتمل ہے وہ یہ ہیں سننداج، مہ، ایلام، اور کرمان شاہ،

شام میں واقع کرد علاقے کا رقبہ 12.00 مربع کلومیٹر ہے
عراق میں واقع کرد علاقے کا رقبہ 65.000 مربع کلومیٹر ہے
ایران میں واقعہ کرد علاقے کا رقبہ 1.25.000 مربع کلومیٹر ہے
ترکی میں واقع کرد علاقے کا رقبہ 1.90.000 مربع کلومیٹر ہے

کردوں کی پونے دو کروڑ کی آبادی ترکی میں آباد ہے، ایک کروڑ کی آبادی ایران میں ،عراق میں پچپن لاکھ اور شام پچیس لاکھ کرد آباد ہیں،

کرد ساتویں صدی میں ایمان لائے اور اسلام میں داخل ہوئے کہا جاتا ہے کہ صلیبی جنگوں میں فاتح صلاح الدین ایوبی بھی کرد تھے اور اس مسلم فاتح کی قوم آج جبر و تشدّد میں زندگی بسر کر رہی ہے سلطنت عثمانیہ میں کرد خانہ بدوشوں کے نام سے جانے جاتے تھے ستم ظریفی یہ ہے کہ 1920ء میں مشرقی وسطیٰ میں سیورے معاہدے کے مطابق عراق، شام، کویت آذاد ریاستیں بن گئی اور اسی معاہدے میں کردستان کو آذاد ریاست کا درجہ دینے کے لئے وعدہ کیا گیا لیکن ترکی میں مصطفیٰ کمال اتاترک کی حکومت آنے کے بعد خفیہ معاہدے کے تحت ایران، عراق اور ترکی نے کردستان کو آذاد ریاست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا –

کردوں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا جس کی وجہ سے انکی محرومیاں بڑھتی گئی عراق میں صدام حسین کی حکومت گرنے کے بعد کردوں کو نئی پالیسی کے تحت خود مختاری دی گئی لیکن باقی تین ممالک میں انہیں اقلیت کے درجے میں رکھا گیا یہی وجہ ہے کہ کردوں کی تاریخ ان ممالک میں بغاوتوں سے بھری پڑی ہے – 1925ء میں جب کردوں نے ترکی میں شیخ سعید کی قیادت میں بغاوت کی تو ترکی نے کردوں کے خلاف پالیسی بنائی کہ کردوں کی تشخص ختم کی جائے اس پالیسی کے تحت ترکی نے کردوں کی زبان و ثقافت پر پابندی لگا کر انہیں پہاڑی ترک قرار دے کر ترک معاشرے میں ضم کرنے کی کوشش کی جس کے خلاف کردوں نے شدید مزاہمت کی تحریک چلائی –

ان محرومیوں کو دیکھتے ہوئے عبداللہ اوجلان نے 1970ء میں کرد طلباء کو یکجاء کرنا شروع کیا اور کرد طلباء کو اپنی تاریخ و ثقافت کے حوالے سے تبلیغ دی اور تمام ممالک کے کردوں سے رابطے بڑھانے شروع کیئے بعد ازاں عبداللہ اوجلان نے 1978ء میں کردوں کی سیاسی جماعت بنائی جسے کردستان ورکرز پارٹی کا نام دیا گیا جسکا کردی نام PKK . PRTI KARKERANI KURDESTAN یہ پارٹی سیاسی میدان میں اپنا نام بنانے لگا کافی حلقوں پر سیاسی تنقید بھی کی-
کردستان ورکرز پارٹی نے کرد سردار میمت جیلال بوسیک کو قتل کیا صفائی پیش کی کہ میمت کرد کسانوں کا استحصال کرنے میں آگے آگے تھا اور ترکی سے خفیہ معاہدے کرتا تھا کردوں کے خلاف-اور پی کے کے نے میمت کے خلاف واضح ثبوت بھی پیش کیئے تھے –

1984ء میں اس جماعت نے ترکی کے جبری قبضے کے خلاف مزاحمت کی جس کا مقصد کردستان کو ایک آزاد ریاست بنانا تھا جس پر ترکی حکومت نے نے کردوں کو کچلنے کی ٹھان لی بعد ازاں ترکی نے اس جماعت پی کے کے کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کے لئے یورپی یونین سے لابنگ شروع کی سرمایہ دارانہ تمام ممالک نے ترکی کا ساتھ دیتے ہوئے کردستان ورکرز پارٹی کو 2اپریل 2004 میں دہشت گرد تنظیم قرار دیا اور اپنے ممالک میں اس کے کام پر پابندی عائد کی -اس سے پہلے 1980ء میں پی کے کے نے فرانس میں ترکی کی سفارتخانے پر حملہ کیا اس حملے کے بعد عالمی سطح پر پی کے کے نے ترکی کے مفادات کو اپنا ہدف بنایا ترکی سمیت بیلجئم، فرانس اور عراق میں کردستان ورکرز پارٹی نے اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہوئے ترکی کو لوہے کے چنے چبوائے – 1990ء میں جب ترکی نے شام سے اس بنیاد پر جنگ کی دھمکی دی کہ وہ پی کے کے کی حمایت چھوڑے جس کے بعد کردستان ورکرز پارٹی نے اپنی ریاست کے حصول کے لئے ترکی کے خلاف خود کش حملے شروع کیئے –
اپنی نوعیت کی تنظیموں میں پی کے کے ایسی تنظیم ہے جس میں 40% فیصد خواتین گوریلا ہیں اور اس تنظیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا کارکن جس طرح ہتھیاروں سے لیس ہوتا ہے اسی طرح زہنی طور پر نظریاتی افکار سے بھی واقف ہوتا ہے –

