Seerat-ul-Nabi 95

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ – سیدہ خدیجہ رضی الله عنها سے نکاح

شاید وہ گزشتہ آسمانی کتاب کا کوئی عالم تھا اور اُس نے آپ کو پہچان لیا تھا، چناچہ بولا:
“آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔”
اس کے بعد اس نے میسرہ سے علیحدگی میں ملاقات کی، کہنے لگا:
“میسرہ! یہ نبی ہیں ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہی ہے جن کا ذکر ہمارے راہب اپنی کتابوں میں پاتے ہیں ۔”
میسرہ نے اس کی اس بات کو ذہن نشین کر لیا۔ راستے میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دو اونٹ بہت زیادہ تھک گئے تھے اور چلنے کے قابل نہ رہے،ان کی وجہ سے میسرہ قافلے کے پیچھے رہ گیا، نبی کریم ﷺ قافلے کے اگلے حصے میں تھے۔میسرہ ان اونٹوں کی وجہ سے پریشان ہوا تو دوڑتا ہوا اگلے حصے کی طرف آیا اور اپنی پریشانی کے بارے میں آپ کو بتایا۔ آپ اس کے ساتھ ان دونوں اونٹوں کے پاس تشریف لائے،ان کی کمر اور پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا۔ کچھ پڑھ کر دم کیا۔ آپ کا ایسا کرنا تھا کہ اونٹ اسی وقت ٹھیک ہوگئے اور اس قدر تیز چلے کہ قافلے کے اگلے حصے میں پہنچ گئے۔ اب وہ منہ سے آوازیں نکال رہے تھے اور چلنے میں جوش و خروش کا اظہار کر رہے تھے۔
پھر قافلے والوں نے اپنا سامان فروخت کیا۔اس بار انہیں اتنا نفع ہوا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، چنانچہ میسرہ نے آپ سے کہا:
“اے محمد! ہم سالہا سال سے سیدہ خدیجہ کے لئے تجارت کر رہے ہیں ، مگر اتنا زبردست نفع ہمیں کبھی نہیں ہوا جتنا اس بار ہوا ہے۔”
آخر قافلہ واپس مکہ کی طرف روانہ ہوا۔میسرہ نے اس دوران صاف طور پر یہ بات دیکھی کہ جب گرمی کا وقت ہوتا تھا اور نبی کریم ﷺ اپنے اونٹ پر ہوتے تھے تو دو فرشتے دھوپ سے بچانے کیلیے آپ پر سایہ کیے رہتے تھے۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے میسرہ کے دل میں آپ کی محبت گھر کر گئی اور یوں لگنے لگا جیسے وہ آپ کا غلام ہو۔
آپ ﷺ دوپہر کے وقت مکہ میں داخل ہوئے۔ اپ باقی قافلے سے پہلے پہنچ گئے تھے۔ آپ سیدھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے۔ وہ اس وقت چند عورتوں کے ساتھ بیٹھی تھیں ۔ انہوں نے دور سے آپ کو دیکھ لیا۔ آپ اونٹ پر سوار تھے اور دو فرشتے آپ پر سایہ کئے ہوئے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ منظر دوسری عورتوں کو بھی دکھایا۔ وہ سب بہت حیران ہوئیں ۔
اب آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کو تجارت کے حالات سنائے۔منافع کے بارے میں بتایا۔ اس مرتبہ پہلے کی نسبت دو گنا منافع ہوا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت خوش ہوئیں ۔ انہوں نے پوچھا:
“میسرہ کہاں ہے؟”
آپ نے بتایا:
“وہ ابھی پیچھے ہے۔”
یہ سن کر سیدہ نے کہا:
“آپ فوراً اس کے پاس جائیے اور اسے جلد از جلد میرے پاس لائیے۔”
آپ واپس روانہ ہوئے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے دراصل آپ کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ پھر سے وہی منظر دیکھنا چاہتی تھیں ۔ جاننا چاہتی تھیں کیا اب بھی فرشتے ان پر سایہ کرتے ہیں یا نہیں ۔ جونہی آپ روانہ ہوئے، یہ اپنے مکان کے اوپر چڑھ گئیں اور وہاں آپ کو دیکھنے لگیں ۔ آپ کی شان اب بھی وہی نظر آئی۔ اب اُنہیں یقین ہو گیا کہ اُن کی آنکھوں نے دھوکا نہیں کھایا تھا۔ کچھ دیر بعد آپ ﷺ میسرہ کے ساتھ اُن کے پاس پہنچ گئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے میسرہ سے کہا:
“میں نے ان پر دو فرشتوں کو سایہ کرتے ہوئے دیکھا ہے، کیا تم نے بھی کوئی ایسا منظر دیکھا ہے۔”
جواب میں میسرہ نے کہا:
“میں تو یہ منظر اس وقت سے دیکھ رہا ہوں جب قافلہ یہاں سے شام جانے کے لیے روانہ ہوا تھا۔”
اس کے بعد میسرہ نے نسطورا سے ملاقات کا حال سنایا۔ دوسرے آدمی نے جو کہا تھا، وہ بھی بتایا۔ جس نے لات اور عزیٰ کی قسم کھانے کے لیے کہا تھا، پھر اونٹوں والا واقعہ بتایا۔ یہ تمام باتیں سننے کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو طے شدہ اجرت سے دوگنا دی۔ جب کہ طے شدہ اجرت پہلے ہی دوسرے لوگوں کی نسبت دوگنا تھی۔
ان تمام باتوں سے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت حیران ہوئیں ۔ اب وہ اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل سے ملیں ، یہ پچھلی کتابوں کے عالم تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں ، جو کچھ خود دیکھا اورمیسرہ کی زبانی سنا تھا، وہ سب کہہ سُنایا۔ ورقہ بن نوفل اس وقت عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے،اس سے پہلے وہ یہودی تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تمام باتیں سن کر ورقہ بن نوفل نے کہا:
“خدیجہ! اگر یہ باتیں سچ ہیں تو سمجھ لو، محمد اس امت کے نبی ہیں ۔ میں یہ بات جان چکا ہوں کہ وہ اس امت کے ہونے والے نبی ہیں ، دنیا کو انہی کا انتظار تھا۔ یہی ان کا زمانہ ہے۔”
یہاں یہ بات بھی واضح ہو جائے کی نبی اکرم ﷺ نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے تجارتی سفر صرف ایک بار ہی نہیں کیا چند سفر اور بھی کیے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک شریف اور پاک باز خاتون تھیں ۔ نسب کے اعتبار سے بھی قریش میں سب سے اعلیٰ تھیں ۔ اُنہیں قریش کی سیدہ کہا جاتا تھا۔ قوم کے بہت سے لوگ اُن سے نکاح خواہشمند تھے، کئی نوجوانوں کے پیغام اُن تک پہنچ چکے تھے، لیکن انہوں نے کسی کے پیغام کو قبول نہیں کیا تھا۔
نبی اکرم ﷺ تجارت کے سفر سے واپس آئے تو آپ ﷺ کی خصوصیات دیکھ کر اور آپ کی باتیں سن کر وہ آپ ﷺ سے بہت زیادہ متاثر ہو چکی تھیں لہٰذا انہوں نے ایک خاتون نفیسہ بنت منيه کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ اُنہوں نے آکر آپ سے کہا کہ اگر کوئی دولتمند اور پاک باز خاتون خود آپ کو نکاح کی پیشکش کرے تو کیا آپ مان لیں گے۔
اُن کی بات سن کر آپ نے فرمایا:
“وہ کون ہیں ؟”
نفیسہ نے فوراً کہا:
“خدیجہ بنت خویلد۔”
آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ نفیسہ بنت منیہ سیدہ خدیجہ رضی الله عنہا کے پاس آئیں ۔ انہیں ساری بات بتائی۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے چچا عمرو بن اسد کو اطلاع کرائی، تاکہ وہ آکر نکاح کر دیں ۔
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اس سے پہلے دو مرتبہ شادی ہو چکی تھی۔ ان کا پہلا نکاح عتیق ابن مائد سے ہوا تھا۔ اس سے بیٹی ہندہ پیدا ہوئی تھی۔ عتیق کے فوت ہو جانے کے بعد سیدہ کا دوسرا نکاح ابوہالہ نامی شخص سے ہوا۔ ابوہالہ کی وفات کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بیوگی کی زندگی گزار رہی تھیں کہ انہوں نے آپ ﷺ سے نکاح کا ارادہ کر لیا۔ اس وقت سیدہ کی عمر 40 سال کے لگ بھگ تھی۔
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا عمرو بن اسد وہاں پہنچ گئے، ادھر نبی کریم ﷺ بھی اپنے چچاؤں کو لے کر پہنچ گئے۔ نکاح کس نے پڑھایا ، اس بارے روایات مختلف ہیں ۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ نکاح چچا ابوطالب نے پڑھایا تھا۔ مہر کی رقم کے بارے میں بھی روایات مختلف ہیں ۔ ایک روایت یہ ہے کہ مہر کی رقم بارہ اوقیہ کے قریب تھی، دوسری روایت یہ ہے کہ آپ نے مہر میں بیس جوان اونٹنیاں دیں ۔
نکاح کے بعد نبی کریم ﷺ نے ولیمے کی دعوت کھلائی اور اس دعوت میں آپ نے ایک یا دو اونٹ ذبح کیے۔Top
seerat Ul Nabi in urdu complete series

اپنا تبصرہ بھیجیں