زبان کی حفاظت …جنت کی ضمانت
آصف ہارون
عربی زبان کا ایک مقولہ ہے ’’سلامۃ الا نسان فی حفظ اللسان‘‘ زبان کی حفاظت میں ہی انسان کی سلامتی مضمر ہے۔ دنیا میں فتنہ وفساد برپا کرنے میں آنکھ ،کان،دل،ہاتھ اور زبان جیسے اعضائے انسانی کا بہت اہم کردار ہے بلکہ بنیادہی یہی ہیں ۔لیکن ان میں سے زبان سب سے زیادہ شر پھیلاتی ہے، کیونکہ آنکھ کے عمل کا انحصار صرف منظورات پر ہوتاہے۔اسی طرح کا ن کے عمل کا انحصار مسموعات،دل کے عمل کا انحصار محسوسات اورہاتھ کے عمل کا انحصار ملموسات پر ہوتاہے جبکہ باوجود صفرحجم کے زبان کے عمل کا انحصار حق وباطل،نفی واثبات، اطاعت ومعصیت اورکفروایمان سب پرہوتاہے۔ پھر اسی زبان سے دی جانے والی ایذائیں کئی ہلاکتوں کا سبب بنتی ہیں، کئی گھر وں کو ویران اورمسمار کرتی ہیں، کئی دلوں کا سکون واطمینان چھین لیتی ہیں، کئی آنکھوں سے چمک دور کردیتی ہیںاور زندگیوں سے کھیلنے والے،دلوں کو زبان کے زہر سے پارہ پارہ کرنے والے خود اس زہر قاتل کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس زبان کا تحفظ کیا جائے ،مگر موجودہ معاشرے کی حالت کو دیکھ کردل خون کے آنسو روتاہے کہ نوجوان،بوڑھے اورخواتین سب اس موذی مرض کا شکار ہیں۔ عورتوں کے متعلق تو رسول اقدس انے آج سے صدیوں پہلے یہ ارشاد فرمایاتھا۔مسلم شریف کی روایت ہے :
’’یا معشر النساء تصدقن واکثرن من الا ستغفارفانی رایتکن اکثر من اھل النار‘‘
’’ اے عورتوں کی جماعت !تم کثرت سے صدقہ وخیرات اور استغفار کیا کرو۔کیونکہ میں نے تمہاری کثرت ِتعداد کو جہنم کی آگ میں دیکھا ہے۔ پوچھا گیا اے اللہ کے رسول ا اس کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا کہ تم اپنی زبانوںسے لعن طعن بہت کرتی ہو اور خاوندوں کی ناشکری ونافرمانی بہت کرتی ہو۔‘‘
اورحقیقت بھی اس بات میں پنہاں ہے کہ موجودہ معاشرے کے بگاڑ میں عورت کا بہت بڑاکردار ہے۔وہ اپنی زبان،ناقص عقل اوراپنے جسم کے ساتھ شیطانی ہتھکنڈہ اور ابلیسی کھلونا بنی ہوئی ہے۔اگر عورت کو اس بات کا احساس ہوجائے کہ بحیثیت مسلمان اسلام نے مجھ پر جو حدود وقیود لگائی ہیں،مجھے اُن کا نہ صرف ادب واحترام کرنا ہے بلکہ ان کی اکمل طور پر پاسداری بھی کرنی ہے تو یہی عورت معاشرے کی اصلاح میں نہ صرف معاون ٹھہرے گی بلکہ عزت وعظمت کے بلند مقام پر بھی فائز ہو جائے گی۔مگر عورت کی فطرت میں یہ شامل ہے کہ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اس کی زبان پھسل ہی جاتی ہے خواہ کتنی ہی نیکو کاراور پرہیز گارہو جیسا کہ ایک مقدس خاتون سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ آپؓ نے اُم المؤ منین سیدہ صفیہ ص کے بارے میں یہ کہہ ڈالا کہ اے اللہ کے رسول ا وہ تو پست قدوالی ہیں، تو محسن کا ئنات انے فوراًڈانٹا اورفرمایا :اے عائشہ ! ’’تو نے ایسا زہریلاکلمہ کہا ہے کہ اگر تو اس کلمہ کو وسیع وعریض سمندر میں ڈال دے تو سمندر کا پانی بھی زہریلا اورکڑوا ہوجائے گا۔‘‘(ترمذی )
