291

بازار بھریں یا اسپتال؟

’’یہ تو بالکل احتیاط نہیں کر رہے ہیں۔ سماجی فاصلہ نہیں رکھ رہے ہیں۔ اچھے خاصے سمجھدار پڑھے لکھے۔ شعر و ادب کے مربّی۔ اجل سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ موت سے گلے مل رہے ہیں۔ ذرا بھی نہیں سوچ رہے ہیں۔ ان کے چاہنے والوں کا کیا ہوگا۔ ان کے گھر والوں پر کیا گزرے گی‘‘۔

مئی کا مہینہ تو قیامتیں برپا کر گیا۔ اب جون بھی یہی کر رہا ہے۔کیسے کیسے گنج ہائے گراں مایہ ہم میں سے اُٹھ رہے ہیں۔ بہت دل نشیں کہانیاں لکھنے والے۔ اپنی عمر کا ایک ایک لمحہ تعلیم کیلئے وقف کرنیوالے پروفیسر انوار احمد زئی اپنی مسکراہٹ کے ساتھ دنیا چھوڑ گئے۔ ان سے کچھ دیر بعد ڈاکٹر آصف اسلم فرخی۔ علم۔ ادب۔ دانش۔ تنقید۔ ادبی میلے کی پہچان۔ انگریزی اُردو میں بھرپور اظہار کی قدرت رکھنے والے۔ وہ بھی جلدی میں تھے۔ کبھی امریکہ سے خبر آ جاتی ہے۔ کبھی ہندوستان سے مجتبیٰ حسین کی رحلت اداس کرجاتی ہے۔ یہ 2020ء تو ظلم کی انتہائوں کو چھو رہا ہے۔ باغ و بہار محبوب غوری، طلعت حسین کے داماد زاہد حسین۔ فیصل آباد کے چوہدری عبدالرشید۔ پشتو اُردو کے شاعر بلوچستان اکیڈمی کے سابق چیئرمین سید عابد شاہ عابد اور نجانے کتنے روشنی بانٹنے والے لاک ڈائون کے اُداس دنوں کو اور زیادہ غمگین کرتے جا رہے ہیں۔

کورونا کے خلاف پہلی صف میں لڑنے والے ڈاکٹر نرسیں۔ میڈیکل اسٹاف انسانیت کا دفاع کرتے کرتے جام شہادت نوش کر رہے ہیں۔ موت دندنا رہی ہے۔ جب ہمارے قائدین وفاق اور صوبوں کی لڑائی کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس وقت اسلام آباد۔ پنجاب۔ جنوبی پنجاب۔ سندھ۔ خیبر پختونخوا۔ بلوچستان۔ گلگت بلتستان۔ آزاد جموں کشمیر کے اسپتالوں میں ڈاکٹر مریضوں کو بلا امتیاز مذہب۔ رنگ۔ نسل۔ صوبہ۔ غریب امیر اپنی مسیحائی سے نواز رہے ہیں۔ ان میں ہر ایک بخوبی آگاہ ہے کہ خطرہ کتنی شدت کا ہے۔ مسیحائوں کا خود بیمار ہونا۔ موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہونا۔ پھر موت کو گلے لگا لینا کیا ہم پر واضح نہیں کرتا کہ کورونا ایک حقیقت ہے اور بہت ہی سفّاک حقیقت۔ کیا یہ مرنے والے ڈاکٹر بھی زبردستی کورونا کے کھاتے میں ڈالے جا رہے ہیں۔ قیادت کے دعویداروں کو گلدستے لے کر ان ڈاکٹروں کے پاس جانا چاہئے۔اسلام آباد والے نیوزی لینڈ کے دارالحکومت ویلنگٹن سے سبق نہیں سیکھتے۔ ایک خاتون کی پیروی کیوں کریں۔ چاہے اس نے کورونا کا وجود ہی مٹا دیا ہو۔ یہ تو ٹرمپ کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ جس نے مسلسل تذبذب سے کام لیا۔ وہاں ایک لاکھ سے زیادہ جانیں چلی گئیں اور اب وہاں نسلی فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔

تاریخ نے ہمیشہ ہمیں جھنجھوڑا ہے۔ کچوکے لگائے کہ یہ حکمران فوجی ہوں یا سیاسی۔ اپنے آپ کو عقل کُل سمجھنے لگتے ہیں۔ ہر دَور نے ان کے تکبر کو للکارا۔ یہ متعلقہ ماہرین سے مشورہ کیوں نہیں کرتے۔ اب جب اموات بھی بڑھ رہی ہیں۔ مریض بھی۔ لاک ڈائون مزید سخت کرنے کے بجائے پانچ دن کورونا کی خرمستیوں کیلئے کھول دیے گئے ہیں۔ عوام کی ضرورت کی اشیا کی دکانیں تو پہلے سے ہی کھل رہی تھیں۔ اشیائے ضروریہ فراوانی سے مل رہی تھیں۔ آن لائن بھی دستیاب تھیں۔ اب جو شاپنگ مال۔ مارکیٹیں۔ گلی محلوں کی دکانیں صبح 9سے شام 7بجے تک کھلیں گی۔ ان پر غیر ضروری اشیا ہی دستیاب ہوں گی۔

