309

کورونا کے بعد کا نیو ورلڈ آرڈر؟

کس نے سوچا تھا کہ 2019 کا ڈوبتا سورج اور 2020 کا آغاز ایک ایسے اٴن دیکھے دشمن سے دوچار کر دے گا جس کا نہ کوئی چہرہ ہے اور نہ ہی وزن، نہ آنکھیں ہیں اور نہ ہی ذہن، نہ کوئی ہیئت ہے اور نہ ہی شکل، مگر وجود ایسا کہ لاکھوں مربع میل پر محیط ریاستیں اس کے سامنے بے بس اور کھربوں کے ہتھیار اُس کے سامنے بے اختیار۔

ایک وائرس نے دنیا بدل کر رکھ دی ہے۔ عالمی طاقتوں کا غرور، سیاہ سونے کی طاقت کے سرور اور پہلی دنیا کے نشے میں چور سب دھڑام سے زمین پر آ گرے۔ گویا ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے بااختیار و مجبور۔

سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہینری کیسنجر کہتے ہیں کہ دنیا کے حکمرانوں کو کورونا وائرس کے بعد کے نئے ورلڈ آرڈر کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتیریس کہہ چکے ہیں کہ بڑی طاقتوں کے درمیان تعلقات جس طرح اب معطل ہیں اس سے پہلے کبھی نہ تھے، ہمیں اکٹھا ہونا ہے یا پھر شکست کے لیے تیار۔
دنیا بھر میں کہیں اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ کورونا وائرس سے مغربی حکومتیں ناکام ہو رہی ہیں تو کہیں اس بات پر تحقیق ہو رہی ہے کہ مشرقی ریاستیں وائرس پر قابو پانے میں کس قدر کامیاب۔

کہیں مقبول حکومتوں کے امتحان کی بات ہو رہی ہے تو کہیں حاکمیت پسند حکومتوں کے وائرس سے نمٹنے کے طریقے زیر بحث۔ گویا جو اس وائرس سے جیتا وہی سکندر۔

تحقیق اس بات پر بھی کی جا رہی ہے کہ جس طرح امریکہ اور یورپی ممالک نے اس وائرس سے نمٹا ہے وہ طریقہ کار کورونا کے بعد کے حالات میں مغربی جمہوریت کے تصور کو کمزور کر سکتا ہے، البتہ جنوبی کوریا اور سنگاپور وائرس کو شکست دینے والی جمہوری طاقتوں کے طور پر خود کو پیش کر رہے ہیں۔

تحقیق تو یہ بھی بتا رہی ہے کہ کورونا کے بعد آمریت اور استبدادی حکومتوں کو فروغ ملے گا۔

کتابوں، تحقیقوں اور مناظروں کی دنیا سے نکل کر دیکھیں تو دنیا خود کو ایک نئے عالمی حکم یعنی ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کے لیے تیار کر رہی ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان وسیع ہوتی خلیج نے بہت سے ملکوں کو پہلے ہی امتحان میں ڈال رکھا ہے اور دنیا کے نقشے پر نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔
معروف تحقیقی ادارے کورونا وائرس کے مقابلے پر چین کی کامیابی کو جانچ رہے ہیں۔ عالمی منظر نامے پر چین کا وجود ایک نئے تصور کے ساتھ ابھر رہا ہے۔ ایسے میں دنیا نئے ورلڈ آرڈر میں خود کو کہاں فٹ کرے گی؟

کورونا کے بعد کی دنیا میں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر ایک نئی سرد جنگ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس جنگ میں ہمارا کردار کیا ہوگا؟ ہماری جغرافیائی حیثیت اور چین سے قربت دوسری طاقتوں کے لیے کیا پیغام ہوگی؟ ہمیں کورونا کے بعد نئے عالمی آرڈر میں اپنی جگہ کیسے بنانی ہے؟ ہم نے اب تک اس پر توجہ دینا مناسب ہی نہیں سمجھا۔
کمال تو یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب دنیا کورونا اور کورونا کے بعد کے نئے ورلڈ آرڈر پر غور کر رہی ہے تو وطن عزیز میں کبھی اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ صوبوں کے اختیارات کو کیسے کم کرنا ہے۔ سیاسی جماعتیں اس بات پر لڑتی دکھائی دے رہی ہیں کہ ٹوئٹر پر کس کے خلاف کیا ٹرینڈ چلانا ہے، احمدیوں کو اقلیتی نشست دینی ہے یا نہیں، لاک ڈاؤن ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے، اور لاک ڈاؤن سافٹ، سمارٹ یا ہینڈسم آخر کیسا ہونا چاہیے۔

پالیسی واضح کرنے کے بجائے بظاہر یہ باتیں زیرِ بحث ہیں کہ حزب اختلاف کو کیسے دبانا اور کون سے نئے مقدمات بنانے ہیں اور سوشل میڈیا اور میڈیا کو کیسے ستانا ہے۔

کیا ہم نے اب تک یہ سوچا ہے کہ کورونا کے بعد کی دنیا میں ہماری جگہ کہاں ہو گی اور کیسے؟ کیا کسی نے یہ سوچا ہے کہ قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت، افراط زر سے ہلکان معاشرت، کورونا زدہ سیاست اور کمزور ہوتی ریاست کا مسقبل کیا ہوگا؟