tamul e ummat oar nisbat e khata ki bidat 485

تعامل امت اور نسبت خطاء کی بدعت. تحریر: عون محمد سعیدی مصطفوی، بہاول پور

تحریر: عون محمد سعیدی مصطفوی، بہاول پور

تعامل امت اور نسبت خطاء کی بدعت

آج ہم تعامل امت کی بات کریں گے.

(1)اس سے مراد وہ اسلامی عقائد و عبادات اور نظریات و معمولات ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے مبارک ادوار سے لے کر آج تک امت میں معروف چلے آ رہے ہیں۔ مثلاً فرضوں کی رکعتیں، اذان کے کلمات ، قربانی، بوقت ملاقات سلام اور اس کا جواب۔۔
اس تعامل کی دین میں بے حد اہمیت ہے۔

(2)محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی دام ظلہ اپنی کتاب فقہ اسلامی کے سات بنیادی اصول میں صفحہ 198 پہ لکھتے ہیں(صرف متعلقہ عبارت لی گئی ہے):
تعامل کی اعلی قسم توارث بھی ہے……. اس سے مراد وہ امر ہے جو عہد رسالت سے سلفا عن خلف معمول بہ ہوتا چلا آیا ہے۔جیسے عربی زبان میں جمعہ کا خطبہ……وغیرہ۔ یہ ایسے امور ہیں جنہیں ہر قرن کے لوگوں نے اپنے پہلوں سے وراثت میں پایا اور ان پہ عمل پیرا رہے۔

(3)اعلی حضرت علیہ الرحمہ مسئلہ اذان ثانی کی بحث میں ارشاد فرماتے ہیں ( صرف متعلقہ عبارت لی گئی ہے )
انما التوارث التعامل فی جمیع القرون…… یعنی انا اخذنا عمن یلینا ھکذا فعلا و ھم عمن یلیھم کذلک وھکذا الی الصحابۃ رضی اللہ عنھم….. فلایحتاج الی ان ینقل فیہ نص معین….. فھذا معنی التوارث المحتج بہ شرعا مطلقا المستغنی عن ابداء سند خاص۔(شمائم العنبر)
(بے شک توارث تمام زمانوں کے تعامل کو کہتے ہیں…. یعنی ہم نے بات اپنے بزرگوں سے لی، انہوں نے اپنے بزرگوں سے، ایسے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک….. یہ توارث وہ چیز ہے جس کے لیے نصِ معین نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی….. اس سے شرعا مطلقا دلیل پکڑنا درست ہے، اور اس کی سند بھی ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں)

(4)اس سے ثابت ہوا کہ جو بات تعاملا و توارثا نقل ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی ہووہ شرعا حجت ہوتی ہے، اس کے لیے نص معین نقل کرنے یا سند لانے کی بھی حاجت نہیں ہوتی ۔
بدیہی طور پر ایسے اسلامی امور کاحکم یہ ہے کہ وہ جس طرح ہمیں اسلاف سے ملے ہیں ان کو من و عن بغیر کسی تبدیلی کے قبول کیا جائے اور بالکل اسی طرح بغیر کسی تبدیلی کے آگے بڑھایا جائے ۔ان کے سلسلے میں اپنی طرف سے نت نئی بدعتیں ایجاد کر کے اسلام کا بیڑہ غرق نہ کیا جائے ۔
بالخصوص صحابہ کرام اوراہل بیت اطہار کا معاملہ تو انتہائی حساس ہے کیونکہ وہ ہمارے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان ایک ایسا مضبوط پل ہیں جس کی ہر ہر اینٹ کی حفاظت ہمارا عظیم شرعی فریضہ ہے۔
اگر آج خدانخواستہ کسی نے ایک اینٹ گرائی تو کل کوئی دوسری گرا دے گا، پرسوں کوئی تیسری گرا دے گا، یہاں تک کہ یہ سارے کا سارا پل ہی زمیں بوس ہو جائے گا۔پس اس پل کی حفاظت درحقیقت خود اسلام کی اور مقام رسالت کی حفاظت ہے۔

