350

چینی اسیکنڈل اور نئے انتخابات

شوگر سے میرا پہلا تعارف ابن صفی کے ناول ’’شوگر بینک‘‘ سے ہوا تھا۔ دوسرا تعارف نورپور تھل کی ایک شعری نشست میں ہوا۔ نشست کی صدارت ایک بزرگ سرائیکی شاعر نے کی تھی جو اونچا سنتے تھے۔

جب ایک شاعر نے دوہڑا پڑھا جس میں ’’سوگر‘‘ تھا (سوگر سرائیکی میں سانپ کو کہتے ہیں) صدرِ محفل نے اسے وہیں روک دیا اور کہا ’’یہ جو شوگر ہے نا یہ واقعی بہت برا مرض ہے، ایک عرصہ سے مجھے لاحق ہے۔ ہمارے یہاں شوگر کی اٹھاسی کے قریب ملیں ہیں۔

تقریباً آدھی سیاستدانوں کی ہیں۔ ہارون اختر اور ہمایوں اختر کی دو ملیں ہیں، زرداری اور شریف فیملی بھی اسی کاروبار میں ہیں۔ چوہدری برادران بھی مل مالکان ہیں، عباس سرفراز، ذکاء اشرف، نصراللہ دریشک، انور چیمہ، حماد اظہر، خسرو بختیار، مخدوم احمد محمود، چوہدری منیر، جہانگیر ترین، مل مالکان کی ایک لمبی فہرست ہے مگر صرف چھ مالکان کی ملوں کی چھان بین کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق ان چھ مالکان کو گزشتہ حکومتوں نے 29ارب روپے سبسڈی کے طور پر دیے۔ باقی مل والوں کو بھی یقیناً کچھ نہ کچھ ملا ہو گا۔ چھوڑئیے اچھے لوگوں کی بدخوئیاں کیا کرنیں۔ پھر رپورٹ نے غلط سبسڈی دینے کی اجازت دینے والی بیورو کریسی کا بھی رپورٹ میں ذکر نہیں کیا۔

کیا کریں آخر ’’پیٹی بھائیوں‘‘ کا خیال تو رکھنا پڑتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ وفاقی سیکریٹریز کی مرضی کے بغیر کسی کو ایک روپیہ بھی نہیں مل سکتا۔ پھر جن لوگوں نے دس لاکھ ٹن چینی برآمد کی، ان کا ذکر بھی رپورٹ میں نہیں ہے۔

ابھی اہلِ حکومت کو شوگر مافیا کی طاقت کا درست اندازہ نہیں۔ کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ چینی اسکینڈل نئے انتخابات پر بھی منتج ہو سکتا ہے مگر میرا خیال لوگوں سے بالکل مختلف ہے۔

میرے نزدیک اس ساری کارروائی کا بس ایک مقصد ہے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان اتنا فاصلہ پیدا ہو جائے کہ وہ دوبارہ ایک نہ ہو سکیں۔

جہانگیر ترین عمران خان کے بہت قیمتی دوست بھی ہیں اور سپاہی بھی۔ میں انہیں ان دنوں سے جانتا ہوں جب ان کا اپنا ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا۔ شہزاد سلیم اور رانا اکمل کی وجہ اس چینل سے میرا خاصا رابطہ تھا۔

رؤف کلاسرا بھی وہیں پروگرام کرتے تھے، عامر متین بھی وہیں ہوتے تھے، طلعت حسین اس کے ساتھ منسلک رہے، اسحاق خاکوانی اور پی ٹی آئی کے کئی دوسرے لوگ مسلسل وہاں پروگرام کرتے تھے۔

اس چینل پر کسی کو اجازت نہیں تھی کہ وہ پی ٹی آئی کے خلاف کوئی بات کر سکے۔ حتیٰ کہ رئوف کلاسرا نے بھی عمران خان کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی تھی۔

ایک دن عمران خان کی پریس کانفرنس میں اُس چینل سے نکالے گئے ایک صحافی نے بدتمیزی کی تو عمران خان کی محبت میں جہانگیر ترین نے چینل ہی بند کر دیا لیکن میڈیا کا ایک اپنا سیٹ اَپ برقرار رکھا، خاص طور پر سوشل میڈیا کا۔

سوشل میڈیا کا وہ سیل اس وقت بھی عمران خان کے کار ہائے نمایاں کی توصیف و تعریف میں بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ اتنا کچھ ہوجانے کے باوجود جہانگیر ترین کی عمران خان سے محبت میں عملی طور پر ابھی تک کوئی کمی نہیں آئی۔

گزشتہ روز اِسی موضوع پر میانوالی کے ایک گائمن سچیارسے ایک چھوٹا سے مکالمہ ہوا۔ درج کرتا ہوں۔ میں نے کہا ’’پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں کوجہانگیر ترین کا دکھ اتنا بھی نہیں جتنا بچے کو کھلونے کے ٹوٹ جانے کا ہوتا ہے، (دُرفٹےمنہ) مگر پی ٹی آئی میں کچھ سمجھدار لوگ بھی ہیں، جیسے اسد عمر کے کہنے پر پرویز خٹک جہانگیر ترین ملے اور کپتان کے ساتھ ملاقات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔

یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ ٹوٹے ہوئے شیشے جڑ تو جاتے ہیں مگر ان میں لکیریں کھنچ جاتی ہیں، مس انڈر اسٹینڈنگ نے معاملہ کہاں تک پہنچا دیا ہے‘‘۔ سیاست کے سچیار نے حیرت سے پوچھا ’’یہ مس انڈر اسٹینڈنگ کون ہے‘‘۔ میں نے بڑی سنجیدگی سے کہا ’’یہ مس کال اور مس پرنٹ کی بہن ہے‘‘۔

وہ پھر بولا ’’یہ دونوں کون خواتین ہیں‘‘۔ میں نے اسی انداز سے کہا ’’حیرت ہے آپ انہیں نہیں جانتے۔ اس خاندان میں ’مس کنسیپٹ‘، ’مس فٹ‘ اور ’مس مینجمنٹ‘ کو بڑی شہرت حاصل ہوئی‘‘۔

وہ بولا، ’’یہ عورتیں چاہے جو بھی ہیں، مردوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ عورتوں کی وجہ سے آپس میں لڑ پڑیں۔ دوستوں کی بیویوں کی آپس میں لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں مگر معاملہ اس سطح تک نہیں پہنچنا چاہئے‘‘۔

جہانگیر ترین اور عمران خان زیادہ دیر ایک دوسرے سے دور نہیں رہ سکتے۔ کپتان کو دکھ ہے کہ جہانگیر ترین نے پہلے کیوں نہیں بتایا تھا کہ قومی خزانے میں ایک سبسڈی کی چھلنی بھی لگی ہوئی ہے جو امیر کو امیر تر بناتی ہے۔

جہانگیر ترین کو دکھ ہے کہ اس نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو ماضی میں نہ ہوتا ہو یا جو باقی شوگر ملز والے نہ کرتے ہوں۔ بہرحال ان شاء اللہ دوستوں کی کوششیں بارآور ہوں گی۔

یہ پروپیگنڈا بھی جاری ہے کہ عید کے بعد جہانگیر ترین پی ٹی آئی چھوڑ جائیں گے۔ وہ اپنی جیب میں 25ایم این ایز لے کر پھرتے ہیں۔ یہ سب بالکل غلط باتیں ہیں۔ ایسی کوئی بات نہ تو جہانگیر ترین نے کی ہے اور نہ کرنے کا ارادہ ہے۔

اُن سے صرف ایک غلطی ہوئی کہ اس کشیدگی کے دنوں وہ ایک دو بار چوہدری پرویز الٰہی سے ملے مگر ان ملاقاتوں کا موضوع ’’عمران خان کی ناراضی‘‘ نہیں تھا۔ وہ شہباز شریف کا معاملہ تھا مگر چوہدری برادران بڑے ذہین لوگ ہیں۔

انہوں نے اس معاملے کو کچھ ایسا رنگ دیا کہ دیکھنے والے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ جہانگیر ترین چوہدری برادران سے مل کر عمران خان کی حکومت کے خلاف کوئی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ بہرحال پھر وہی میرا خیال کہ جہانگیر ترین اور عمران خان اتنی آسانی کے ساتھ اپنے دلوں سے ایک دوسرے کی محبت نہیں نکال سکتے۔