غور فرمائیں کہ سیدہ عائشہ صنے زندگی میں ایک دفعہ ایسا کلمہ کہا تو رسول اکرم ا نے فوراًڈانٹ دیا اور ساتھ ہی اس کلمے کے اثرات کا بھی تذکرہ کیا کہ وہ کتنا زہریلا ہے۔ تو کیا آج جب ہم مسلمان مرد و خواتین مجلسوں میں بیٹھ کر کتنے ہی ایسے زہریلے کلمات زبانوں سے نکالتے ہیں جن میں دوسرے مسلمان مرد و خواتین کی عزت و وقارپر حملہ اور ان کی ہجو ہوتی ہے ،بھلا کیسے درست ہوسکتا ہے ؟ اللھم ارحم علیٰ احوالنا۔مولا تو ہماری حالت پر رحم فرما ۔ آمین
اس میں کوئی شک وشبہ والی بات نہیں کہ اسلام کے بعد زبان جیسی نعمت عظمیٰ ربُّ اللعالمین کی طرف سے عظیم عطیہ ہے۔ ارشاد ہوا : اَلَمْ نَجْعَلْ لَّہُ عَیْنَیْنِ وَلِسَاناً وَّشَفَتَیْنِ ’’کیا ہم نے حضر ت انسان کی دو آنکھیں،زبان اور دوہونٹ نہیں بنائے؟‘‘ اوریہ نرم ونازک زبان دوحدوں والا اسلحہ بھی ہے، پس جس نے اس کواطاعت الہٰی، قرأۃ القرآن، امر بالمعروف و نہی عن المنکر،مظلوم کی نصرت اور مسلمانوں کی عزتوں کے دفاع میں استعمال کیا تو یہ نہ صرف شکر الہٰی ہوگابلکہ دنیا وآخرت میں اجرجزیل بھی ملے گا اورجس نے اس کو اطاعت شیطان ،مسلمانو ں کی جماعت میں تفریق ڈالنے،جھوٹ،غیبت،چغلی،گالی گلوچ،بہتان ،تہمت بازی، بدکلامی وخوشامد، جھوٹی قسم،غیر اللہ کی قسم،لعن وطعن،استہزاء ،مسلمانوں کی عزتوں کی تہمت اور افشاء راز جیسے رذائل میں استعمال کیا تو یہ نہ صرف کفران نعمت ہوگابلکہ عذاب الیم کا بھی مستحق ہو گا۔بلکہ یہی زبان کل جب روزِآخر لوگوں کی اکثریت کو جہنم میں اوندھے منہ ڈالے گی جیسا کہ محسن انسانیت انے خود اپنی زبان پکڑکرسیدنا معاذ ص کو یہ نصیحت فرمائی تھی کہ ’’ اے معاذ!اس زبان پر کنٹرول کرلو، تو سیدنامعاذ ص پوچھنے لگے!اے اللہ کے رسول اہم زبان سے جو کلام کرتے ہیں کیا اس کا بھی مواخذہ ہوگا؟فرمایا اے معاذ!تجھ کو تیری ماں گم پائے (کلمہ توبیخ)کل روز قیامت لوگوں کی اکثر یت اپنی زبانوں کی کمائی کی وجہ سے جہنم میں اوندھے منہ پڑی ہوگی ۔‘‘( ترمذی)
جیسا کہ دوسری حدیث سے بھی اس کی صراحت ملتی ہے کہ جب آپ اسے پوچھا گیاکہ : عن اکثر ما یدخل الناس فی النار قال الفم والفرج ’’کو نسی چیز لوگوں کو سب سے زیادہ آگ میں داخل کرے گی فرمایا منہ اور شرمگاہ۔‘‘(ترمذی )
