443

ہم گفتگو کیسے کریں! محمد الغزالی ؒ

  • ہم گفتگو کیسے کریں!

    محمد الغزالی ؒ

    زبان و بیا ن اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جس سے اس نے انسان کو نوازا ہے اور اس کے ذریعہ تمام مخلوقات پر اسے فضیلت بخشی ہے۔
    اَلرَّحْمٰنُ ۔ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ۔ خَلَقَ الْاِنْساَنَ ۔ عَلَّمَہُ الْبَیاَنَ (الرحمن :۱،۴)
    ’’نہایت مہربان خدا نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔‘‘
    نعمت جتنی عظیم ہوگی اس کا حق اتنا ہی زیادہ ہوگا ،اس کا شکریہ ادا کرنا اتناہی ضروری ہوگا اور اس کی ناشکری و نا سپاسی اتنی ہی زیادہ قابل ملامت ہوگی۔اسلام نے وضاحت کی ہے کہ لوگ اس نعمت غیر مترقبہ سے کس طرح فائدہ اٹھائیں اور باتیں جو دن بھر ان کی زبان پر جاری رہتی ہیں کس طرح انہیں خیر و حق کے لیے استعمال کریں۔ایسے افراد کی تعداد کم نہیں ہے جن کی گفتگو کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا اور نہ ان کی زبان خاموش ہوتی ہے۔اگر ان کی گفتگوؤں کا آپ احاطہ کریں تو دیکھیں گے کہ ان کا زیادہ حصہ لغو، بیکار اور دل آزار باتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اِس کے لیے منہ میں زبان نہیں رکھی تھی اور نہ اسے یہ صلاحیتیں اس مقصد کے لیے ودیعت کی تھیں۔
    لاَ خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّن نَّجْوٰ ھُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِ ط وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذاَلِکَ ابْتِغآئَ مَرْضاَتِ اللّٰہِ فَسَوْفَ نُؤتِیْہِ اَجْراً عَظِیْماً (نساء :۱۴۴)
    ’’لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیشتر کوئی بھلائی نہیں ہوتی ۔ہاں اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرے گا اسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے۔‘‘
    اسلام نے کلام ،اس کے اسلوب اور اس کے آداب و قواعد کی طرف خصوصی توجہ دی ہے، اس لیے کہ کسی انسان کے منہ سے نکلی ہوئی بات اس کی عقلی سطح اور اخلاقی فطرت کو بتاتی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ کسی جماعت میں گفتگو کے آداب اس کے عام معیار کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس ماحول میں فضیلت و شرافت کے نفوذ کا پتہ دیتے ہیں۔
    ز اپنا محاسبہ کیجیے :
    دوسروں سے مخاطب ہونے سے پہلے خود اپنی طرف جھانکیے اور اپنے آپ سے سوال کیجیے کہ کیا کوئی ایسا موقع ہے جو گفتگو کا متقاضی ہے ؟اگر جواب اثبات میں ہو تو بات کیجیے ورنہ خاموشی زیادہ بہتر ہے ۔بلا ضرورت مواقع پر گفتگو سے پرہیز کرنا بڑے اجر کی بات ہے۔
    حضرت عبد اللہ بن مسعود صکہتے ہیں ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں،اس روئے زمین پر طویل المیعاد قید کا زبان سے زیادہ کوئی مستحق نہیں ۔‘‘(طبرانی)
    حضرت عبداللہ بن عباس صکہتے ہیں کہ ’’پانچ باتیں ایسی ہیں جو کالی دھاری کے ٹانگوں والے گھوڑوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔
    ٭بے مطلب کی باتیں نہ کرو کیوںکہ یہ فضول اور لغو ہے اور میں اس سے تمہارے گناہ میں پڑ جانے کے اندیشہ سے مطمئن نہیں ہوں۔
    ٭کام کی باتیں کرو تو اس وقت جب کہ اس کا موقع ہو،اس لیے کہ بہت سے لوگ ہیں جو بے موقع کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔یہ عیب ہے۔
    ٭بھی سمجھدار یا بے وقوف سے کج بحثی نہ کرو ۔اگر وہ سمجھدار ہے توتم سے ناراض ہوجائے گا اور نفرت کرنے لگے گا اور اگر بے وقوف اور جاہل ہے تو تمہیں نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائے گا۔