لگ رہا ہے کہ ڈاکٹر عشرت حسین کی سنی جا رہی ہے نہ حفیظ شیخ کی۔ نہ ہی ظفر مرزا کی۔

ایک وبائی مرض کی یلغار ہے تو ڈاکٹروں کے قول کو سبقت حاصل ہونی چاہئے۔ کابینہ بھی صحت کے ماہرین سے رہنمائی لے۔ ارکانِ پارلیمنٹ بھی ان سے کچھ سیکھیں۔ دنیا بھر میں اس وقت صحت عامہ پہلی ترجیح ہے۔ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ اب صحت عامہ ہی قومی سلامتی ہے۔ امریکہ، روس، چین، برطانیہ کہیں بھی اس عالمی دشمن کے مقابلے میں ٹینک۔ میزائل۔ بمبار طیارے کام نہیں آ رہے۔ جدید ترین ہتھیار۔ حربی منصوبے بے کار ہوگئے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کہہ رہا ہے کہ یہ عالمگیر وبا ہے۔ اس کا مقابلہ سب بڑی چھوٹی قومیں مل کر کریں۔ ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں کے ترجمانبلکہ خود لیڈران کرام ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونتے کھڑے ہیں۔ میڈیا بھی جنگی رپورٹنگ کے موڈ میں رہتا ہے۔ جہاں اصل جنگ لڑی جا رہی ہے وہاں رپورٹر جاتا ہے نہ کیمرہ مین۔ پرانی فوٹیج دکھاتے رہتے ہیں۔ کورونا کو ہرا کر گھر جانے والوں سے کوئی بات نہیں کرتا۔ اس وقت رہنمائی یا ڈاکٹروں سے مل سکتی ہے یا صحت یاب ہونے والوں سے۔ شہباز گل (وفاق)۔ فیاض الحسن چوہان (پنجاب)۔ مرتضیٰ وہاب (سندھ)۔ اجمل خان وزیر (کے پی)۔ لیاقت شہوانی (بلوچستان)۔ مصطفیٰ بشیر(آزاد جموں و کشمیر)۔ فیض اللہ فراق (گلگت بلتستان)۔ مریم اورنگزیب (مسلم لیگ ن) نہ دوا دے سکتے ہیں۔ نہ انجکشن لگا سکتے ہیں۔

سیاسی جماعتیں اگر ملک گیر تنظیم رکھتیں تو آج ان کے کارکن شہر شہر دکھی انسانیت کی خدمت کر رہے ہوتے۔ راشن بانٹ رہے ہوتے۔ ہم وطنوں کے دل جیت رہے ہوتے۔ اب بھی اس تنظیم کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ موجودہ پاکستان ایک عظیم مملکت ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین لکھتے ہیں کہ یہ ایک مثالی اقتصادی وحدت ہے۔ خودکفیل ہونے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ معدنی۔ قدرتی۔ زرعی وسائل فراواں ہیں۔ تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ سیاستدان کبھی سنجیدہ اور متحد نہیں ہوتے۔ اس لیے اس پیغمبری وقت میں پنجاب۔ سندھ۔ کے پی۔ بلوچستان۔ گلگت بلتستان۔ آزاد جموں کشمیر کے وائس چانسلرز۔ پرنسپلز۔ ہیڈ ماسٹروں۔ اساتذہ۔ دانشوروں۔ اقتصادی ماہرین۔ زرعی ماہرین کو آگے آنا ہوگا۔ مسئلے کا حل لاک ڈائون ہے۔ احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد ہے۔ نظم و ضبط ہے۔ 22کروڑ کو صحیح رہنمائی ملے گی تو وہ بھی نیوزی لینڈ کے عوام کی طرح منظّم ہوکر کورونا کو شکست دیں گے۔ یہ ماہرین ایسے لاک ڈائون کی منصوبہ بندی کریں جس میں ہماری معیشت بھی چلتی رہے۔ اور کورونا کی یلغار بھی محدود ہوتی رہے۔ موت یوں ہمارے گلی کوچوں میں دندناتی نہ پھرے۔ طے کرلیں کہ ہم نے بازار بھرنے ہیں یا اسپتال۔