Sheikh Abdul Qadir Jilani 553

حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ.Sheikh Abdul Qadir Jilani

Hazrat Ghaus-ul-Azam
Sheikh Abdul Qadir Jilani (R.A)

حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ

تعارف:
حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سلسلہ قادریہ کے بانی اور اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اولیاء اللہ ہیں۔ انہوں نے بے شمارمسلمانوں کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی لوگوں کو علم تصوف اور توحید سے متعارف کروایا۔ وہ پیر طریقت اوراخلاق نبویﷺ کا کامل نمونہ تھے۔ باوجود رفعت اور وسعت علم کے وہ ہمیشہ ضعیفوں کے ساتھ بیٹھتے اور فقراء اور مساکین کے ساتھ تواضع و تکریم سے پیش آتے۔ وہ امیرو غریب سب پر شفقت فرماتے اور سب کے ساتھ نہایت شگفتہ روئی اور دلجوئی سے پیش آتے تھے۔
کنیت اور لقب:
ان کا نام عبدالقادر، کنیت سامی ابو محمد، لقب محبوبِ سبحانی، غوث الاعظم الثقلین ہے۔ ان کے والدکا نام سید ابو صالح نورالدین موسیٰ جنگ دوست ہے۔ ان کی ولادت جیلان (موجودہ ایران کا ایک صوبہ )کے علاقے نیق بلاد میں18 مارچ 1078 میں ہوئی۔ نیق بلاد طبرستان کے قریب ایک چھوٹے سے علاقے کا نا م ہے۔یہ چند شہروں اور بستیوں پر مشتمل ہے۔ اس کو عربی میں جیل اور بکاف، فارسی میں گیل کہتے ہیں۔ اسی نسبت سے آپ کو جیلانی کہا جاتا ہے۔
ابتدائی تعلیم:
حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی نے ابتدائی تعلیم جیلان میں حاصل کی اور قرآنِ مجید بھی یہیں سے حفظ کیا۔ 18 سال کی عمر میں وہ تحصیل علم کے لئے بغداد چلے گئے۔جہاں انہوں نے حنبلی مکتبہ فکر کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے قرآن پاک کی تفیسر اور درس حدیث اپنے وقت کے جید علماء ابو سعید عثمانی، ابن عاقل، ابو جعفر سراج سے حاصل کی۔ ان کے صوفی استاد کا نام ابو الاخیر عماد تھا جن سے آپ نے تزکیہ نفس اور روحانیت کی تعلیم حاصل کی۔ وہ تحصیل علم کے بعد دنیاوی اور دینوی دونوں لحاظ سے اعلیٰ پائے کی ہستی بن گئے۔ وہ1103 میں فارغ التحصیل ہوئے۔ ان کودرج ذیل مختلف علوم پر کامل دسترس حاصل تھی:
۱۔علمِ تفسیر ۲۔علمِ قراء ت ۳۔علمِ حدیث ۴۔علمِ فقہ ۵۔علمِ کلام ۶۔علمِ تاریخ
۷۔علمِ لغت ۸۔صرف و نحو ۹۔ادب ۱۰۔علمِ عروض ۱۱۔علمِ مناظرہ وغیرہ
ذاتی زندگی :
حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی نے چار شادیاں کیں ان کی بیویوں کے نام یہ ہیں:
۱۔ سیدہ بی بی مدینہ بنت سید میر محمد
۲۔ سیدہ بی بی صادقہ بنت سید محمد شفیع
۳۔ سیدہ بی بی مومنہ
۴۔ بی بی صادقہ