(5)اب آئیے مذکورہ گفتگو کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ کیا سلفا عن خلف متواترا و متوارثا یہ بات امت میں معروف چلی آ رہی ہے کہ سیدۂ کائنات رضی اللہ عنہا کا فدک کو طلب کرنا آپ کی خطاء یا اجتہادی خطاء تھی ؟
اسلاف کی کتب کا شغف رکھنے والے علماء بھی اس حقیقت کی گواہی دیں گے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے نیز عام مسلمانوں کے لیے بھی یہ ایک نئی اور انوکھی بات ہے ۔ طلب فدک کو خطاء یا اجتہادی خطاء کہنا امت میں معروف ہرگز ہرگز نہیں چلا آ رہا۔
پس جب ہماری ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ میں سیدۂ کائنات رضی اللہ عنہا کی طرف طلب فدک کے حوالے سے خطاء کی نسبت معروف نہیں چلی آ رہی تو پھر آج بھی ہمیں آپ کی ذات اقدس کی طرف خطاءکی نسبت کی بدعت سیئہ کا آغاز ہرگز ہرگز قبول نہیں ۔ یہ متوارث اسلام کے ساتھ ایک بہت بڑا ظلم ہے جو قطعا قابل برداشت نہیں۔

(6)جیسا ہم تک آپ کا تعارف بغیر نسبت خطاء کے پہنچا ہے، ہم نے صرف اور صرف اسی کو قبول کرنا ہے اور آنے والی نسلوں تک بھی وہی پہنچانا ہے۔اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر کل کلاں ہر ہر صحابی اور ہر ہر اہل بیت کے لیے اسی طرح کی خطائیں منظر عام پر آنا شروع ہو جائیں گی اور آنے والی نسلوں کو خطاؤں والے صحابہ و اہل بیت کا ایمان کش تعارف پہنچے گا۔ استغفر اللہ العظیم ۔
سب جانتے ہیں کہ صحابہ کرام کے مابین کثیر کثیر علمی معاملات میں باہمی اختلاف آراء کتب میں لکھا چلا آرہا ہے جن میں سے کسی ایک رائے کو لیا جاتا ہے اور دوسری کو نہیں ۔ تو کیا پھر جس صحابی کی رائے کو نہیں لیا گیا اسے ان کی خطاء کہہ کر مشہور کر دیا جائے؟۔ اس طرح کا طرز عمل اسلاف سے بالکل منقول نہیں ہے۔
ہاں! بعض صحابہ کرام کی طرف سلفا عن خلف اجتہادی خطاءکی نسبت معروف چلی آ رہی ہے تو اسے حدود و قیود میں رہ کر اور قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اسی طرح ہی آگے نقل کیا جائے گا کیونکہ وہ ہم تک پہنچی اسی طرح ہے۔

(7)چودہ صدیوں سے اگر کتب اہل سنت میں متداول چلا آ رہا ہوتا کہ طلب فدک سیدہ کائنات کی خطاء یا اجتہادی خطاء تھی تو ہمیں بھی اس کو قبول کرنے میں کوئی کھٹک نہ تھی۔
یہ کیا بات ہوئی کہ آج ہم اپنی طرف سے گھڑ گھڑ کر اپنے بزرگوں کے لیے نت نئی خطائیں یا اجتہادی خطائیں ثابت کرنا شروع کر دیں ۔
ایسی نت نئی خطائیں گھڑنے والے دانش وروں ، اور ان کی ساری نسلوں کو لاکھوں بار خطاء پر کہنا صحابہ کرام و اہل بیت اطہار کے کسی فرد کوصرف ایک مرتبہ گھڑ کر خطاء پر کہنے سے چھوٹا گناہ ہے۔ (بلکہ ثواب ہے)

(8)رہ گئی یہ بات کہ ہزاروں کتابوں میں سے دو چار یا آٹھ دس کتابوں میں اجتہادی خطاء وغیرہ کے صراحتا یا اشارتا حوالے مل جائیں تو وہ تعامل و توارث کے مقابلے میں قطعا کوئی حیثیت نہیں رکھتے ، ایسے شاذ اقوال کو ہرگز ہرگز حجت نہیں بنایا جا سکتا، انہیں مسترد کردیا جائے گا۔
یہ قانون کوئی نیا یا ہمارا تراشا ہوا نہیں ہے بلکہ اصول کی کتب میں واضح طور پر موجود ہے کہ شاذ اقوال قبول نہیں کیے جاتے۔

(9)اب اس پر یہ سوال کرنا کہ جو بزرگ ایسے شاذ اقوال لکھ گئے ان پہ کیا فتوی لگے گا؟ یہ بہت بڑی لا علمی ہے.
ان کے متعلق صرف اتنا کہا جائے گا کہ ان کے اقوال شاذ، مرجوح اور ناقابل قبول ہیں۔
ہاں ! اگر وہ حیات ہوتے یا ان کے اپنے زمانے میں ان کا کوئی شاذ قول علماء و عوام کے درمیان فتنے کی صورت اختیار کرجاتا تو انہیں بھی رجوع و توبہ کی دعوت پیش کی جاتی…. پھر اگر وہ اپنے قول سے رجوع و توبہ کی بجائے ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لیتے تو علمائے اہل سنت ان کا بھی سخت محاسبہ کرتے ۔

اور محاسبے کا یہ طریقہ بھی کوئی نیا نہیں بلکہ صحابہ کرام کے مبارک دور سے چلا آ رہا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو ایک شاذ قول پہ اصرار کرنے پرمدینہ منورہ سے ربذہ منتقل فرما دیا تھا۔

(10)آج جوپاک و ہند کے جمہور جید اورمستند علماء اہل سنت سیدہ کائنات کی طرف خطاء منسوب کر کے اس پر ضد کرنے والے اہل خطاء کی تحقیقات کو بالاتفاق اٹھا اٹھا کر دیواروں پہ مار رہے ہیں اور زمین پہ پٹخنیاں دے رہے ہیں تو یہ ان کا تعصب، جہالت یا حماقت ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اسلام کے متوارث و متواتر نظریات کے تحفظ کی خاطر اپنا خوش گوار اجتماعی فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ہر دور میں علمائے اسلام اسی طرح فتنوں کی سرکوبی کرتے چلے آئے ہیں۔

(11)جب جمہور علمائے اہل سنت ایسے فتنوں کی سرکوبی کرتے ہیں تو اکثر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ متعلقہ فتنے کا بانی اور اس کے پیروکار اپنے غلط موقف پہ ڈٹ کرایک نئے فرقے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔
آج تک جتنے بھی فرقے وجود میں آئے، اسی طور پر آئے. مثلاً مشہور گمراہ واصل بن عطا نے مرتکب کبیرہ کے حکم کے حوالے سے جمہور سے انحراف کیا تو ایک نیا فرقہ معتزلہ وجود میں آ گیا۔
اسی طرح دیابنہ نے گستاخانہ عبارات پر جمہور کے موقف سے ہٹ کر اصرار کیا تو وہ ایک نیا فرقہ قرار پائے۔
بالکل اسی طرح آج جو لوگ جمہور کے موقف سے ہٹ کر سیدۂ کائنات رضی اللہ عنہا کو خطاء پر کہنے پہ اصرار کر رہے ہیں خدشہ ہے کہ یہ بھی فرقہ خطائیہ بن جائیں گے……. جبکہ جمہور اہل سنت میں سیدۂ کائنات کا تعارف طہارت و نزاہت والا ہی چلے گا ان شاء اللہ العزیز ۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :
آب تطہیر سے جس میں پودے جمے
اس ریاض نجابت پہ لاکھوں سلام

(12)حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا اور جو لوگ بعد میں اس پر عمل کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہوگا، جبکہ عمل کرنے والوں کے اپنے وبال میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی ۔
یہ حدیث پاک واضح طور پر بتا رہی ہے کہ جن لوگوں نے سیدۂ کائنات کے حوالے سے چلی آنے والی سنت متواترہ و متوارثہ کے برعکس آپ کو خطاء پر کہا، اس کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور شب و روز اس کے لولے لنگڑے حوالے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پھیلائے…. اس سب کا وبال اس فتنے کے بانی کے سر جائے گا، جبکہ ڈھونڈنے، پھیلانے اور دفاع کرنے والوں کو اپنا سخت گناہ علیحدہ سے ہوگا۔

(13)جس طرح تعامل و توارث ایک مضبوط شرعی حجت ہے ، بالکل اسی طرح عرف و عادت کوبھی شریعت میں حجت مانا گیا ہے ۔
اگر خدانخواستہ آج کوئی شخص مجمع لگا کر دوران خطاب یہ جملے بولے کہ ’’اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ خطاء پر تھے، جب وہ فلاں مسئلہ لکھ رہے تھے تو خطاء پر تھے‘‘(نعوذ باللہ)۔ تو اس ناپاک جملے پر اہل سنت میں یقیناً بہت زیادہ تشویش پیدا ہو گی اور بالکل بجا ہو گی۔
اس پر یہ عذر کوئی بھی قبول کرنے پہ تیار نہ ہوگا کہ متکلم بعد میں بڑی تسلی سے کہہ دے کہ میری مراد تو اجتہادی خطاء تھی، نیز بھلے وہ اس ناپاک جملے سے پہلے بھی اعلی حضرت کی خوب تعریف کرے اور بعد میں بھی، اس کی کوئی حیثیت نہ ہو گی.
اس کے اس جملے کی بہرحال گرفت کی جائے گی۔ اور اگر ساری دنیا کے سمجھانے کے باوجود وہ اس پر ڈٹ گیا تو اسے مزید برا جانا جائے گا اور اس سے براءت اختیار کی جائے گی۔

(14)اسی طرح اگر خدانخواستہ کوئی شخص مجمع لگا کر دوران خطاب متعین طور پر اہل سنت کے کسی بڑے پیر کا نام یوں کہے کہ ’’شیخ طریقت حضرت فلاں—————دامت برکاتھم العالیہ خطاء پر تھے ، جب وہ فلاں مسئلہ بیان کر رہے تھے تو خطاء پر تھے‘‘ (نعوذ باللہ)تو اس پر بھی بجا طور پر ان کے مریدین میں شدیدترین تشویش پیدا ہو گی اور ہر بندہ یہی کہے گا کہ بے شک مقرر کی بات فی نفسہ درست بھی ہو لیکن اس طرح مجمع لگا کر علی رؤوس الاشہاد اس کا یہ طرز کلام آداب کے بالکل منافی ہے ۔ نیز بھلے وہ اس ناپاک جملے سے پہلے بھی ان کی خوب تعریف کرے اور بعد میں بھی۔
پھر بھی اس کے اس جملے کی بہرحال گرفت کی جائے گی۔اور اگر ساری دنیا کے سمجھانے کے باوجود وہ اس پر ڈٹ جائے تو اسے مزید برا جانا جائے گا اور اس سے براءت اختیار کی جائے گی۔

(15)یہ تو ہمارے آج کے بزرگ ہیں کہ ان کے حوالے سے بھی ہمارا عرف ایسی بے باکیوں کو قبول نہیں کرتا، تو پھر بنتِ فخرِ موجودات ، سیدہ کائنات، زوجہ مولائے کائنات، ام الحسنین و الائمۃ و الاغواث و السادات ، ملکہ کونین و نساء جنات حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے بارے میں اس طرح مجمع لگا کر کھلی بے باکی سے بولنا اور پھر اس پر ڈٹ جانا امت کو کیسے گوارا ہو سکتا ہے، جبکہ عرف و عادت کے ساتھ ساتھ تعامل و توارث بھی اس کو درست نہیں جانتے۔

(16) ہم نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ جب ان خطاء والوں کے مولانا خاطی کو کوئی خطاء پر کہے تو اس پر انہیں غصہ آجاتا ہے لیکن دوسری طرف اگر انہیں کھینچ تان کر سیدۂ کائنات کو خطاء پر کہنے کا کوئی لولا لنگڑا حوالہ مل جائے تو یہ اس پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے ۔۔

لیکن الحمد للہ !ہمارا معاملہ ان کے بالکل برعکس ہے ، ہمیں تو سیدۂ کائنات کو خطاء پر کہنے سے سخت ترین کوفت ہوتی ہے اور لولے لنگڑے حوالوں کو دیکھ کر شدیدترین صدمہ ہوتا ہے ۔

بہرحال ہم اللہ تعالیٰ کی اس تقسیم پر راضی ہیں کہ ہم توشب و روز سیدۂ کائنات کو خطاء سے پاک ثابت کرنے میں مصروف عمل ہیں جبکہ اہل خطاء خطاء پر ثابت کرنے میں۔

دونوں کی ہے پرواز اسی ایک جہاں میں
کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہیں کا جہاں اور