ایک اور حدیث میں یو ں ارشادفرمایا : المسلم من مسلم المسلمون من لسانہ ویدہ ’’مسلمان ہوتا ہی وہی ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘(بخاری ) دوسرے مقام پر فرمایاکہ : من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیراً اولیصمت ’’ مومن ہوتا ہی وہی ہے جواپنی زبان سے اچھی بات کہے یا چپ ہوجائے۔ ‘‘ (بخاری ) اور ویسے بھی خاموشی کے بہت زیادہ فوائد ونوافع ہوتے ہیں جیسا کہ بعض حکماء نے بیان فرمایاہے کہ ’’خاموشی بغیر اہتمام والی عبادت ہے، بغیر زیور والی زینت ہے، بغیر بادشاہ کے رعب و دبدبہ ہے ،بغیر دیوار کے قلعہ ہے کر اماً کاتبین کے لیے راحت اور متکلم کے عیبوں کے لیے پردہ پوشی ہے۔‘‘ پھر کیوں نہ ہم بھی ان حکیمانہ مواعظ پر عمل پیرا ہو کر سرخرو ہو سکیں۔
کبھی کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ انسان کی زبان سے ایسا کلمہ نکل جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے اور اس کے لیے ہلاکت و بربادی کا بھی سامان مہیا کرتا ہے ۔ اس کی زندگی کے سارے اعمال صالحہ ختم ہو جاتے ہیں اور وہ بد نصیب ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے ،جیسا کہ ابو داؤد میں مذکور ہے : سیدنا ابو ہریرہ صفرماتے ہیں: ’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ اس شخص نے ایک کلمہ بولا تھا جس کی وجہ سے اس کی دنیا و آخرت تباہ و برباد ہو گئی۔‘‘
ذرا غور فرمائیں کہ اس عابد و زاہد کے سارے اعمال صالحہ ایک کلمہ کی بدولت ضائع ہو گئے اور ہم کتنے ایسے کلمات بول جاتے ہیں۔ نہ کبھی ہم نے غور کیا اور نہ ہی کبھی غور کرنے کا احساس پیدا ہوا۔ امام ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ ’’ زبان میں دو بڑی آفتیں ہیں، ایک کلام کرنے کی آفت اور دوسری سکوت کی آفت۔ اگر انسان ایک آفت سے بچتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے۔ اب وہ شخص جو باطل کے ساتھ کلام کرتا ہے تو یہ بولنے والا شیطان، اللہ کا نافرمان ہے اور جو حق بات سے سکوت اختیار کرتا ہے، حق بات نہیں کہتا تو یہ گونگا شیطان، اللہ کا نافرمان اور ریاکار ہے اور اکثر لوگ ان دونوں قسموں کے شخص سے انحراف کرتے ہیں جبکہ ان کے درمیان ایک تیسری قسم ہے جو اہل الوسط ہیں اور وہی صراطِ مستقیم پر ہیں کیونکہ وہ حق بات کے ساتھ بولتے ہیں اور باطل سے سکوت اختیار کرتے ہیں۔ اور وہ اپنی زبانوں کو اس چیز میں استعمال کرتے ہیں جو چیز ان کو روزِ قیامت نفع دے۔ کیونکہ قیامت والے دن ایسے لوگ بھی آئیں گے جن کے پاس حسنات کے پہاڑ ہوں گے لیکن زبان کے غلط استعمال کی وجہ سے ان کی ساری حسنات ضائع ہو جائیں گی اور ایسے لوگ بھی آئیں گے جن کے پاس سیآت ( برائیوں)کے پہاڑ ہوں گے لیکن زبان کے صحیح استعمال کی وجہ سے ان کی سیئات ختم ہو جائیں گی اور وہ نجات پا جائیں گے۔‘‘ (الجواب الصافی )
محترم قارئین ! اصحابِ رسول ا بھی زبان کے بارے میں بہت فکر مند رہا کرتے تھے ۔ سیدنا ابن بریدۃ ص فرماتے ہیںکہ ’’ میں نے عبد اللہ بن عباس صکو دیکھا کہ آپ نے اپنی زبان کو پکڑ کر ارشاد فرمایا: اے زبان تیرے لیے تباہی و بربادی ہو۔ اچھی بات کیا کر غنیمت میں رہے گی یا بری بات سے رُک جا سلامت رہے گی ورنہ جان لے کہ تو شرمندگی و ندامت اٹھائے گی۔ آپؓ سے کہا گیا آپ یہ الفاظ کیوں کہتے ہیں ؟فرمایا کہ قیامت والے دن انسان کے لیے جسم کے دوسرے اعضاء کے مقابلے میں زبان زیادہ باعثِ ندامت اور ناراضگی کا سبب بنے گی مگر جس نے اس کا صحیح استعمال کیا اور اچھی بات کہی۔‘‘ (جامع العلوم والحکم لا بن رجب ، ص۲۷۱)
سیدنا عقبہ بن عامرص رسول اکرم اسے پوچھتے ہیںکہ اے اللہ کے رسول ا کل روزِ محشر نجات کیسے ہو گی ؟ آپ انے فرمایا کہ ’’اپنی زبان پر قابو رکھو اور اکثر وقت گھر میں رہا کرو اور جب غلطی ہو جائے تو اس پر آہ و بکا کے ذریعے آنکھوں سے چند آنسو بھی بہا لیا کرو! جب یہ تینوں کام کر لو گے تو نجات مل جائے گی۔( ترمذی)
اللہ اکبر، مصلح انسانیت نے کتنے اچھے انداز میں اپنے پیارے صحابی کو نجات کے حصول کا طریقہ و نسخہ بتلا دیا۔ آج ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس نسخے پر عمل پیرا ہو کر دنیا و آخرت کی کامیابیاں حاصل کریں۔ مگر افسوس ہے کہ ہم نے کبھی ارشادات محمدیہ ا و فرموداتِ نبویہ ا کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔ دنیاوی علوم و فنون کی ضخیم کتب ازبر کر لیتے ہیں مگر علم نہیں تو احادیث رسول ا کا۔ اور جب علم نہیں تو عمل کیسے؟
اب آئیے سیدنا عبد اللہ بن مسعودص کی حالت دیکھیں ۔قسم اٹھا کر فرما رہے ہیں: واللہ ماعلی وجہ الارض شی احوج الی سجن من اللسان ’’ اللہ کی قسم زمین کی چھاتی پر زبان کو قابو میں کرنے والی کوئی قید نہیں۔‘‘(جامع العلوم والحکم ص ۲۷۲)
آخر میں اس حدیث کو نقل کرتا ہوں جس میں محسن کائنات ا نے اس شخص کو جنت کی ضمانت دی ہے جو اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے۔ ارشادِ نبوی ا ہے : من یضمن لی ما بین لحییہ و ما بین رجلیہ ضمن لہ الجنۃ۔ (بخاری کتاب الرقاق)
سہل بن سعید ص فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ا کا ارشاد گرامی ہے کہ’’ جو شخص مجھے دو جبڑوں کے درمیان (زبان) اور دو ٹانگوں کے درمیان (شرمگاہ) کی حفاظت کی ضمانت دے گا میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے اور رسول اقدس ا کی اس ضمانت کی پاس داری کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمارا شمار بھی ان خوش نصیب لوگوں میں ہو جائے جو کل روزِ محشر ’’شافع محشر‘‘ کی معیت میں جنت میں جائیں گے۔ آمین