    ٭اپنے بھائی کی غیر حاضری میں ان الفاظ میں اس کا ذکر کرو جو تم خود اپنی موجودگی میں اس سے سننا چاہتے ہو اور اسے ان چیزوں سے بری قرار دو جن کے بارے میں تم چاہتے ہو کہ وہ تمہیں ان سے بری سمجھے۔
    ٭اس آدمی کاسا عمل کرو جو یہ سمجھتا ہے کہ احسان پر اسے نوازا جائے گا اور جرائم پر اس کی گرفت ہوگی۔
    کوئی مسلمان ان صفات کو اسی وقت پیدا کر سکتا ہے جب وہ اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہو اور اس کی نکیل اپنے ہاتھ میں رکھتا ہو ۔جہاں خاموشی ضروری ہو وہاں اس کی لگام کھینچ لے اور جہاں گفتگو کی ضرورت محسوس ہو وہاں اسے قابو میں رکھتے ہوئے چھوڑدے۔لیکن جن کے اوپر اُن کی زبانوں کی حکومت چلتی ہے وہ پیچھے کی طرف ڈھکیل دیے جاتے ہیںاور زندگی کے میدان میں انہیں ذلت و رسوائی نصیب ہوتی ہے۔
    ز خاموشی میں عافیت ہے :
    اول فول اور واہی تباہی بکنے سے عقل بھی جاتی رہتی ہے ۔جو لوگ مجلسوں میں اپنی باتوں سے تمام شرکاء پر چھاجانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی زبان سے گفتگو کی بارش ہوتی رہتی ہے ،ان میں سے اکثر اپنے عمل سے سامعین کو یہ یقین دلادیتے ہیں کہ ان کی باتوں کو کسی زندہ و ہوش مند شعور یا گہری فکر کا نتیجہ نہ قرار دیں بلکہ بسااوقات تو گمان ہونے لگتا ہے کہ اس طویل تقریر اور عقل ودرایت کے درمیان کوئی ادنیٰ ساتعلق بھی نہیں ہے۔
    آدمی جب اپنی حیثیت پر غور کرنا چاہتا ہے اور اپنے دین کو مرتب و یکجا کرنا چاہتا ہے تو ہنگامہ و غوغا کے ماحول سے بھاگ کر پر سکون یا خاموش فضا میں پناہ لیتا ہے۔اس لیے اگر اسلام خاموشی کی تلقین کرتا ہے اور اسے مہذب تربیت کا ایک بڑا وسیلہ تصور کرتا ہے تو مقام حیرت نہیں ہے۔
    رسول اکرم ا نے حضرت ابو ذر ص کو ایک نصیحت یہ بھی کی تھی کہ ’’خاموشی اختیار کرو ،یہ شیطان کو بھگانے کا ایک ذریعہ ہے اور تمہارے دین کے معاملہ میں تمہارا مددگار ہے۔‘‘ (احمد)
    بے شک زبان شیطان کے ہاتھ میں پڑی ہوئی رسی ہے جسے وہ جدھر چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔جب انسان اپنے معاملہ پر قابو نہیں رکھ پاتا ہے تو اس کا منہ ان تمام باتوں کی گزرگاہ بن جاتا ہے جو دل کو ملوث کردیتی ہیں اور اس کے اوپر غفلت کی چادریں چڑھادیتی ہیں۔
    اللہ کے رسول ا نے فرمایا: ’’کسی بندے کا ایمان سیدھا نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کا دل نہ سیدھا ہوجائے اور اس دل سیدھا نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی زبان درست نہ ہوجائے۔‘‘ (احمد)
    اسی راستی اور درستگی کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان غیر متعلق معاملات سے اپنا ہاتھ جھاڑ لے اور ان امور میں مداخلت نہ کرے جن کے بارے میں وہ جواب دہ نہیں ہے۔ ’’یہ آدمی کے حسن ایمان کی دلیل ہے کہ وہ لایعنی کاموں کو چھوڑدے۔‘‘ (ترمذی)
    ز لغو سے پرہیز کامیابی کی شرط ہے :
    لغو سے پرہیز کرنا کامیابی کی شرط اور کمالات کی دلیل ہے۔قرآن کریم نے اس کا تذکرہ ۲ محکم فرائض کے درمیان کیا ہے جس سے اس کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔
    قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤ مِنُوْنَ الَّذِ یْنَ ھُمْ فِیْ صَلوٰ تِھِم خٰشِعُوْنَ وَالَّذِ یْنَ ھُمْ عَنِ الَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْنَ (مومنون:۱،۴)
    ’’یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں،لغو بات سے دور رہتے ہیں اور زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں ۔‘‘
    اگر پوری دنیا کے انسان اپنے ان مشاغل کو شمار کریں جو وہ لغو قول و عمل میں لگاتے ہیں تو یہ نتیجہ سامنے آئے گا کہ پھیلی ہوئی داستانوں اور کہانیوں ،مشہور و معروف خبروں اور افسانوں ،تقریروں اور نشریات وغیرہ کا بیشتر حصہ لغو اور فضول چیزوں پر مشتمل ہے جن سے نگاہیں سینکی جاتی ہیں، جن کی طرف کان لگائے جاتے ہیں لیکن ان کا کوئی فائدہ سامنے نہیں آتا۔
    اسلام نے لغو سے اپنی کراہیت کا اظہار کیا ہے، اس لیے کہ سطحی اور بے فائدہ چیزیں اس کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتیں۔پھر جن چیزوں میں کوشش اور جد و جہد کرنے اور ان سے پیداوار حاصل کرنے کے لیے انسان کی تخلیق ہوئی ہے ان کو چھوڑ کر دوسرے کاموں میں اپنی عمر برباد کرنا بھی دراصل لغو ہے۔
    لغو سے ایک مسلمان جتنا دور ہوگا اللہ کے نزدیک اس کا درجہ اتنا ہی بلند ہوگا۔
    حضرت انس بن مالک صکہتے ہیں کہ’’ایک آدمی کا انتقال ہوگیا تو ایک دوسرے شخص نے رسول اللہ اکے سامنے اس کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: وہ جنت میں جائے گا ۔اللہ کے رسول ا نے ٹوکا ’’ تو کیا تمہیں علم ہے؟ ہوسکتا ہے کہ لایعنی گفتگوؤںمیں اس نے حصہ لیا ہو یا مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لیا ہو حالانکہ اس سے کوئی کمی نہیں ہوتی۔‘‘(ترمذی)
    لغو باتیں کرنے والا اپنی فکر اور گویائی کے کمزور رشتہ کی وجہ سے جو کچھ منہ میں آتا ہے بکتا چلا جاتا ہے۔بسا اوقات وہ ایک ایسی بات بھی کہہ جاتا ہے جس سے وہ خطرے میں پڑ جاتا ہے اور اپنا مستقبل تباہ کر لیتا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ’’جو جتنا زیادہ بولے گا اس سے اتنی ہی زیادہ غلطیاں سرزد ہوںگی ۔‘‘ ایک عربی شاعر نے کہا ہے :
    ’’جوان اپنی زبان کی لغزش سے مارا جاتا ہے ، حالانکہ پاؤں کے ٹھوکر سے آدمی کو موت نہیں آتی۔‘‘
    حدیث میں آتا ہے : ’’بندہ کوئی بات کہتا ہے تاکہ مجلس کو ہنسائے حالانکہ اس کی وجہ سے وہ آسمان و زمین کے درمیان بعید ترین علاقے میں پھینک دیا جاتا ہے ۔آدمی کے قدموں سے جو لغزش ہوتی ہے وہ زبان کی لغزش کی خطرناکیوں سے کہیں کم ہوتی ہے۔‘‘ (بیہقی)
    ز سخن دل نواز……داعی کا رخت سفر :
    جب آدمی بات کہے تو اچھی اور بھلی بات کہے اور اپنی زبان کو خوبصورت اور باوقار گفتگو کا عادی بنائے، اس لیے کہ دل میں اٹھنے والے خیالات کی بہترین تعبیر ادبِ عالیہ ہے جس سے اللہ نے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو نوازاہے۔قرآن نے وضاحت سے کہا ہے کہ: حضرت موسیٰ ںکے زمانے میں بنی اسرائیل سے جو عہد لیا گیا تھا اس میں ایک یہ بھی تھا کہ وہ اچھی اور بھلی بات کہیں۔
    وَ اِذْ اَخَذْ ناَ مِیْثاَقَ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ لاَ تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللَّہَ وَ بِالْواَ لِدَیْنِ اِحْسَا ناً وَّ ذِیْ الْقُرْ بٰی وَالْیَتٰمیٰ وَالْمَساَ کِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْناً وَّ اَقِیْمُوْا الصَّلوٰۃَ وَ آ تُوْا الزَّکوٰ ۃَ۔
    ’’اور یاد کرو اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا ،ماں باپ کے ساتھ ،رشتہ داروں کے ساتھ ،یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا ،لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اورزکوٰۃ دینا۔‘‘ (البقرہ:۸۳)
    پاکیزہ اور عمدہ گفتگو دوستوں اور دشمنوں سب پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کے میٹھے پھل ظاہر ہوتے ہیں اور یہ دوستوں کے درمیان محبت کی حفاظت اور ا ن کی دوستی کو مستحکم اور پائیدار کرتی ہے اور شیطان کی تمام چالوں کو ناکام بنا دیتی ہے کہ وہ ان کے رشتے کمزور کر سکے اور ان کے درمیان فتنہ و فساد ڈال سکے۔
    وَ قُلْ لِّعِباَدِیَ یَقُوْلُوْا الَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ الشَّیْطاَنَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ اِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلْاِ نْساَنِ عَدُوَّا مُّبِیْناً (بنی اسرائیل:۵۳)
    ’’اور اے بنی ا! میرے بندوں سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو۔ دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ۔ ‘‘
    شیطان انسانو ںکی گھات میں لگا رہتا ہے ۔ ان کے درمیان عداوت اور کینہ و بغض کی تخم ریزی کی کوشش کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ آپس کے معمولی سے جھگڑے کو خونریز معرکہ میں تبدیل کردے اور خوبصورت اور عمدہ بات کے ذریعہ اس کا راستہ نہ روکا جا سکے۔
    دشمنوں کے ساتھ دلنواز گفتگو کیجیے تو اُن کی دشمنی بجھ جاتی ہے اور ان کا غصہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے یا کم از کم دشمنی اور شر انگیزی کے اسلوب میں نمایا ں فرق ہوجاتا ہے۔
    وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ۔ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہُ عَداَوَۃٌ کَاَنَّہُ وَلیٌِّ حَمِیْمٌ (حٰم السجدہ :۳۴)
    ’’اور نیکی او ربدی یکساں نہیں ہیں۔تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔تم دیکھو گے جس کے ساتھ تمہاری عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔‘‘
    ہر حالت میں لوگوں کو حسن تعبیر کا عادی بنا نے کے لیے اللہ کے رسول ا فرماتے ہیں:
    ’’تم اپنے مال کے ذریعہ لوگوں پر حاوی نہیں ہو سکو گے بلکہ خوش روی اور حسن اخلاق سے ان کے دلوں کو جیت سکتے ہو۔‘‘ (البزار)
    اسلام کی نگاہ میں حسن اخلاق اور ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی کو نہ دینا اس سے کہیں بہتر ہے کہ عطیات دیے جائیں لیکن چھچھورے پن کا ثبوت دیا جائے اور اس کو تکلیف پہنچائی جائے۔
    قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُھاَ اَذیً وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ (البقرہ:۲۶۳)
    ’’ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو۔اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے۔‘‘
    عمدہ گفتگو ایک ایسی خصلت ہے جو نیکیوں اور فضائل میں شمار ہوتی ہے اور اس کو اختیار کرنے والا اللہ کی خوشنودی کا مستحق ٹھہرتا ہے اور اس کے لیے ہمیشگی کی نعمت لکھ دی جاتی ہے۔
    حضرت انس صروایت کرتے ہیں کہ’’ ایک آدمی نے نبی اسے کہا : مجھے کوئی ایسا عمل سکھا دیجیے جو مجھے جنت میں داخل کر سکے۔آپ ا نے فرمایا ’’مسکینوں کو کھانا کھلاؤ،سلام کو رواج دو،رات کو جب لوگ نیند کے مزے لے رہے ہوں تو تم نمازیں پڑھو تو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
    اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم دوسرے کے مذہب کے پیروکاروں سے بحث کریں تو شریفانہ اور سنجیدہ انداز بحث کو ملحوظ رکھیں۔اس میں شدت ہو نہ غیض و غضب ،البتہ جو ہمارے اوپر ظلم کریں تو ان کی سرکشی کو توڑنا اور ان کے ظلم و عدوان کو روکنا ضروری ہے۔
    وَلَا تُجَادِلُوْا اَہْلَ الْکِتَابِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ (العنکبوت: ۴۶) ’’اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے سوائے ان لوگوں کے جو اُ ن میں ظالم ہوں۔‘‘
    بڑے آدمی اپنے تمام حالات میں اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کے منہ سے کوئی زائد اور بیکار لفظ نہ نکل جائے۔
    ز جواب جاہلاں باشدخموشی :
    کچھ لوگ زندگی بھر ترش رو،تند مزاج اور فحش گو رہتے ہیں ۔ان کا ایمان و یقین ان برائیوں پر ذرہ برابر نہیں کڑھتا، نہ ان کا اخلاق اس پر انہیں ملامت کرتا ہے۔دوسروں سے ایسی باتیں کہنے میں انہیں کوئی باک نہیں ہوتا جو انہیں نا پسند ہو ں،جب انہیں اپنی بد خو طبیعت کی جولانی دکھانے کے لیے کوئی میدان میسر آجاتا ہے تو وہ بگٹٹ گھوڑے کی طرح فحش اور بے ہودہ باتوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں ۔کوئی چیخ ان کو متاثر نہیں کرتی، نہ کوئی آواز انہیں متنبہ ہونے دیتی ہے۔
    حضرت عائشہ ص کہتی ہیں ایک آدمی نے اللہ کے رسول ا سے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ ا نے کہا ’’اپنے خاندان کا کیا ہی برا شخص ہے یہ!‘‘جب وہ اندر آیا تو کھِل اٹھے اور اس سے بڑی نرمی سے بات کی۔ اس کے واپس چلے جانے کے بعد میں نے پوچھا’’اے اللہ کے رسول ا! آپؐ نے اس آدمی کو اس طرح کی باتیں کہتے ہوئے سنا پھر بھی آپ ا کے چہرے پر کوئی شکن نہ آئی بلکہ اس سے خوش روی سے ملے؟‘‘ تو آپ ا نے فرمایا’’اے عائشہؓ!تم نے مجھے کب فحش گو پایا ہے؟قیامت کے دن سب سے بدتر آدمی اللہ کے نزدیک وہ شخص ہوگا جس سے لوگوں نے اس کے فحش کی وجہ سے بچنے کے لیے ملنا جلنا چھوڑ دیا ہو۔‘‘ (بخاری)
    وَ عِباَدُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلٰی الْاَرْضِ ھَوْناً وَّاِذاَ خَاطَبَھُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْا سَلَاماً (الفرقان:۶۳) ’’رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔‘‘
    انسان ایک بار، دو بار غصہ پی جاتا ہے لیکن پھر پھٹ پڑتا ہے۔حالاں کہ ایک با اخلاق مسلمان سے اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ تکلیفوں کو برداشت کرے تاکہ بالآخر شر کو اپنے موقف پر جمنے کا موقع نہ مل سکے۔
    حضرت سعید بن مسیبص کہتے ہیں کہ ’’اس اثنا میںکہ رسول اللہ ا اپنے ساتھیوں میں بیٹھے ہوئے تھے ،ایک آدمی نے حضرت ابو بکر ص کو برا بھلا کہا اور انہیں دل آزار بات کہہ دی لیکن ابو بکر ؓ خاموش رہے۔ اس نے دوبارہ انہیں تکلیف دہ بات کہی ،ابو بکر ص دوبارہ خاموش رہے۔ پھر تیسری بار جب اس نے انہیں تکلیف پہنچائی تو انہوں نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی۔ اللہ کے رسول ا اٹھ کھڑے ہوئے ۔ابو بکرؓ نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ا مجھ سے ناراض ہوگئے ہیں ؟ آپ ا نے فرمایانہیں!بلکہ آسمان سے ایک فرشتہ نازل ہوا تھا جو اس کی باتوں کو جھٹلا رہاتھا لیکن جب تم نے جواب دینا شروع کیا تو فرشتہ چلا گیا ،شیطان بیٹھ گیا اور میں وہاں نہیں بیٹھ سکتا جہاں شیطان بیٹھا ہو۔‘‘(ابو ادؤد)
    سفہا اور کم عقل لوگوں کی تعظیم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوا کہ ان کی پست اور سطحی حرکتوں کو بھی تسلیم کرلیا جائے، ان دونوں صورتوں میں بڑا عظیم فرق ہے۔
    پہلی چیز کا مطلب یہ ہے کہ جہالت و سفاہت کے سامنے آدمی اپنے نفس پر قابو رکھے اور اسے اس بات کا موقع نہ دے کہ وہ اصل فطرت جو غصہ اور غضب کی حامل ہے ،کو ظاہر کر سکے اور انتقام لینے پر تل جائے۔جب کہ دوسرا پہلو بالکل ہی مخالف مفہوم رکھتا ہے ۔ا س میں نفس کو حماقت اور ذلت و رسوائی کے حوالے کرنا ہے اور ان پست چیزوں کو قبول کرنا ہے جنہیں کوئی عاقل اور شریف آدمی قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔
    قرآن کریم نے کم عقلوں کی تعظیم اور پست اور سطحی حرکتوں سے نفرت و کراہیت کا اظہار اس طرح کیا ہے: ’’اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے، اِلا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو۔ اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے(مظلوم ہونے کی صورت میں گرچہ تم کو بدگوئی کا حق ہے)لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جاؤ،یا کم از کم برائی سے در گزر کرو تو اللہ کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے ،حالانکہ سزا دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔‘‘ (النساء : ۱۴۸،۱۴۹)