2018 کے بعد اب پھر ترکی نے شامی کردوں کے خلاف زمینی اور فضائی کارروائی شروع کی ہے ترکی کا کہنا ہے کہ وہ کردوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ کردوں میں جو دہشت گرد تنظیمیں ہیں انکے خلاف آپریشن کر رہا ہے جن میں پی کے کے اور وائی پی جے شامل ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ آپریشن کردوں کے خلاف ہے کیونکہ کرد شروع دن سے پی کے کے اور وائی پی جے کی حمایت کر رہے ہیں جس کی وجہ عراق و ایران اور ترکی سمیت کردستان میں بسنے والے تمام کرد اپنی آذاد ریاست بنانا چاہتے ہیں –

کردوں کی اپنی فوج اور اپنا نظام ہے بلکہ انکی اپنی جیلیں بھی ہیں یاد رہے کہ جب داعش نے شام پر حملہ کیا تو شام سے داعش کو بھی کردوں نے اتحادی فوج کے ساتھ ختم کیا حالانکہ ابھی بھی بڑی تعداد میں کردی جیلوں میں بہت سے خطرناک داعش کے دہشت گرد قید ہیں حالیہ دنوں میں جب امریکہ نے شام چھوڑنے کا اعلان کیا تو ترکی کو موقع ملا ترکی نے اعلان کیا کہ کرد عالمی امن کے لئے خطرناک ہیں ترکی انکے خلاف آپریشن کرے گا-

ترکی کردوں کے خلاف آپریشن کرنے کے لئے دو مؤقف رکھتا ہے
پہلا، ترکی کہتا ہے کہ کرد عالمی امن کے لئے خطرناک ہیں سوال بنتا ہے کہ اگر خطرناک ہیں تو یورپی یونین سمیت مسلم ممالک نے انکی فوج کو کیوں اپنا اتحادی بنایا داعش کے خلاف اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کرد عالمی امن کے لئے خطرناک نہیں بلکہ ترکی کے لئے خطرناک ہیں جس کی وجہ کردوں کا اپنی آذادی کے لئے ترکی سے جنگ ہے –

دوسرا، ترکی کہتا ہے کہ شامی سرحد کے اندر ایک محفوظ علاقہ بنایا جائے جو کہ شامی سرحد پر کرد علاقہ ہے 32 کلو میٹر پر مشتمل ہے ترکی کہتا ہے اس علاقے کو آپریشن کر کے کرد جنگجوؤں سے خالی کروں گا اور اس علاقے میں شامی پناہ گزینوں کو لاؤں گا جو ترکی میں30 لاکھ شامی مہاجرین ہیں ان میں سے 20 لاکھ کو میں اس علاقے میں جگہ دوں گا دوسری طرف شام ترکی سے کہہ رہا ہے کہ میرے شامی مہاجرین مجھے دو میں خود انہیں جگہ دونگا اس علاقے میں آپریشن کی ضرورت نہیں لیکن ترکی شامی مہاجرین شام کو نہیں دے رہا ترکی کہتا ہے میں آپریشن ضرور کروں گا،
اب سوال یہ بنتا ہے کہ مہاجرین شام کے ہیں شام بارہا کہہ چکا ہے کہ میرے مہاجرین مجھے دو ترکی کیوں نہیں دیتا ؟ ترکی آپریشن پر بضد کیوں ہے ؟ ترکی کو یورپی یونین سمیت کئی مسلم ممالک نے کہا کہ یہ عمل غلط ہے طیب اردگان نے کہا کہ اب کسی نے اس آپریشن کی مخالفت کی تو میں 20 لاکھ شامی مہاجرین انکے ملک بھیجوں گا ترکی آخری حربہ بلیک میلنگ استعمال کر رہا ہے-

ترکی ان دنوں ترکی کردستان میں کردوں کے ایک گاؤں کو خالی کراکر ترکی کی تاریخ کا بڑا ڈیم بنانے جارہا ہے جس کی تجارتی راہداری و سیاحتی راہداری کردوں کے علاقوں سے گزرتی ہے جس کے لئے کردوں کو کچلنا ضروری ہے ورنہ وہ اپنے علاقے میں مزاحمت کریں گے اور ترکی کے لئے مشکلات پیدا کریں گے –

یقیناً یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ ترکی اور کردوں کی جنگ امن اور دہشتگردی کی جنگ نہیں بلکہ یہ معیشت کی جنگ ہے اکنامک وار ہے عالمی سیاسی جنگ کا ایک اہم جز ہے جس سے ترکی کی مفادات جڑی ہیں دوسری طرف کردوں کی مزاحمت اپنی آذاد ریاست کے لئے ہے جو انکا بنیادی حق ہے –

ساڑھے تین کروڑ پر مشتمل کردوں کی آذادی کی جزبوں کو کوئی سامراجی طاقت دبا نہیں سکتی – جہاں عربستان سے جداگانه حیثیت میں اردن، قطر، کویت کو الگ الگ ریاستیں بنا دی گئی وہاں کردوں کی کثیر تعداد کی بنیاد پر انکی اپنی ریاست ضروری ہے اکیسویں صدی میں انکا وہ حق کردوں کو ضروری دیا جائے جو سیورے معاہدے میں ان سے چھین لیا گیا تھا عراق، ایران اور ترکی کو چاہئے کہ وہ کردستان کو آذادی دیں پھر بطور مسلم ممالک اسکی مدد بھی کریں اور کردستان کی آذادی کو تسلیم کریں تواتر سے خونریزی کے بجائے امن و محبت، دین اسلام اور وقت کا تقاضا ہے،