ان کے کل انچاس(49 (بچے پیدا ہوئے جن میں سے بیس بیٹے اور انتیس بیٹیاں تھیں۔ ان کے بچوں نے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لاکھوں لوگوں کو راہ راست پر لایا اور ان میں سے دس نے ہندوستان کیطرف ہجرت کی۔ آج سلسلہ قادریہ غوثیہ کے بہت سے پیروکار ان کی اولاد کی تبلیغ کی وجہ سے ہیں۔
عبادت و ریاضت:
شاہ عبدلقادر جیلانیؒ نے تعلیم کے حصول کے بعد دنیاوی جاہ وجلال اور دولت کو خیر باد کہہ دیا۔ وہ روحانی تطہیر اور تزکیہ نفس کے قائل تھے۔ان کا ایمان تھا کہ جب انسان اللہ جل شانہ‘ کے ذکر میں ڈوب جاتا ہے تو پھر ہر منزل خود بخود طے ہو جاتی اور انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جسے فنافی اللہ کہتے ہیں۔ وہ چاہتے تو بادشاہوں کے محلات میں کوئی مرتبہ پا کر اپنی زندگی عیش و نشاط میں گزارتے لیکن انہوں نے ایسا ہر گز نہ کیا۔انہوں نے 5 سال تک صحرائے عراق کی سیاحت کی اور دو ر دورتک تنہا چلتے رہے۔ اس کے بعد 11 سال برج قلعہ بغداد میں ریاضت و عبادت میں مشغول رہے، جو ان کے قیام کی وجہ سے برجِ عجمی کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے حضرت شیخ ابو سعید مبارک نخرومی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ انہوں نے آپ کو خرقۂ ولایت و خلافت عطا کیا۔ انہوں نے اپنے والد بزگوار، شیخ ابو الخیر حمادبن مسلم بغدادی، شیخ ابو یعقوب بن ایوب ہمدانی اور تاج العارفین ابو الوف اویسی اور حضرت شیخ احمد اسود نیوری کو صحبت سے بھی فیض حاصل کیا۔ انہوں نے بڑی کثرت سے عبادتیں کیں۔اس کے ساتھ ساتھ طالب علموں کو دینی تعلیم بھی دی اور طالبانِ حق کی روحانی تربیت بھی کی۔ مختلف شہروں اور ملکوں سے لوگ دینی و دنیاوی مسائل آپ کے پاس لے کر آتے تھے۔ ہر ملک اور علاقہ کے لوگ فیض حاصل کرنے کی لئے ان کے پاس جمع ہوگئے اور انہوں نے ان کی تعلیم و تربیت کی۔ کچھ ہی عرصہ میں فضلاء ، صلحاء اور صوفیاء کی ایک بڑی جماعت تیار ہوگئی۔ یہ جماعت ان سے فیض یاب ہونے کے بعد تمام علاقوں اور ملکوں میں پھیل گئی۔ انہوں نے اسلام کی شریعت کے سلسلہ میں اہم خدمات سر انجام دیں ۔ لوگوں کی کثیر تعداد نے ان سے علم و عرفان حاصل کیا۔
وہ پر اثر اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے اور ان کی بات میں بڑی تاثیر تھی۔ ان کا وعظ سننے کے لئے لوگ دور دراز علاقوں سے بہت بڑی تعداد میں آتے تھے۔ وعظ سننے کے دوران لو گ وجد میں آ کر بے خود ہوجاتے تھے۔ ہفتہ میں تین بار وہ وعظ فرماتے تھے۔ جمعہ کی صبح، شنبہ کی شام اور ایک شنبہ کی صبح کو اپنے مدرسہ اور خانقاہ میں وعظ فرماتے تھے۔ان کی زبان سے کسی کے لئے کبھی کلمہ بد کبھی نہیں نکلا، اپنے نفس کے لئے کبھی کسی پر غصہ نہ کیا۔ مگر جب کوئی محارمِ الٰہی کی بے حرمتی کرتا تو آپ سختی سے گرفت کرتے۔آپ کو اہلِ علم اور طالبانِ حق و اہلِ مجاہدہ و مراقبہ سے نہایت انسیت تھی۔ جب کوئی آپ کے سلسلہ میں داخل ہوتا تو اس کو شجرۂ طیبہ اپنے ہاتھ سے لکھ کر عنایت کرتے۔ آپ نہ کبھی کسی امیر، وزیر یا حکمرن کے در پرگئے اور نہ کبھی کسی اہلِ اقتدار اور اہلِ دولت کی تعظیم کی۔
