Mufti gulzar Ahmed Naeemi 482

وحدت انسانیت مفتی گلزار احمد نعیمی

وحدت انسانیت
مفتی گلزار احمد نعیمی
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمام انسانوں کو اپنے قدرت سے تخلیق فرمایاہے۔اعلانِ خداوندی ہے خلقتہ پیدی(میں نے اسے اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا)۔چونکہ وہ خود واحد و یکتا ہے تو اس نے نسل انسانی کو بھی ایک ہی طرح سے پیدا فرمایا ہے۔وہ خود ایک ہے تو اس نے فطرت انسانی کو بھی ایک ہی بنایا ہے اور اسکا پیغام بھی انسان کے لیے ایک ہی ہے۔ قرآن مجید جو اس نے اپنے آخری پیغمبر جناب رسالت مآب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وٓلہ وسلم پر نازل فرمایا اس کے اکثر و بیشتر مضامین پہلی کتب سماویہ میں موجود ہیں۔اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا دین ہر زمانے میں ایک ہی رہا ہے۔ اسلام بھی کوئی نیا مذہب نہیں ہے۔ یہ وہی ہے جس کی تبلیغ نوح ؑ ، ابراہیم ؑ ، اسحاق ؑ و اسماعیل ؑ اور موسیٰ ؑ و عیسیٰ ؑ نے کی تھی۔ جب انسانیت نے انبیاء ؑ کی صراط مستقیم کو ترک کر دیا توخدائے بزرگ و برتر نے دین اسلام کا ظہور فرمایا۔ اس لیے یہ کوئی نیا دین یا راستہ نہیں ہے یہ وہ ہی راہ ہے جسے انسانیت چھوڑ چکی تھی۔ پیغمبر اعظمؐ کی آمد کا مقصد کسی نئے دین کی ایجاد نہیں تھا بلکہ انبیاء ؑسابقین کے ادیان کی تجدید یا دوسرے الفاظ میں Re-organize کرنا تھا۔ اللہ سے بھاگے ہوئوں کو دوبارہ اللہ سے جوڑنا تھا۔ بکھرے ہوئے مختلف گلابوں کو اکٹھا کر کے ایک حَسین و جمیل گل دستہ تیار کرنا تھا۔سرکار نے فرمایا میں نے اپنا سب کچھ اپنے رب کے سپرد کر دیا ہے۔ لاشریک لہ وبذالک امرت وانا اول المسلمین(الانعام: ۱۶۲)۔اس سے قبل انبیا ء کرام ؑ نے بھی کچھ اسی قسم کے اعلانات فرمائے۔ آدم ثانی حضرت نوح ؑ نے فرمایا: وامرت ان اکون من المسلمین (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جھکنے والوں سے ہو جائو)۔ جد الانبیاء حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے رب کے سامنے یوں سر تسلیم خم کیا کہ فرمایا: ’’اسلم‘‘کما اسلمت لرب العالمین(البقرہ: ۱۳۱)۔اپنی اولاد کو بھی یہی وصیت فرمائی کہ اللہ سبحانہ نے تمہارے لیے اس دین کو منتخب فرمایا ہے سو فلا تمو تن الا وانتم مسلمون(البقرہ: ۱۳۲)۔حضرت موسیٰ ؑ نے یہودیو ں کو یہی حکم دیا تھا کہ فعلیہ توکلو ان کنتم مسلمین ( تو اس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو تو)(یونس: ۸۴)جب فرعونی جادو گر جناب موسیٰ ؑ پر ایمان لائے تو انہوں نے جو دعا کی اس کو بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ربنا افرغ علینا صبراً وتوفنا مسلمین(اے ہمارے رب ہم پر صبر انڈیل دے اور مسلمین میں ہمارا انجاد فرما)(الاعراف: ۱۲۶) ۔ حسن میں ضرب المثل نبی حضرت یوسف ؑ کی دعا بھی کیا خوبصورت ہے عرض ہے کہ توفنی مسلماً الحقنی با الصا لحین(یوسف: ۱۰۱)(مجھے مسلمانی میں موت عطا فرما اور صالحین سے ملادے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے حواری بھی ایمان لانے کے بعد ہی کہتے ہیں امنا با اللہ و اشھد بانّا مسلمون (آل عمران: ۵۲) ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہو جائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔اس قرآنی تجزیے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سابقین انبیاء ؑو امم سب مسلم تھے اور سب کا دین اسلام تھا۔ اسی لیے وہ سب اپنے آپ کو مسلمان کہہ رہے ہیں ۔ جماعت انبیاء ؑ کے تمام افراد ایک ہی راہ کے مسافر تھے اور وہ خداوندانی،وحدت دین اور وحدت انسانیت کی راہ ہے۔ جس میں کوئی تاویل کی گنجا ئش ہے نہی ہی دلیل کی۔ اس وجہ سے کسی زمانے میں بھی دین میں کوئی اختلاف نہیں رہا ۔ انبیاء ؑ کے بعد جب دین پادریوں ، راہبوں ،پوب، مُلا،مفتی اور قاضیوں کے ہاتھ لگا تو انہوں نے اپنی بے لگام خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے دین میں اختلاف پیدا کیا۔ جس سے انسانیت کی وحدت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔قرآن مجید فرماتا ہے وما کان الناس الامتہ واحدۃ فا ختلفو ا و لولا کلمۃ سبقت من ربک لقضی بینھم فیما فیہ یختلفون(یونس: ۱۹) ۔ اور تمام لوگ امت واحدہ تھے پھر انہوں نے اختلاف کیا اگر اللہ کا حکم پہلے نہ آچکا ہوتا تو وہ ان کے باہمی اختلاف کا ابھی فیصلہ فرما دیتا