mazhar barlas article return from kartarpur 442

کرتارپور سے واپسی. مظہر برلاس

برطانیہ میں مقیم میرے گورنمنٹ کالج لاہور کے دنوں کے دوست حسن رضا گوندل کہتے ہیں کہ قائداعظمؒ نے ایک بار کہا تھا کہ ’’پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ایسے ہی ہوں گے جیسے امریکہ اور کینیڈا کے درمیان ہیں‘‘ حسن رضا گوندل قائد کا فرمان سنانے کے بعد پوچھتے ہیں، کیا کرتارپور راہداری قائد کے ویژن کی تکمیل کا نقطۂ آغاز ثابت ہو سکے گی؟

خواتین و حضرات! آخری فتح سچ اور محبت کی ہوتی ہے۔ پاکستان نے سچے دل، سچے جذبے اور سچی محبت کے ساتھ کرتارپور راہداری کو کھول دیا ہے، اس سے دنیا بھر کے سکھ تو خوش ہیں ہی، ایسے تمام افراد بھی خوش ہیں جو دنیا کو امن کا گہوارہ دیکھنا چاہتے ہیں، جو مذہبی روا داریوں کے قائل ہیں، جن کا سبق انسانیت دوستی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان مورگن نے کرتارپور راہداری کھلنے کی بہت تعریف کی ہے، دنیا کے کئی دوسرے ملکوں نے پاکستان کے اس اقدام کو سراہا ہے اِسی لئے اب عمران خان کو امن اور محبت تقسیم کرنے والا لیڈر کہا جا رہا ہے، کرتارپور راہداری کھولنا کتنا بڑا کام ہے کہ نفرتوں کے سوداگر مودی کو بھی ڈیرہ بابا نانک میں کھڑے ہو کر عمران خان کی تعریف کرنا پڑی.

کاش ایسا ہوتا کہ مودی کے پلڑے میں بھی کوئی کام ایسا ہوتا جس کی وجہ سے مودی کی تعریف ہوتی مگر افسوس مودی نے اسی لاکھ کشمیریوں کو قیدی بنا رکھا ہے، پورے بھارت میں اقلیتوں کی زندگیاں مشکل ترین حالات کا شکار ہیں کاش مودی ایسا کچھ تو کر جاتا جس سے محبت کی خوشبو میں اضافہ ہوتا مگر مودی آگ اور خون کے کھیل کا پجاری ہے اس کا ایک مظاہرہ دنیا گجرات میں دیکھ چکی ہے۔

دوسرا مظاہرہ کشمیر میں ہو رہا ہے اور تیسرا نمونہ پورا بھارت ہے جہاں کسی بھی غیر ہندو کا جینا بہت ہی کٹھن ہے۔ ایک ہی خطے میں پاکستان کا وزیراعظم محبت کے دیپ جلاتا ہے، مذہبی روا داری کی بات کرتا ہے اور اسی خطے میں مودی نفرت اور آگ کو بڑھاتا ہے۔ یہ خطہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے، یہاں لوگ ترقی کر سکتے ہیں، یہاں سے غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے مگر یہ سب کام کرنے کے لئے بھارت کو اپنا لیڈر بدلنا ہوگا۔

ہندوستانی عوام کو ایک ایسا شخص آگے لانا ہوگا جو مذہبی روا داری کا پاس رکھتا ہو، جسے امن بہت عزیز ہو۔ قائداعظمؒ کے ویژن کی تکمیل ہو سکتی ہے مگر اس کے لئے ہر طرف محبت کے چراغ جلانا ہوں گے۔

9نومبر کو کرتارپور پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ دودھ میں نہائی ہوئی عمارت کو سورج کی روشنی اور بھی چمکا رہی تھی، پورا ماحول دودھیا بنا رہی تھی، کرتارپور گوردوارے کی بائونڈری کے ساتھ دودھا گائوں جڑا ہوا ہے۔

پاکستان سے چنیدہ لوگ وہاں تھے۔ سکھوں کی بڑی تعداد خوشیوں سے جھوم رہی تھی، بھارت سمیت کئی ملکوں سے صحافیوں کی اچھی خاصی تعداد بھی وہاں موجود تھی، برکھا دت کو کئی پاکستانی صحافیوں نے گھیر رکھا تھا۔

کاش کوئی ایسا اس کے پاس ہوتا جو بتاتا کہ برکھا جی دربار صاحب کرتار پور ریلوے اسٹیشن کے پاس ایک چھوٹا سا گائوں ویرم دتاں ہیں یعنی اس گائوں میں آپ کے قبیلے کے لوگ آباد تھے۔ 1947سے پہلے ویرم میں رہنے والے زیادہ تر لوگ دت تھے۔

کرتار پور اسی حلقے میں ہے جہاں سے احسن اقبال قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ اس حلقے سے ابرار الحق ہار گئے تھے، پی ٹی آئی کے عارف خان کا گائوں کرتارپور سے دو تین کلو میٹر دور ہے، کچھ دیہات کو راوی کھا گیا، کچھ گائوں سلامت ہیں۔

9؍نومبر کو کرتارپور اور ڈیرہ بابا نانک کے درمیانی راستے میں بھی جگہ جگہ خوشیاں ناچ رہی تھیں، پورے راستے میں محبت کی خوشبو کا بسیرا تھا۔ ڈیرہ بابا نانک اور کرتارپور کے درمیان ایک راوی ہے، ایک بارڈر ہے مگر راہداری نے دونوں رکاوٹوں کو دور کر دیا ہے۔

میں نے پنجاب کا روایتی لباس پہنا ہوا تھا عام پاکستانیوں اور دنیا بھر سے آئے ہوئے سکھوں کا دھیان کبھی میری پگڑی پر جاتا تو کبھی میرے لاچے پر، گوردوارے سے باہر تو کھسہ بھی پہن رکھا تھا۔ سکھ بھی اب زیادہ تر پینٹ اور پاجامہ پہنتے ہیں۔ سکھ اور سکھنیاں میری طرف دیکھتے پھر کہتے ’’واہ جی واہ، پنجاب چیتے کروا دتا جے‘‘ (واہ جی آپ نے تو پنجاب یاد کروا دیا ہے)۔

اس طرح کے محبت بھرے جملے ادا کرنے کے بعد بہت سی سکھ عورتوں نے میرے ساتھ سیلفیاں بنائیں۔ کرتارپور راہداری کے سلسلے میں دو تقاریب ہوئیں۔ بڑی تقریب گوردوارہ کرتار پور میں اور ایک چھوٹی تقریب ڈیرہ بابا نانک کے پاس بارڈر پر، جہاں مودی نے تقریر کی، پہلے جتھے کو الوداع کیا۔ اس جتھے کی قیادت سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے کی۔ جتھے میں بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن (ر) امریندر سنگھ، کانگریسی لیڈر اور راہداری کے ہیرو نجوت سنگھ سدھو، سنی دیول، امریکی سکھوں کے صدر جسدیپ سنگھ عرف جسی، شمی سنگھ بھی شامل تھے۔

کرتار پور میں امریکہ سے آئے ہوئے ڈاکٹر سورندر سنگھ گِل بڑے متحرک تھے۔ بھارت سے آنے والے سکھ جنرل باجوہ کو ڈھونڈتے رہے مگر انہیں یہ پتا ہی نہیں تھا کہ جنرل باجوہ ایک روز قبل کرتارپور کا تفصیلی دورہ کر کے جا چکے ہیں۔

امریکہ، کینیڈا سمیت بھارت سے آئے ہوئے تمام سکھوں کو ہمارے ماہرین نے پریشان کر کے رکھ دیا، وہ سب حیران تھے کہ اتنے تھوڑے عرصے میں یہ کیسے بن گیا، واقعی دس مہینوں میں پاکستانی ماہرین نے کارنامہ انجام دیا ہے۔ ایف ڈبلیو او کو شاباش ملنی چاہئے۔

عمران خان کے بارے میں سدھو کی باتیں سب سن چکے ہیں۔ سدھو نے شاعری کر کے شاندار انداز میں پاکستانی وزیراعظم کو خراج تحسین پیش کیا اور ٹھوک کے تالیاں بھی بجوائیں۔ واپسی پر بارڈر پر بھارتی سکھوں نے سب سے زیادہ استقبال سدھو کا کیا۔

شاہ جہاں نے محبت کی نشانی کے طور پر تاج محل بنوایا تھا عمران خان نے مذہبی روا داری کے تحت محبت کی نشانی کا محل کرتار پور میں بنوایا ہے، جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔

مذہبی روا داری پر تبصرہ کرنے سے پہلے نجوت سنگھ سدھو کا یہ جملہ ضرور یاد رکھیئے ’’تن میل دور میرا تایا مٹی چم چم روندا سی‘‘۔ کرتار پور میں پاکستانیوں نے محبت کا علم بلند کر دیا ہے اب انڈیا ہمت کرے اور کشمیریوں کو آزاد کرے۔ نارووال کے ابرار ندیم یاد آ گئے کہ

ضبط کے آداب سے انکار کس کو ہے مگر

حوصلہ اپنی جگہ ہے بے بسی اپنی جگہ