573

صبر کی ضرورت و اہمیت (احادیث کی روشنی میں).عین الحق بغدادی

صبر کی ضرورت و اہمیت (احادیث کی روشنی میں)
عین الحق بغدادی
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے متعدد ارشادات میں صبر کی اہمیت و فضیلت کو واضح فرمایا ہے۔
1۔ صحیح بخاری و مسلم کی روایت ہے، حضرت سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: میں نے عرض کی
یا رسول اﷲ! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کن کی ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انبیاء کرام کی، پھر درجہ بدرجہ اﷲتعالیٰ کے مقربین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دینی مقام و مرتبہ (یعنی ایمانی حالت) کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین اور ایمان میں مضبوط ہو تو آزمائش سخت ہوتی ہے، اگر دین اور ایمان میں کمزور ہو تو آزمائش اس کی دینی اور ایمانی حالت کے مطابق ہلکی ہوتی ہے۔ بندے پر یہ آزمائشیں ہمیشہ آتی رہتی ہیں حتیٰ کہ (مصائب پرصبر کی وجہ سے اسے یوں پاک کر دیا جاتا ہے) وہ زمین پر اِس طرح چلتا ہے کہ اس پر گناہ کا کوئی بوجھ باقی نہیں رہتا‘‘۔
2۔ اولاد بڑی نعمت ہے ، اولاد کے ساتھ انسان میں زندگی کی رونق بحال ہو جاتی ہے اور گویا جینے کا مقصد مل جاتا ہے مگر جب کسی وجہ سے اولاد چھن جائے تو انسان حواس باختہ ہو جاتا ہے۔ اس مشکل وقت میں صبر کرنے والے کے بارے میں مسند احمد اور سنن ترمذی کی یہ روایت پیش ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
جب کسی کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: تم نے میرے بندے کے نہایت پیارے بیٹے کی روح قبض کرلی؟ وہ کہتے ہیں: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تم نے اس کے دل کا پھل قبض کیا؟ وہ عرض کرتے ہیں: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے اس پر کیا کہا؟ وہ عرض کرتے ہیں: اس نے تیری حمد کی اورکہا ’بے شک ہم بھی اللہ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس کے لیے جنت میں ایک مکان بنا دو اور اس کا نام بَیْتُ الْحَمْد (تعریف والا گھر) رکھ دو‘‘۔
3۔ دنیا میں مشکلات پر صبر کرنے والوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور جو بے حساب اجر و ثواب ملے گا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
قیامت کے روز جب مصیبت زدہ لوگوں کو (ان کے صبر کے بدلے بے حساب) اجر و ثواب دیا جائے گا تو اس وقت (دنیا میں) آرام و سکون (کی زندگی گزارنے) والے تمنا کریں گے: کاش! دنیا میں ان کی جلدیں قینچیوں سے کاٹ دی جاتیں (تو آج وہ بھی اِن عنایات کے حقدار ٹھہرتے)۔‘‘
(جامع ترمذی)
4۔ صبر کی اہمیت کے پیشِ نظر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبر کو نصف ایمان قرار دیا۔ (سنن بیہقی)
5۔ صبر کہنے کو تو آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا مشکل کام ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج کے دور کو مدِ نظر رکھتے ہوئے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا
تمہارے بعد ایسے دن آنے والے ہیں جن میں صبر کرنا دہکتے کوئلے کو مٹھی میں پکڑنے کے مترادف ہے اور ایسے زمانے میں صبر کرنے والے کو اُس جیسا عمل کرنے والے پچاس لوگوں کا ثواب ملے گا‘‘۔ دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے کہ صحابہ میں سے کسی نے پوچھا کہ پچاس اُس کے زمانے کے یا ہمارے زمانے کے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ آپ کے زمانے کے پچاس لوگوں کا ثواب ملے گا‘‘۔
6۔ صبر کرنے والوں کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حوضِ کوثر پر ملاقات ہو گی۔ غزوۂ حنین کا مالِ غنیمت تقسیم کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار سے مخاطب ہو کر فرمایا
عنقریب تم دیکھو گے کہ بہت سے معاملات میں لوگوں کو تم پر ترجیح دی جائے گی، تم اس پر صبر کرنا حتیٰ کہ تم اللہ اور اس کے رسول سے جا ملو کیونکہ میں حوض پر ہوں گا۔ انصار نے کہا ہم عنقریب صبر کریں گے‘‘۔
7۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
قیامت والے دن جب اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو اکٹھا کرے گا تو پکارنے والا پکارے گا! صبر کرنے والے کہاں ہیں؟ فرمایا: کچھ لوگ اُٹھیں گے جو تعداد میں کم ہوں گے اور وہ جلدی جلدی جنت کی طرف جائیں گے۔ راستے میں انہیں فرشتے ملیں گے جو اُن سے پوچھیں گے، ہم آپ لوگوں کو دیکھ رہے ہیں کہ آپ جنت کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں ، آخر آپ ہیں کون؟ وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہم اہلِ صبر ہیں۔ فرشتے پوچھیں گے کہ آپ نے کس بات پر صبر کیا؟ وہ جواب دیں گے ہم نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اور گناہوں سے بچنے پر صبر کیا۔ اُس وقت اُن سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جائیں، بے شک صبر کرنے والوں کا یہی اجر ہے۔ (علامہ ابن القیم، عدة الصابرین)
8۔ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت یاسر ، عمار بن یاسر اور امّ عمار کے پاس سے گزرے، جب انہیں اذیت دی جا رہی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
اے ابو یاسر و اہلِ یاسر! صبر کرو، بے شک آپ کی جزاء اور بدلہ جنت ہے۔
(مسند احمد)
9۔ اصل صبر کسی مشکل وقت یا مصیبت کے آغاز میں کیا جاتا ہے نہ کہ بعد میں، جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک عورت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا صبر وہ ہے جو مصیبت کے آغاز میں کیا جائے۔
(بخاری)
10۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے پاس تشریف لائے تو پوچھا: ’’کیا تم مومن ہو؟‘‘ وہ خاموش رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہاں! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ انہوں نے عرض کیا
ہم آسانی میں شکر کرتے ہیں اور ابتلاء میں صبر کرتے ہیں اور قضاء پر راضی رہتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:کعبہ کے رب کی قسم! تم مومن ہو۔