ahleharam pakistan 783

غزوۂ بدر کی تاریخی اہمیت از: مفتی گلزار احمد نعیمی

غزوۂ بدر کی تاریخی اہمیت
از: مفتی گلزار احمد نعیمی
مرکزی صدرجماعت اہل حرم،پاکستان
پرنسپل جامعہ نعیمیہ، اسلام آباد
غزوۂ بدر تاریخ اسلام کا پہلا غزوۂ ہے جو کفر اور اسلام کے مابین بپا ہوا اس غزوہ کو بدر کے نام سے منسوب کرنے کی مختلف و جوہات اہل علم نے بیان فرمائی ہیں۔ بعض اہل علم کی رائے ہے کہ بدر ایک وادی کا نام ہے جس میں یہ پہلا معرکہ لڑا گیا تھا۔ بعض نے کہا کہ بد ر ایک کنواں تھا، اس کنوئیں کے مالک کا نام بدر تھا اس لیے اسکا نام اس کے مالک کے نام پر رکھ دیا گیا چونکہ یہ جنگ اس کنوئیں کے پہلو میں لڑی گئی اس لیے اس جنگ کو جنگ بدر کہا جانے لگا۔ مشہور مؤرخ علامہ یاقوت حموی نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔
جب مسلمان اللہ کے حکم سے مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے آئے تو وہ نہایت بے سروسامانی کے عالم میں وارد مدینہ ہوئے تھے۔ ان کے اموال، کاروبار، اور گھر بار پر اہل مکہ نے قبضہ جما لیا تھا جس کی وجہ سے مہاجرین اسلام بالکل نہتے تھے جو بے شمار مالی مشکلات کا شکار تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انکی مالی مشکلات کے حل کے لیے مہاجرین و انصار کے درمیان تاریخی مواخات کرائی تھی تا کہ مہاجرین اپنے مسائل سے باہر نکل آئیں۔
اس کے برعکس اہل مکہ مسلمانوں کو مکہ سے نکال کر بھی مطمئن نہ تھے وہ اس نومولود اسلامی تحریک کو ہر دم مٹانا چاہتے تھے انہوں نے ایک تجارتی قافلہ ترتیب دیا جس میں مکہ کے ہر فرد نے سرمایہ کاری کی اور اس قافلہ کو ملک شام کی طرف روانہ کیا، اس لشکر کی سرپرستی ابوسفیان کو دی گئی جو یکے از سرداران قریش تھے۔ اس قافلہ کا مالی حجم تقریبا پچاس ہزار دینار تھا۔ یہ طے کیا گیا تھا کہ اس تجارتی قافلہ کا کمایا ہوا تمام زرمنافع اس نئی جنم لینے والی تحریک اسلامی کے خلاف خرچ کیا جائے گا تاکہ اسکو سرمائے کے بل بوتے پر مٹا دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اس تجارتی قافلہ کی اطلاع ملی تو آپ نے اس کے تعاقب کے لیے حکم دیا اور آپکا اس قافلہ پر حملہ کرنا بالکل روا اور درست تھا۔ جن لوگوں نے اس قافلہ پر حملہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے غارت گری قرار دیگر طعنہ زنی کی ہے انہوں نے تعصب سے کام لیا ہے کیونکہ وہ اس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ اہل مکہ پہلے ہی مسلمانوں کے اموال پر قبضہ کر چکے تھے جو اموال مسلمان مکہ میں چھوڑ آئے تھے اور پھر یہ قافلہ بھی جنگی تیاریوں کے حوالے سے ہی تیار کر کے بھیجا گیا تھا کہ اس سے حاصل ہونے والا کثیر منافع مسلمانوں کی نابودی پر خرچ کیا جائے گا۔ اندریں حالات یہ حملہ غارت گری کسی صورت میں نہیں کہلا سکتی، یہ تو عین جنگی حکمت عملی تھی کہ اس قافلہ پر حملہ کر کے دشمن کی کمر توڑ دی جائے تا کہ وہ حملہ کے قابل نہ رہے۔
بہر حال ابوسفیان اپنا تجارتی قافلہ تو بچا کر لے گیا مگر ضمضم غفاری جسے ابوسفیان نے مکہ بھیج کر اہل مکہ کے تجارتی قافلہ کو بچانے کے لیے مدد طلب کی تھی وہ تیار ہو کر مسلمانوں کے مقابلہ میں عازم سفر ہو چکے تھے۔ بدر کے مقام پر یہ دونوں قافلے نبرد آزما ہوئے۔ مسلمانوں کی تعداد تین صد تیرہ (313)تھی اور مد مقابل لشکر ایک ہزار جنگجوؤں پر مشتمل تھا اس لشکر کے پاس آلات حرب و ضرب کی کثرت تھی اور سامان خوردونوش بھی بہت وافر مقدار میں موجود تھا اور سامان عیش و طرب اس کے سوا تھا جبکہ مسلمان تعداد کے لحاظ سے بھی کم تھے اور جنگی سازوسامان کے اعتبار سے بھی نہایت کمزور، سامان خوردونوش بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔فرق صرف یہ تھا کہ یہ لوگ اعلائے کلمۃ الحق کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے آئے تھے اور انکا مدمقابل جھوٹ اور دجل کا نمائندہ بن کے آیا تھا۔ مسلمانوں کا قافلہ اس وقت روئے زمین پر واحد تھا جو خدا کا نمائندہ تھا اسی لیے سالار قافلہ نے عین میدان بدر میں اپنے رب سے اس لشکر کی کامیابی کے لیے دعا مانگتے ہوئے عرض کیا تھا:اللھم ان تھلک ھذہ العصابۃ من اہل الا اسلام لا تعبد فی الارض ترجمہ: اے اللہ اگر اسلامیوں کا یہ چھوٹا سا لشکر آج ہلاک کر دیا جاتا ہے تو پھر زمین پر تیرا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے نبی کی عاجزی و انکساری سے لبریز دعا کو مستجاب فرمایا اور اس وعدہ کی بھی تکمیل فرما دی جسکا سرکار نے اس دعا میں تذکرہ فرمایا تھا۔ اللھم انجزلی ما وعد تنی اے اللہ جو تو نے میرے ساتھ وعدہ فرمایا تھا اسکی تکمیل فرمادے۔ اللہ نے تین سوتیرہ کو ایک ہزار پر فتح دی، تعداد اور آلات حرب کی کمی کے باوجود مسلمانوں نے اپنے سے تین گنا زیادہ دشمن کو شکست دیکر ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ دشمن کے نامور جنگجو 70سے زیادہ کام آئے اور مسلمانوں میں سے صرف چودہ(14) نے جام شہادت نوش کیا مسلمانوں کے دلوں میں بحرتوحید کی طغیانی کا یہ عالم کہ صرف اکیلے پروردۂ آغوش مصطفی حضرت علی مشکل کشا نے تیس سے زیادہ جہنمیوں کو نار جہنم میں ڈالا، اسلام اور کفر کے درمیان اس تاریخی معرکہ کو الفارق بین الحق و الباطل قرار دیا گیاجس دن یہ معرکہ وقوع پذیر ہوا اسے یوم الفرقان ارشاد فرمایا گیا اس جنگ میں شریک اسلام کے سپوتوں کو ہمیشہ کے لیے” بدری صحابہ” کا قابل فخر اعزاز دیا گیا اب وہ ہمیشہ کے لیے دیگر مجاہدین پر برتر قرار پائے۔ اگر وہ کوئی رائے دیتے تو انکی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی، اگر وہ کسی جنگ میں شریک ہوتے تو انہیں مال غنیمت میں سے ایک حصہ اس جنگ میں شریک ہونے کا اور ایک غزوہ بدر میں شرکت کا خصوصی حصہ ملتا۔بارگاہ خدا و مصطفے سے اعزاز اس سے بھی بڑھ کرپایا کہ مصطفے نے فرمایا: اے میدان بدر میں اپنی بہادری اور خدا پرستی کا اظہار کرنے والو! اللہ نے تمہاری پچھلی خطائیں معاف تو کر ہی دی ہیں آئندہ سرزد ہونے والی غلطیاں بھی تمہارے نامہ اعمال میں نہیں لکھی جائیں گے۔
اس جنگ کی وجہ سے اسلام ایک قوت بن گیا اور مسلمان ایک الگ قوم کا روپ دھار گئے۔یہ غزوہ آئندہ کامیابیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