tehreer oan muhammad saeei 952

سیدہ کائنات کی طرف نسبت خطاء، تعلیمات اعلی حضرت کی روشنی میں.

سیدہ کائنات کی طرف نسبت خطاء، تعلیمات اعلی حضرت کی روشنی میں
تحریر : ادنی گدائے کوچہ اہل بیت عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور
* ہم اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ الدین کلہ ادب..
یاد رہے کہ عقیدہ عصمت دین کا ایک اہم حصہ ہے لیکن ادب تو سارے کا سارا دین ہے.

* صحابہ کرام ہوں یا اہل بیت اطہار ان کی طرف مطلق خطاء کی نسبت کرنا قطعا حرام اور ناجائز ہے، اور اگر کہیں کوئی شرعی مسئلہ سمجھانا مقصود ہو تو خطا کے ساتھ اجتہادی کا لفظ لگانا ضروری ہے. تفسیر قرطبی میں ہے
لا یجوز ان ینسب الی أحد من الصحابۃ خطأ مقطوع بہ اذ کانوا کلھم اجتھدوا فیما فعلوہ وارادوا اللّٰہ عزوجل و ھم کلھم لنا ائمۃ و قد تعبدنا بالکف عما شجر بینھم ولا نذکرھم الا باحسن الذکر
(تفسیر قرطبی، ج:16، ص:322)
یعنی صحابہ کرام و اہل بیت اطہار کی طرف مطلق خطا کی نسبت کرنا حرام ہے……)

* اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنھم کے باہم جو واقعات ہوئے، ان میں پڑنا حرام، حرام، سخت حرام ہے، مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں۔(فتاوی رضویہ)
مشاجرات میں پڑنے کی ممانعت سے مراد یہ ہے کہ بندہ ان میں خطاء و صواب کے فیصلے کرنے نہ بیٹھ جائے

* مزید فرماتے ہیں
صحابہ کر ام رضی اﷲ تعالیٰ عنھم، انبیاء نہ تھے، فرشتہ نہ تھے کہ معصوم ہوں۔ ان میں بعض کے لیے لغزشیں ہوئیں، مگر ان کی کسی بات پر گرفت اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے خلاف ہے۔( فتاوی رضویہ)
ممانعت گرفت سے مراد یہ ہے کہ ہمیں ہرگز اجازت نہیں کہ ہم بیٹھ کر ان کی خطا و صواب کے فیصلے کریں

* اعلی حضرت تو سادات کرام کا اتنا احترام کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے.
آپ فرماتے ہیں :
یہ فقیر ذلیل بحمدہ تعالیٰ حضرات سادات کرام کا ادنی غلام و خاک پا ہے، ان کی محبت ذریعہ نجات وشفاعت جانتا ہے ،اپنی کتابوں میں چھاپ چکا ہے کہ سید اگر بدمذہب بھی ہو جائے اس کی تعظیم نہیں جاتی ،جب تک بدمذہبی حد کفر تک نہ پہونچے(فتاویٰ رضویہ)
جب اعلی حضرت آج سادات کے احترام کی خاطر اپنی ذات کے لیے ذلیل تک کا انتہائی عاجزانہ لفظ استعمال فرما رہے ہیں تو پھر ام السادات رضی اللہ عنہا کا آپ کے دل میں کتنا احترام ہو گا.. آپ کی ان تعلیمات کی روشنی میں خود سوچیں کہ جب ام السادات کا ذکر پاک ہو تو خود اپنے لیے ذلیل سے بھی بڑھ کر لفظ استعمال کرنا چاہیے یا ام السادات رضی اللہ عنہا کی طرف خطا کی نسبت کر کے اور پھر اس پہ ڈٹ کر اپنی دنیا و آخرت برباد کرنی چاہیے؟
* مزید اعلی حضرت فرماتے ہیں
سادات کرام کی تعظیم فرض ہے‘‘(،فتاویٰ رضویہ)
ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں
’’سنی سید کی بے توقیری سخت حرام ہے اور اس میں شک نہیں کہ جو سید کی تحقیر بوجہ سیادت کرے وہ مطلقاً کافر ہے(فتاوی رضویہ)
اعلی حضرت کا مذکورہ انداز بھی دیکھیں اور پھر آج کل کے لوگوں کا بڑی تاکید کے ساتھ زوووووور دے کر ام السادات کا نام کہنا کہ
خطا پر تھیں خطا پر تھیں
کیا یہی تعلیم اعلی حضرت ہے؟

* اعلی حضرت علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
بارگاہِ اقدس ﷺ کے یہ پھول صحیفے کے پاروں کی طرح ہمارے لیے متبرک اور عقیدت کا مرکز ہیں.
پھر آپ آیۂ تطہیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ان کی نُمُو آبِ تطہیر سے ہوئی ہے‘ اہلِ بیت نبوت کا سارا باغ ہی شرافت کے پھولوں سے آباد ہے (فتاوی رضویہ)
یہ ہے اعلی حضرت علیہ الرحمہ کا انداز کہ آپ اہل بیت کی پاکیزگی اور طہارت میں کمال درجے کی بلاغت کا اظہار فرماتے ہیں لیکن آج کل کے لوگ مجمع لگا کر منبر پہ بیٹھ کر گلے کا مکمّل زوووووور لگا کر اس سارے باغ کی اصل کو
خطا پر تھیں خطا پر تھیں
کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو مسئلہ سمجھا رہے تھے. کیا اعلی حضرت نے بھی کبھی اس انداز میں ام السادات کے متعلق مسائل سمجھانے؟

* حدائق بخشش میں اعلی حضرت اہل بیت کی شان یوں بیان کرتے ہیں
پارہ ہائے صُحُف‘ غنچہ ہائے قدس
اہلِ بیتِ نبوت پہ لاکھوں سلام
آبِ تطہیر سے جس میں پودے جمے
اُس ریاضِ نجابت پہ لاکھوں سلام
خونِ خیرُالرُّسل سے ہے جن کا خمیر
اُن کی بے لوث طینت پہ لاکھوں سلام
اُس بتولِ جگر پارۂ مصطفی
حجلہ آرائے عِفّت پہ لاکھوں سلام
جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے
اُس رِدائے نَزاہت پہ لاکھوں سلام
سیّدہ زاہرہ طیّبہ طاہرہ
جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
قصیدہ نور میں آپ فرماتے ہیں
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
دیکھیں کیا کمال انداز ادب ہے اعلی حضرت علیہ الرحمہ کا..
آج اگر آپ حیات ہوتے تو کیا بنت نبی ، زوجہ علی، ام حسنین ، سیدہ کائنات ،ملکہ کونین، خاتون جنت ام السادات کا نام لے کر اسی طرز پہ مسئلے سمجھاتے جیسے آج کل کے لوگ سمجھا رہے ہیں؟ ..
آپ اگر مسئلہ سمجھاتے تو پہلے منبر سے نیچے اترتے، گھٹنوں کے بل کھڑے ہو جاتے، اوپر موجود جملہ ادب کے کلمات بولتے، اپنی ذات کے لیے زبردست عاجزی کے الفاظ استعمال فرماتے، پھر سر جھکا کر آنکھوں میں آنسوؤں کی لڑیاں لا کر ایسے عظیم ترین الفاظ کا چناؤ کرتے کہ جنت کے چشموں کی طہارت بھی ان پہ قربان ہو جاتی