جب امراء سے گفتتگو کرتے تو تو ان کی بات میں کچھ سختی اور نصیحت اورتحکم ہوتا۔آپ اگر خلیفہ کو کچھ لکھتے تو اس طرح تحریر فرماتے: ’’عبدالقادر تم سے یوں کہتا ہے اور اس کا فرمان تجھ پر نافذ اور تیرے لئے فائدہ مند ہے اور وہ تیرا پیشوا اور تجھ پر حجت ہے‘‘۔خلیفہ ان کی تحریر کو دیکھتا تو چومتا اور آنکھوں کو لگاتا۔انکے پاس جو بھی سائل آتا ،مراد حاصل کرکے جاتا۔ کسی سائل کے سوال کو آپ نے کبھی رد نہیں کیا۔
ہزاروں دینار روزانہ ان کے پاس آتے اور شام تک خرچ ہوجاتے تھے۔ کئی مہمان روزانہ ان کے دستر خوان پر کھاتے تھے۔ وہ نذرانہ قبول کرتے تھے اور فتوح کو رد نہیں کرنے تھے۔ تاہم جو کچھ آتا لے کر حاضرین میں تقسیم فرمادیتے تھے۔
تصانیف :
انہوں نے کئی اہم کتابیں بھی تصنیف کیں جن کے نام درج ذیل ہیں:
۱۔ غنیہ الطالبین
۲۔ فتوح الغیب
۳۔ الفتح الربانی وا لفیض الرحمانی
۴۔ مکتوباتِ غوثیہ
۵۔ دیوانِ مح الدین
۶۔ قصیدہ خمریہ محبوبیہ
۷۔ قصیدہ قطبیہ
۸۔ قصیدہ طالبیہ
۹۔ جلاالخواطرفی الباطن و ا لظاہر
۱۰۔ یواقیت الحکم
۱۱۔ درودِ کبریت احمد
۱۲۔ درودِ اکسیر اعظم
۱۳۔ دعائے فتح البصائر
۱۴۔ اسبوع شریف
۱۵۔ چہل کاف
۱۶۔ اسمائے سبعد
ان کی تعلیمات:
انہوں نے اپنے پیروکارں اور مریدوں کو توحید، شریعت کی پابندی اور اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ فتوح الغیب کی ایک مجلس میں آپ نے توحید خالص اور ماسوائے اللہ سے قطع تعلق کرنے کی تعلیم اس طرح دی ہے: ’’ اُس پر نظر رکھو جو تم پر نظر رکھتا ہے، اس کے سامنے رہوجو تمہارے سامنے رہتا ہے، اس سے محبت کرو جو تم سے محبت کرتا ہے، اس کی بات مانو ،جو تم کو بلاتا ہے، اپنا ہاتھ اسے دو جو تم کو گرنے سے سنبھال لے گا اور تم کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال لے گا اور ہلاکتوں سے بچائے گا‘‘۔فتح الربانی کی ایک مجلس میں فرمایا: ’’ساری مخلوق عاجز ہے ، نہ کوئی مجھے نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، بس حق تعالیٰ ان کے ہاتھوں کرادیتا ہے۔ اس کا فعل تیرے اندر اور مخلوق کے تصرف فرماتا ہے۔ جو کچھ تیرے لئے مفید یا مضر ہے، اس کے متعلق اللہ کے علم میں قلم چل چکا ہے۔ اس کے خلاف نہیں ہوسکتا۔’’فتوح الغیب ‘‘ میں مومن کو آپ سمجھارہے ہیں: ’’ہر مومن کے لئے ہر حال میں یہ تین چیزیں لازمی ہیں۔ ایک یہ کہ حکمِ الٰہی کی تعمیل کرے، دوسرے یہ کہ ممنوع سے بچتا رہے۔ تیسرے یہ کہ قضائے الٰہی پر راضی رہے۔ پس مومن کے لئے کم از کم ان تینوں چیزوں پر عمل کر نا لاز م ہے‘‘۔
’’پیروی (سنت) کرتے رہو اور راہِ بدعت اختیار نہ کرو، اطاعت کرو اور دائرۂ اطاعت سے باہر نہ نکلو۔ توحیدِ خداوندی کو مانو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اپنی مشیت سے کرتا ہے۔ اس کو ہر عیب سے پاک سمجھو‘‘۔
’’فتوح الغیب ‘‘ میں انہوں نے اپنے فرزند کو دستور العمل بتائے ہیں، جس سے انسان عارف کامل بن سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے فرزند کو شریعت کی پابندی اور ضبطِ نفس اور مجاہدوں اور ادائے حقوق العباد کی تلقین کی ہے۔ فرمایا: ’’میں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ور اطاعت اختیار کرو اور احکامِ شریعت کی پابندی لازم رکھو اور سینہ کو (خباثتِ نفس)سے پاک رکھو اور نفس میں جوانمردی رکھو اور کشادہ رو رہو، جو چیزعطا کرنے کے قابل ہو اسے عطا کرتے رہو اور ایذا دینے سے باز رہو اور برابر والوں سے حسنِ معاشرت رکھو اور نصیحت کرتے رہو ور اپنے رفیقوں سے جنگ نہ کرو اور ایثار کرنا اپنے اوپر لازم کرلو اور ذخیرہ مال فراہم کرنے سے بچو‘‘۔
تصوف کی حقیقت:
تصوف کی وضاحت کرنے ہوئے آپ نے فتوح الغیب میں لکھا ہے: ’’تصوف سات خصلتوں پر مبنی ہے:۔
۱۔ سخاوت ابراہیم پر
۲۔ صبر ایوب پر
۳۔ مناجات زکریا پر
۴۔ غربت یحییٰ پر
۵۔ خرقہ پوشی موسیٰ پر
۶۔ تجرد عیسیٰ پراور
۷۔ فقر محمدﷺ
فقر کی حقیقت:
فقر کی حقیقت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے: ’’فقر کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی ہی جیسی ہستی (یعنی کسی بندہ) کا محتاج نہ ہے‘‘۔
دنیاکی حقیقت:
انہوں نے رہبانیت کی تعلیم نہیں دی، لیکن دنیا کی پرستش اور اس سے دلی محبت رکھنے سے منع فرمایا ۔ ایک موقع پر انہوں نے فرمایا: ’’دنیا میں اپنا مقسوم اس طرح مت کھا کہ وہ بیٹھی ہوئی ہو اور تو کھڑا ہو، بلکہ اس کو بادشاہ کے دروازہ پر اس طرح کھا کہ تو بیٹھا ہو ا ہوا ور وہ طباق اپنے سر پر رکھے ہوئے کھڑی ہو۔ دنیا اس کی خدمت کرتی ہے جو حق تعالیٰ کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے جو دنیا کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے وہ اس کو ذلیل کر تی ہے‘‘۔
وفات :
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا انتقال 14 فروری 1166 کو ہفتہ کی شب بمقام بغداد ہوا ۔ ان کی تدفین ان کے مدرسہ جس کانام باب الارج تھا ؛کے احاطہ میں ہوئی۔ان کے دس بیٹے تھے۔ ان کی اولاد نے ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے بہت تگ و دو کی اور مختلف ممالک میں پھیل گئے۔ برصغیر میں بھی ان کے مرید مختلف جگہوں پرسکونت اختیار کر کے تعلیمات غوثیہ سے لوگوں کو روشناس کروا رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں