300

امام اعظم کی عبارت اور اہل خطاء کی مغالطہ آفرینی تحریر : عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور

امام اعظم کی عبارت اور اہل خطاء کی مغالطہ آفرینی
تحریر : عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور
سیدنا و سندنا امام ہمام امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الفقہ الاکبر میں انبیاء کرام کی عصمت کے عنوان کے تحت ارشاد فرمایا:
و قد کانت منہم زلات و خطایا(انبیاء کرام سے زلات و خطایا سرزد ہو جاتی ہیں)
امام اعظم کی مذکورہ عبارت کو لے کر اہل خطاء نے اپنی خطاء کو تحفظ فراہم کرنا شروع کر دیا جو کہ ہمارے نزدیک بذات خود بہت بڑی خطاء ہے.

ایسی عبارات کو ایسے مواقع کی دلیل صرف وہی شخص بنا سکتا ہے جسے نفس مسٸلہ کا علم نہ ہو،اس کی جاٸز و ناجاٸز صورتوں کی خبر نہ ہو،سیاق و سباق سے واقفیت نہ ہو، مالہ و ما علیہ کا ادراک نہ ہو، عرف و عادت سے آشنائی نہ ہو اور نتائج و عواقب کا اندازہ نہ ہو.

محدث حجاز علامہ محمد بن علوی المالکی اپنی کتاب منھج السلف فی فہم النصوص کے مقدمے میں صفحہ نمبر 10 پہ لکھتے ہیں :
“ان أکثر المشاکل والمصاٸب تأتی ممن یتصدّر للأمر بالمعروف والنھی عن المنکر وھو لیس بہ اھل۔
(زیادہ تر مذہبی مشکلات اور مصیبتیں اس شخص کی طرف سے آتی ہیں جو نااہل ہونے کے باجود نیکی کاحکم دے اور براٸی سے روکے)

اب آئیے! دیکھتے ہیں کہ امام اعظم کی عبارت اہل خطاء کی دلیل کیسے نہیں بن سکتی.

1..امام اعظم رحمہ اللہ نے انبیاء کرام کی عصمت کے عنوان کے تحت ان کے لیے خطایا کا جو لفظ استعمال فرمایا ہے اس سے مراد بہرصورت اصطلاحی خطاء ہے نہ کہ عرفی.
کیونکہ یہ امام اعظم کے الفاظ ہیں نہ کہ کسی معمولی بندے کے.
اور اس اصطلاحی مفہوم کو سمجھنے کی صلاحیت علماء ہی رکھتے ہیں نہ کہ عامۃ الناس..
اسی لیے خطاء کے اس اصطلاحی مفہوم کی تفصیلی وضاحت شرح فقہ اکبر کے تمام شارحین نے غیر ذنب وغیرہ الفاظ سے کی ہے.

لہذا ضروری ٹھہرا کہ جب کوئی ایسا خاص اصطلاحی مفہوم والا لفظ بولا جائے جس کا کوئی دوسرا عرفی مفہوم بھی ہو اور وہ باعث فتنہ بھی ہو تو ضروری ہے کہ
پہلے تو وہ صرف اس اصطلاح کو سمجھنے والے لوگوں کے درمیان بولا جائے..
اور
اگر بوجوہ وہ عام لوگوں میں بولنا ضروری ہو تو پھر ساتھ ہی اس کی ایسی تسلی بخش وضاحت بھی کر دی جائے جس سے ہر طرح کے فتنے کی جڑ کٹ جائے.

2..اب ہم خطا والے مولانا صاحب کی عبارت خطا پر تھیں ،جب طلب کر رہی تھیں خطا پر تھیں کا جائزہ لیتے ہیں :
ایک تو مولانا صاحب نے سیدہ کائنات کے لیے یہ خطاء کے الفاظ مخصوص اہل فہم کے درمیان نہیں بولے بلکہ عامۃ الناس کا مجمع لگا کر بولے ہیں ، جس کی باقاعدہ ریکارڈنگ بھی ہو رہی تھی اور اس نے آگے بھی ہر کہ و مہ تک پہنچنا تھا… دوسرا یہ الفاظ مطلق بغیر کسی تقیید، تفصیل اور تشریح کے بولے .
اب ظاہر ہے کہ اس سے فتنہ تو ہونا تھا، اور ہوا بھی، اور ہوا بھی اتنا ہی جتنا اس حساس ترین موقع کا تقاضا تھا.

3.. پھر جب فتنہ بہت زیادہ ہو گیا تو مولانا صاحب تشریف لائے اور کہا کہ یہاں خطاء سے میری مراد خطائے اجتہادی تھی، حالانکہ ان کا یہ دعویٰ سیاق و سباق سے بالکل ہم آہنگ نہیں ہے.
انہوں نے یہ الفاظ غیر نبی کے متعلق عقیدہ معصومیت نہ رکھنے کے موقع پر بولے،
یعنی چونکہ سیدہ کائنات معصومہ نہیں ہیں اس لیے مولانا کے بقول ان سے خطاء ہوئی
سب اہل علم جانتے ہیں کہ خطائے اجتہادی تو معصومیت کے بالکل منافی نہیں ہے. اس کے منافی تو خطائے معصیت ہے، اور یہی مولانا صاحب کے سیاق و سباق سے متعین ہوتی ہے، اور اسی کی دیگر مواقع پر بولے گئے مولانا کے درج ذیل الفاظ واضح طور پر چغلی کھا رہے ہیں کہ سیدہ پاک سے غلطی ہو گئی تھی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو لقمہ حرام سے بچا لیا.
خود سوچیں کہ غلطی اور لقمہ حرام کے الفاظ خطائے اجتہادی سے تعلق رکھتے ہیں یا خطائے معصیت سے؟

اور اگر سیاق و سباق دیکھیں تو مولانا صاحب سیدہ پاک کے لیے معصومہ ہونے کی نفی کر رہے ہیں تو کیا خطائے اجتہادی سے ان کی ذات سے معصومیت کی نفی ہو جاتی ہے؟ ہرگز نہیں، کیونکہ خطائے اجتہادی تو معصومیت کے منافی ہے ہی نہیں. تو پھر کیسے وہ کہتے ہیں کہ میری مراد خطائے اجتہادی تھی اور میں اس سے ان کی معصومیت کی نفی کر رہا تھا ؟
پس اب اگر وہ اپنی خطاء سے خطائے معصیت مراد لیتے ہیں تو بھی پھنستے ہیں
اور
اگر خطائے اجتہادی مراد لیتے ہیں تو بھی پھنستے ہیں.
پہلی صورت میں سیدہ کائنات کے لیے معصیت کے ارتکاب کا دعوی لازم آتا ہے
اور
دوسری صورت میں آپ کی ذات سے معصومیت کی نفی نہیں ہوتی جو وہ ثابت کرنے جا رہے ہیں.

(4) اگلی بات یہ کہ آپ سیدہ کائنات کے لیے خطاء کا لفظ بولنا اس لیے ضروری قرار دے رہے ہیں تاکہ اس کے ذریعے ان سے معصومیت کی نفی ہو سکے.
اس پر ہم آپ سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ جس بھی غیر نبی سے عصمت کی نفی کی جائے تو کیا ضروری ہے کہ اس کی کوئی نہ کوئی خطاء بھی ضرور پیش کی جائے یا پھر اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ اس سے خطاء کا صدور ممکن ہے؟
اگر جناب کے نزدیک عقیدہ عصمت کی وضاحت کے لیے ہر غیر معصوم سے خطاء کا وقوع و صدور بھی ضروری ہے تو پھر تو ہمیں شدید ترین خطرہ ہے کہ کل کو آپ مجمع لگا کر سیدنا صدیق اکبر، سیدنا فاروق اعظم، سیدنا عثمان غنی، سیدنا علی مرتضیٰ، سیدنا غوث اعظم، سیدنا امام احمد رضا بریلوی اور شیخ الحدیث حضرت جلال الدین شاہ صاحب وغیرہم کا نام بھی یہی کہیں گے کہ چونکہ وہ معصوم نہیں تھے تو جیسے میں نے سیدہ کائنات سے عصمت کی نفی کے لیے ان کی ایک عدد خطاء بیان کی ہے بالکل اسی طرح مذکورہ سب حضرات کی بھی درج ذیل خطائیں عوام ذہن نشین کر لے تاکہ ان سے معصومیت کی نفی ہو سکے.
اگر بالفرض آپ بذات خود ایسا کرنے سے باز رہے مگر اس عقیدے کی وضاحت کا جو حسین طریقہ آپ نے ایجاد کیا ہے کل کو آپ کے فالوورز میں سے کوئی کھڑا ہو گیا اور اس نے امام اعظم کی عبارت اور آپ کے طریقے کو سامنے رکھ کر مذکورہ حضرات سے معصومیت کی نفی کے لیے ان کی خطاؤں کے ڈھنڈورے پیٹنے شروع کر دیے تو پھر کیا بنے گا.

(5) اگلی بات یہ کہ آپ گفتگو اردو میں فرما رہے تھے نہ کہ عربی میں، اور وہ بھی اردو بولنے سمجھنے والوں کے درمیان، لہذا آپ کی گفتگو پر اردو زبان و عرف ہی کے اصول لاگو ہوں گے نہ کہ عربی کے .
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اردو میں خطاء کے معنی گناہ و غلطی کے ہیں یا نہیں؟
علامہ شریف الحق امجدی رحمہ اللہ اپنی کتاب فتاویٰ شارح بخاری جلد اول صفحہ 639 پہ اشرف علی تھانوی کے ترجمہ آپ کی اگلی پچھلی خطائیں کی گرفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
واضح ہو کہ یہ ترجمہ اردو میں کیا گیا ہے اور اردو میں خطاء کے معنی غلطی اور گناہ کے ہیں.
اب سوال یہ ہے کہ اشرف علی تھانوی کی گرفت کے لیے تو اردو کے اصولوں کو اپنایا جائے جبکہ آپ کی گرفت کے لیے عربی کے اصولوں کو اپنایا جائے اور وہ بھی امام اعظم کے خاص اصطلاحی مفہوم والے اصول. آخر کیوں؟

(6) مزید یہ کہ ہم اردو میں انبیاء کرام کی معصومیت کے اظہار کے لیے عام طور پر معصوم عن الخطاء کا لفظ بولتے ہیں.
اب اگر کوئی شخص امام اعظم ابو حنیفہ کی عبارت قد کانت منہم زلات و خطایا کو لے کر اعتراض کر دے کہ انہوں نے تو اپنی عبارت میں انبیاء کرام کے لیے خطاء ثابت کر دی ہے جبکہ تم انبیاء کو معصوم عن الخطاء سمجھتے ہو،تو اس کو کیا جواب دیا جائے گا؟
یہی جواب دیں گے نا کہ ہماری اصطلاح معصوم عن الخطاء میں خطاء کا اور معنی مراد ہے جبکہ امام اعظم کی عبارت میں اس کا اور معنی مراد ہے.
بعینہ اسی طرح آپ کے جملوں خطا پر تھیں،جب مانگ رہی تھیں خطا پر تھیں میں بھی سیاق و سباق کے مطابق خطاء کا کوئی اور معنی مراد ہے جبکہ امام اعظم کی عبارت میں کوئی اور معنی مراد ہے.
ان دونوں کو آپس میں ملایا نہیں جا سکتا.

(7) اب دیکھنا یہ ہے کہ طلب فدک اجتہادی معاملہ تھا یا نہیں؟ تو اس میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک یہ اجتہادی بن سکتا ہے اور بعض کے نزدیک نہیں.
جن حضرات کے نزدیک یہ اجتہادی نہیں بن سکتا ان میں علامہ محمد طیب نقش بندی اور مفتی اسلم رضا تحسينی وغیرہما علماء کرام شامل ہیں .
ان کا کہنا ہے کہ اجتہاد کے لئے ضروری ہے کہ مجتھد کے سامنے دو یا دو سے زیادہ ادلہ شرعیہ ہوں اور وہ اُن میں غور و فکر کرنے کے بعد کسی ایک کو ترجیح دے کر اس پہ عمل کرے.
حضرت خاتون جنت رضی اللہ عنھا کے سامنے “صریح الدلالۃ” ایک ہی نص قرآنی تھی جس کی رو سے وہ مطالبہ فرما رہی تھیں، اس میں نہ ہی کوئی معنی مشترک تھا جس میں تاویل کر کے اجتہاد کیا جاتا اور نہ ہی کوئی دوسری نص تھی جس میں ترجیح دے کر یا تخصیص سے اجتہاد کیا جاتا.
جب آپ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی تو آپ نے بھی وہی اجتہاد فرمایا جو ان کا تھا.
نتیجہ یہ نکلا کہ حدیث سننے سے پہلے یہ معاملہ محل اجتہاد تھا ہی نہیں، لہذا اسے “اجتہادی خطاء” سے تعبیر کرنا کسی صورت بھی صواب نہیں، بلکہ یہ آپ کی شان میں تقصیر ہے۔

(8) جن بزرگوں نے اسے اجتہادی کہا ہے انہوں نے بھی اس موقع پر سیدہ کائنات کی طرف خطاء کی نسبت نہیں کی، اور نہ ہی چودہ صدیوں میں کسی ایک بزرگ عالم دین نے کی ہے.
سب کے نزدیک دونوں ہی درست، دونوں ہی بر حق، دونوں ہی خطا سے پاک اور دونوں ہی صواب پر ہیں، وہ اس طرح کہ سیدہ کائنات نے آیت میراث کے پیش نظر اپنی وراثت کا بالکل سوفیصد شرعی قانونی اور اخلاقی جائز مطالبہ کیا…آپ کا یہ مطالبہ آیت میراث کی بنیاد پر تھا اور درست تھا .
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں رسول اللہ کی حدیث پیش کی، جس میں وہ بھی بالکل سوفیصد برحق تھے.
البتہ علماء کرام کے نزدیک وہ حدیث پہلے سیدہ کائنات کے علم میں نہ تھی… یا اگر تھی تو اس پہ اس سے قبل شرح صدر نہ ہو گا.
جب سیدہ کائنات نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے حدیث سن لی تو اس پہ آمنا و صدقنا کہہ دیا اور بات ختم ہو گئی.
اب خود سوچیے کہ اس معاملے میں خطاء کہاں سے داخل ہو گئی.؟
خطاء تو تب داخل ہوتی جب آپ حدیث کا حکم بالکل ہی ماننے سے انکار کر دیتیں… یا اس کا کوئی دوسرا اجتہادی مفہوم اخذ فرماتیں. آپ نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا… پھر خطاء کہاں سے آ گئی؟

اہل علم توجہ فرمائیں کہ احناف کے ہاں ایک اصول تطبیق کا بھی ہے، یعنی سب سے پہلے دو معاملات کے درمیان تطبیق کی کوشش کی جائے، اگر وہ ممکن نہ ہو تو پھر اگلے مراحل کی طرف توجہ کی جائے، یہاں تو مولانا نے تطبیق کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور سیدھا خطاء کا حکم جڑ دیا.

(9) اگلا سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دونوں ہی حق پر ہوں؟ ایک تو ضرور خطاء پر ہو گا…تو یاد رہے کہ اجتہادی معاملوں میں ہر جگہ ضروری نہیں کہ ایک طرف خطاء کا اطلاق ہو اور دوسری طرف صواب کا،
جیساکہ سرکار علیہ السلام نے صحابہ کرام کو عصر کی نماز بنو قریظہ جا کر پڑھنے کی تاکید فرمائی تھی.. بعض نے قلت وقت کو دیکھتے ہوئے راستے میں ہی بوقت عصر عصر کی نماز پڑھ لی اور بعض نے بنو قریظہ جا کر مغرب کے وقت میں پڑھی.. سرکار کو جب معلوم ہوا تو آپ نے کسی بھی فریق پہ نکیر نہیں فرمائی.

مزید یہ کہ جو لوگ ہر اجتہادی معاملے میں ایک کا صواب اور دوسرے کا خطاء پر ہونا ضروری سمجھتے ہیں وہ بتائیں کہ علامہ فضل حق خیر آبادی نے شاہ اسماعیل کو کافر کہا، جبکہ اعلی حضرت نے کف لسان کیا،ان دونوں میں سے کون حق پر تھا؟ اگر تو دونوں ہی حق پر تھے( اور ایسا ہی ہے) تو پھر یہ بات بالکل ممکن ہو گئی کہ کسی ایک مسئلے میں دونوں ہی فریق حق پر ہوں.

(10) پس اصل مسئلہ اجتہادی غیر اجتہادی کا نہیں ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ مولانا صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح و جان و جگر سیدۃ النساء، سیدہ کائنات کے لیے

مطلق خطاء ، غلطی اور حرام سے بچاؤ کے الفاظ بولے (پہلا ممنوع)

پھر وہ معصیت کے محل میں بولے، کیونکہ وہی معصومیت کے منافی ہے ( دوسرا ممنوع)

پھر بڑی بے ادبی کے ساتھ گلے کا زور لگا کر بولے (تیسرا ممنوع)

پھر انہیں تحکما اجتہادی خطاء کہا ( چوتھا ممنوع)

پھر انہیں غلط طور پر حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ کی طرف منسوب کر دیا ( پانچواں ممنوع)

پھر چونکہ تاریخ میں کسی نے بھی اسے خطاء نہیں کہا، لہذا ازخود گھڑ کر یہ بدعت سیئہ شروع کی ( چھٹا ممنوع)

پھر اس کی وجہ سے لوگوں میں شدید فتنہ پیدا ہو گیا (ساتواں ممنوع)

پھر جمہور جید اور بزرگ علماء اہل سنت کے کہنے کے باوجود ڈٹ گئے (آٹھواں ممنوع )

یہ ہے وہ مسئلہ جس کی وجہ سے جمہور ان سے باصرار توبہ و رجوع کا مطالبہ کر رہے ہیں اور بالکل درست کر رہے ہیں .

نوٹ : مذکورہ تحریر پڑھنے کے بعد اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ کیا مولانا صاحب کے معاملے کا سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ کی الفقہ الاکبر والی عبارت سے کوئی معمولی سا تعلق بھی بنتا ہے؟ شتان بینھما… لہٰذا توبہ و رجوع کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں.