bisat e nabvi 870

بعثت نبوی ﷺ اور مذاہب عالم. حافظ محمد جمیل (ریسرچ سکالر دارالعلوم جامعہ نعیمیہ، اسلام آباد)

بعثت نبوی ﷺ اور مذاہب عالم
حافظ محمد جمیل (ریسرچ سکالر دارالعلوم جامعہ نعیمیہ، اسلام آباد)
اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد اولاد آدم کی راہنمائی کے لئے ان ہی میں سے برگزیدہ بندوں کو منتخب فرماتا رہا ۔ ان میں سے بعض کو اپنی مقدس کتابیں بھی عطا فرمائی تاکہ وہ اس کی روشنی میں اللہ تعالی کی مخلوق کی راہنمائی کر سکیں۔ اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہا اور کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرز تشریف لائے ۔لیکن ایسی قومیں بھی آئیں جنہوں نے ان برگزیدہ بندو ں کو قتل کیا جسے قرآن نے یقتلون الانبیاء بغیر حق
سے بیان کیا ہے اور کچھ ایسے بھی تھےکہ جنہوں نے ان کو عطا ہونے والی مقدس کتابوں کو نیست و نابود یا ان میں ردو بدل کی کوششیں کیں۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دونوں کو ہی گم کر بیٹھے۔اب وہ کسی نئے آنے والے نبی کے منتظر تھے ‘ان کی راہ تک رہے تھے مگر ہدایت کے لیے آئے برگزیدہ بندوں اور مقدس صحیفوں سے دوری اور لا تعلقی کی وجہ سے وہ ان کو صحیح طور پر پہچان نہ پائے ۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے
بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
(انہیں بھی) واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ (بھیجا تھا)، اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں۔
سورہ ال عمران میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا
وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْاْ بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ
اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ وعدہ لیا جنہیں کتاب عطا کی گئی تھی کہ تم ضرور اسے لوگوں سے صاف صاف بیان کرو گے اور (جو کچھ اس میں بیان ہوا ہے) اسے نہیں چھپاؤ گے تو انہوں نے اس عہد کو پسِ پشت ڈال دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت وصول کر لی، سو یہ ان کی بہت ہی بُری خریداری ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں امام طبری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں عہدو میثاق کا ذکر ہے ۔وہ یہ ہے کہ آدم علیہ السلام سے لے کر مسیح علیہ السلام تک جتنے بھی پیغمبر گزرے ، خدا نے ہر ایک سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق اور تائید کا پختہ قول و قرار لیا ۔ اس لیےسب پیغمبروں نے اپنے اپنے زمانے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیش گوئیاں فرمائی اور اپنی امتوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عالم میں تشریف آوری کی بشارتیں دیں۔ اس آیت میں اہل کتاب کو تنبیہ کے کے مخاطب کیا جا رہا ہے کہ ان سے اللہ سبحانہ و تعالی نے عہد لیا ہے کہ کتاب الہی میں جو باتیں درج ہیں اور آخری نبی کی جو صفات ہیں انہیں لوگوں کے سامنے بیان کریں گے اور انہیں چھپائیں گے نہیں۔ لیکن انہوں نے دنیا کےتھوڑت مفادات کی خاطر اس عہد کو پس پشت ڈال دیا۔
دنیا کے اندر مذاہب کی تعداد بہت زیادہ ہے حتی کی کچھ مغربین محققین نے 9000 تک بیان کی ہے لیکن میں نے پانچ بڑے اور پرانے مذاہب کا انتخاب کیا ہے جو آنے والے نبی کی راہ تک رہے ہیں،ان میں دو الہامی مذاہب (یہودیت اور عیسائیت) اور تین غیر الہامی مذاہب ( ہندومت، بدھ مت اور مجوسیت ) ہیں۔
یہ سوال کیا جا سکتاہے کہ مسلمان تو ایک جانب ان کتب ادیان کو تحریف شدہ بتاتے ہیں
اور دوسری طرف ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت بشارتیں اور پیش گوئیاں نکالتے
ہیں او ر گواہی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔اس صورت میں اگر یہ کتب تحریف شدہ ہیں تو
گواہی حقیقت پر مبنی نہیں اور اگر گواہی صحیح ہے تو پھر ان کتب کے محرف ہونے کا دعوی
غلط اور بے بنیاد ہے۔ اس کے جواب میں اتنا بیان کیا جاتا ہے کہ کتاب مقدس اور دیگر مذہبی
صحائف سےجو پیش گوئیاں اور بشارتیں بطور گواہی پیش کی جاتی ہیں وہ مسلمانوں کے حق میں
اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے نہیں بلکہ غیر مسلموں پر اس بات کوواضح کرنے کے لئے
پیش کی جاتی ہے کہ جب تمہارے کتب سے اسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی حقانیت
ثابت ہو جاتی ہے تو پھر اسلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے دل سے تسلیم کرنے میں کونسا
امر مانع ہے ؟
ہندومت اور بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کی گواہی
ہندومت یا ہندویت علماء تقابل ادیان کے نزدیک ان معنوں میں کوئی مذہب نہیں،جن معنوں میں عموما یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ ان کے ہاں مختلف طبقے اور گروہ ہیں جن کے عقائد ، شعائر ،عبادات اور کتب دینیہ بھی ایک دوسرے سے مختلف اور جدا جدا ہیں ، وہ سب ہندو کہلاتے ہیں۔اور ان کی ایک بڑی اکثریت نے ان کتابوں کو اپنے دین کی اساس و بنیاد کے طور پر تسلیم کر لیا ہے ۔ یہ کتابیں تین طرح ہیں۔چار وید ، بھگویت گیتا اور منوسمرتی علاوہ ازیں اصنام پرستی اور عقیدہ تناسخ پر ان کے جملہ مذہبی اور معاشرتی اداروں کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ مورتی پوجا ،مندر اور اوتار کا عقیدہ ہندومت کی جان قرار دیے جاتے ہیں۔ ہندومت میں اہم بات یہ ہے کہ اس کا کوئی بانی نہیں ہے جس نے کوئی بنیادی پیغام دیا ہو ۔ زرتشت، حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہندومت میں کوئی پیغمبر نہیں گزرا ہے۔ جان کلارک آرچر کے مطابق ہندووں نے ہاں کنفیوشس کی طرح کا بھی کوئی شخص نہیں ہے جو طویل موروثی روایات کو پوری طرح مرتب کر دینے والا ہو حتی کہ ان کے یہاں ایسی شخصیتیں بھی نہیں ہیں جیسے جینوں کے ہاں مہاویر ، بدھوں کے ہاں گوتم اور سکھوں کے ہاں گرونانک صاحب ہیں۔ ایک مفہوم میں ہندومت کا بانی ایک انبوہ ہے جس کی شخصیت تاریکی میں ہے ۔ اس لئے کسی ایک پیغمبر کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہاں دیوتاوں نے جنم لیا جن کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں سےمتجاوز ہے ۔ البیرونی نے کتاب الہند میں ان کی تعداد 33 کروڑ بتائی ہے ۔ حالانکہ اس زمانے میں کل ہندوستان کی آبادی شائد ہی 33 کروڑ ہو لیکن موجودہ دور میں ایک دیوتا کے حصے میں کم سے کم دو ہندو ضرور پڑتے ہیں ۔ اس لئے ان بے شمار ابہامات اور دیو مالائی تصورات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم مختصر طور پر کہہ سکتے ہیں ہندومت کی تخلیق میں بے شمار افراد، قوموں ،تہذیبوں اور مذاہب کا ہا تھ ہے ۔ جس کا سلسلہ موہنجودڑو اور ہڑپہ کے دور سے آگے نکلتاہے ۔ مسٹر گودنداس اپنی کتاب “ہندوازم ” میں لکھتے ہیں
ہندومت دراصل علم الانسان سے متعلق ہے جسے بد قسمتی سے مذہب کا نام دیا گیا ہے۔ ویدوں سےشروع ہو کر اورچند ایک قبائل کے رسم و رواج کو اپنے آغوش میں لے کر یہ آگے بڑھا اور ایک برف کے گولے کی طرح مختلف زمانوں میں لڑھکتے لڑھکتے اپنے حجم میں بڑھتا چلا گیا اور جس جس قوم اور قبیلہ سے یہ متمسک ہوا اس کے رسوم اور تخیلات کو اپنے اندر جذب کرتا گیا۔ حتی کہ اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہا ہے اور ہر ایک کو (اپنی اپنی جگہ ) مطمئن رکھنے والا اور ہر ایک کے ارشاد کی تعمیل کرنے والا واقعہ ہو ا ہے
اس لئے وہ دنیا جہاں کے مختلف و متضاد مذہبی خیالات و اعمال کا مرکب بن گیا ہے ۔اس وقت اس کےتقریبا پچانوے فیصد پیروکار ہندوستان، نیپال اور بھوٹان میں آباد ہیں جبکہ چار فیصد پاکستان، کشمیر ، بنگلہ دیش اور بقیہ ایک فیصد جنوب مشرقی ایشیا کے مختلف ممالک میں بستے ہیں۔
ویدوں میں انبیاء کرام کے تذکرہ کے بارے میں ڈاکٹر حمید اللہ کی تحقیق بھی کافی قابل توجہ ہے جو انہوں نے اپنی کتاب “ؐمحمد رسول اللہ” میں درج کیا ہے۔
“قرآن حکیم میں براہ راست ہندوستانی برہمنیت کا ذکر آیا ہے در حقیقت پیغمبر اسلام کے ظہو ر کے وقت ہندومت اور ا س کے مد مقابل مذہب بدھ مت کے درمیان موت و حیات کی کشمکش جاری تھی ۔ پیغمبر خدا ہندوستانیوں کو ضرور جانتے تھے ۔ مگر یہ کہنا کہ وہ ہندوستانیوں کے مذہب کے بارے میں بھی کچھ جانتے تھے۔
قرآن حکیم میں یہودیوں کے طلائی بچھڑے کی جو داستان بیان کی گئی ہے اس کے مطابق اس گوسا لہ کا خالق سامری نام کا ایک زرگر تھا (بائبل کا یہ کہنا کہ اس گوسالہ کا خالق حضرت موسی علیہ السلام کا بھائی ہارون علیہ السلام تھا درست نہیں) اس ضمن میں چھوت چھات کا ذکر بھی آتا ہے ۔(قرآن 97-85/20 ) یہ دونوں (گاوں پوجا اور چھوت چھات ) برہمنیت کے خواص ہیں ۔سامری ان کے سرداروں کا ایک گروہ ہیں ۔اگرچہ گاؤں پوجا ان کی نمایاں خصوصیت ہے تو دوسرے مذاہب کے لوگوں سے چھوت چھات کا غیر انسانی تصور بھی ان ہی کا حصہ ہے ۔پھر قرآن زبور الاولین کا بھی ذکر کرتا ہے (182/26 ) یہ بات کو سب کو معلوم ہے کہ ہندو برہمنوں کی متعدد مذہبی کتب ہیں وہ ان سب کو الہامی تصور کرتے ہیں ان میں پران بھی شامل ہے ۔پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ہندوستانی رام کی چند کی کہانیوں میں حیرت انگیز مماثلت ہے ۔”
اب ہندوؤں کی کتب مقدسہ سے ان بشارتوں کو نقل کرتے ہیں جن میں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور نبوت کی گواہی دی گئی ہے ۔
1۔ وہ تمام علوم کا سر چشمہ “احمد ” عظیم ترین شخصیت ہے ۔ یہ روشن سورج کی مانند اندھیروں کو دور بھگانے والا ہے ۔ اس سراج منیر کو جان لینے کے بعد ہی موت کو جیتا جا سکتا ہے ۔نجات کا اور کوئی راستہ نہیں ہے “۔ (یجروید : 31-18 )
“احمد سے سب سے پہلی قربانی دی اور سورج جیسا ہو گیا “۔ (رگ وید 8-6- 1079 )
(قرآن مجید میں بھی آ پ کو سراجا منیرا کہا گیا )
2۔ اس دوران اپنے پیروں کےساتھ “محمد” نامی مقدس ملیچھ (غیر آریہ نسل کے باشندے کو کہا جاتا تھا ) وہاں آئیں گے ۔۔۔ راجا بھوج ان سے کہے گا ا ے ریگستان کے باشندے !شیطان کو شکست دینے والے ، معجزوں کے مالک ، برائیوں سے پاک و صاف ، برحق باخبر اور خدا کی عشق و معرفت کی تصویر تمہیں نمسکار ہے ۔ تم مجھے اپنی پناہ میں آیا غلام سمجھو ۔”
یہ اشلوک بھوشیہ پر ان کے پرتی سک پرو ‘ تیسرے کھنڈا اور تیسرے ادھیائے کے نمبر 5 سے16 تک اشلوک ہیں۔ یہاں “محمد ” کی جگہ اصل سنسکرت میں محامہ کا لفظ استعمال ہو ا ہے ۔
3۔ ویدوں میں جہاں کہیں بھی نبی آخر الزمان کا ذکر ” محمد ” کی حیثیت سے آیا ہے ۔ وہاں ویدوں میں نراشنس کا لفظ استعمال ہو اہے ۔ جسے تورات اور انجیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے فارقلیط کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ جس کے معنی “قابل تعریف کے ہیں۔ یہی معنی عربی میں لفظ “محمد” کے ہیں اس طرح ویدوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نراشنس کہہ کر پکارا گیا ہے جس کے ٹھیک معنی ہیں “قابل تعریف”
لوگوں سنو! نراشنس (محمد) کی لوگوں کے درمیان انتہائی تعریف کی جائے گی ۔ (اتھر وید ۔12720-1 )
اے محمد ! میٹھی زبان والے قربانیاں دینے والے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کو وسیلہ بناتا ہوں ( رک وید 1/13/3 )
میں نے محمد کو دیکھا ہے ۔ سب سے زیادہ اولوالعزم اور سب سے زیادہ مشہور جیسا کہ وہ جنت میں ہر ایک کے پیغمبر تھےتھے ۔ (رگ وید 1/18/9 )
رگ وید میں سولہ جگہ آپ کا نراشنس (محمد) نام سے ذکر ہے ۔ اس طرح یجروید میں دس جگہ ،اتھر وید میں چار مرتبہ اور سام وید میں ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی آیا ہے ۔ اس طرح چاروں ویدوں میں کل ملا کر 31 جگہ نراشنس ( حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نام سے آپ کا ذکر آیا ہے ۔
4۔ اے لوگو سنو! حضرت محمد (نراشنس) کو لوگوں کے درمیان مبعوث کیا جائےگا۔ اس مہاجر کو ہم ساٹھ ہزار اور نوے دشمنوں سے پناہ میں لیں گے ۔ جس کے ساتھ بیس اونت ہو ں گے اس کی سواری اونٹ ہو گی ۔ جس کی عظمت آسمانوں کو بھی جھکا دے گی ۔ اس عظیم رشی کو سو سونے کے سکے ، دس مالائیں، تین سو عربی گھوڑے اور دس ہزار گائیں عطا کی گئیں ہیں ( اتھر وید / کندہ 20 سکتہ 127 منتر 3،2،1،)
مندرجہ بالا تین منتروں کے ترجمے پر پنڈت وید پر کاش اپا دھیانے اپنی کتاب نراشنس اور انتم رشی میں کئی باب لکھے ہیں۔ جن میں ثابت کیا گیا کہ تمثیلی زبان میں سو دینار سے مراد سو(100 )ا صحاب صفہ مراد ہیں ، دس مالاوں سے مراد دس عشرہ مبشرہ ، تین سو گھو ڑوں سے مراد جنگ بدر کے تین سو تیرہ مجاہدین ، دس ہزار گائیوں سے مراد دس ہزار کا وہ لشکر مراد ہے جو فتح مکہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمر کاب تھا ۔
یہ ساری خوبیاں اور نشانیان صرف محمد رسول اللہ کی سیرت مبارکہ میں ملتی ہیں ۔ یہ نشانیاں اسی ترتیب کےساتھ ہیں جیسی کہ بعد کو تاریخی وجو د میں آئی ۔ دنیا کے کسی رشی یا پیغمبر کے ساتھ بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کی تطبیق نہیں کی جا سکتی ۔
آخر میں رگ وید کے منتر 1-163-1 کا حوالی ضرو ر دوں کا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے “سمدرادوت عربن ” کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ ڈکشنری نالندہ شبدساگر کے مطابق “س ” کے معنی ” ساتھ ” “مدرا ” کے معنی “مہر ” اور “عرب” کے معنی ملک عرب کے ہیں ۔جبکہ “ن” سنسکرت میں اکثرت زائد ہوتاہے ۔ اس طرح “سمدرادوت عربن” کے معنی ہوئے ” مہر کے ساتھ عرب والا” عربی لفظ خاتم کے معنی بھی مہر کے ہیں ۔ آپ کو “خاتم النبین ” اس لئے کہا گیا ہے کہ نبیوں کے سلسلہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر مہر لگا کر نئی نبوت کا دروازہ بند کر دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدجو نبوت کا دعویدار ہو گا وہ جھوٹا ہو گا اور کذاب ہو گا۔ جس کی گواہی قرآن کے علاوہ دیگر الہامی کتابوں کی بشارتوں سے بھی ثابت ہوتی ہے ۔
مجوسیت اور بعثت نبوی ﷺپر اس کی گواہی
زرتشی مذہب کے پیروکاروں کو اہل عرب مجوسی کے نام سے پکارتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے کسرٰی ایران کے نام جو نامہ مبارکہ ارسال کیا تھا ۔ اس میں آ پ ﷺ نے لکھا تھا “اگر تو انکار کرے گا تو تمام مجوسیوں کا وبال تجھی پر پڑے گا” تاہم مجوسیوں کے علاوہ انھیں زرتشی بھی کہا جاتا ہے ۔جبکہ برصغیر پاک و ہند میں انھیں پارسی کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ زرتشت اس مذہب کے بانی اور “ژنداوستا” اس مذہب کی مقدس کتاب جانی جاتی ہے ۔
زرتشی کتاب “یاسنا” کے مطابق خیر و شر کی باہمی کشمکش جو روز اول ہی سے شروع ہو گئی ہے ۔ اس میں مصالحت کا کوئی امکا ن نہیں ۔ اس جنگ کا خاتمہ صرف کسی ایک جماعت کے نیست و نابود ہو جانے پر ہی ہو گا۔ روح القدس کی قیادت میں خیر کی جماعت کی یہ پوری کوشش ہے کہ شر نیست و نابود ہو جائے جبکہ شر کی جماعتیں ہر لمحہ خیر کو مٹانے پر تلی رہتی ہیں۔ یہ دونوں قیامت تک اسی طرح بر سر پیکار رہیں گی ‘ یہاں تک کہ ایک بت شکن “سوشیانت”(سب پر رحم کرنے والا) آئے گا۔ جو استوات اریات یعنی لوگوں کو پستی سے بلندی پر پہنچانے والا وہ ہوگا (یشت 13 –129 )جس کی معاونت سے خیر کی جماعت پر مکمل غلبہ حاصل کر لے گی اور کائنات سے شر نیست و نابود ہو جائےگا۔ اب یہ “سوشیانت ” آپ ﷺ کے علاوہ اور کون سی ہستی ہو سکتی ہے ۔ سورہ انبیاء میں ارشاد ہے
ہم نے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔ حق آنے اور باطل کے مٹ جانے پر سورہ بنی اسرائیل آیت 81 کی تائید ہے
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
اور فرما دیجئے: حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بیشک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہے
لیکن سب سے بڑی واضح گواہی دستاتیر 14 میں ہے ۔اس میں نہ صرف اسلام کے عقائد اور تعلیمات کی تصدیق ہے بلکہ آپ ﷺ کی بعثت کے بارے میں واضح ارشاد ہے
“جب ایرانی اخلاقی اعتبار سے زوال کا شکار ہو ں گے ۔ ایک انسان عرب میں پیدا ہو گا ۔ جن کے پیروکار ایرانیوں کی سلطنت ‘ مذہب ‘عرض ہر چیز کو تہہ و بالا کر دیں گے ،ایران کے سرکش زیر کر لیے جائیں گے ۔ وہ گھر جو بنایا گیا تھا (خانہ کعبہ کی طرف اشارہ ہے ) اورجس میں بہت سے بت رکھ دیے گئے ہیں ۔ بتوں سے پاک کر دیا جائے گا اور لوگ اپنی نمازیں اس طرف رخ کر کے پڑھیں گے ان کے پیروگار ایرانیوں کے بڑے بڑے شہروں طوس اور بلخ اور اردگرد کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیں گے ۔ لوگ ایک دوسرے سے گھل مل جائیں گے ۔ایران کے عقلمندلوگ اور دوسرے ان کے پیروکاروں کے ساتھ مل جائیں گے ۔(9:9)
یہ گواہی اس کتاب کی ہے جو ہمیشہ پارسیوں کے پاس رہی ہے اور یہ وہ پیش گوہی ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسر ی شخصیت پر لاگو نہیں ہو سکتی اور اسلام کی ابتدائی تاریخ لفظ بہ لفظ اس کی تصدیق کر رہی ہے۔
یہودیت اور بعثت نبوی ﷺ پر اس کی گواہی
یہودی حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہیں جن کو اسرائیل کے لقب سے نوازا گیا اور ان کی آل کو بنی اسرائیل کہا گیا لیکن تمام بنی اسرائیل یہودی نہیں ۔ اس لئے قرآن جہاں بنی اسرائیل کو مخاطب کرتا ہے تو وہاں بنی اسرائیل کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور جہاں یہود مذہب کے پیروکاروں کو مخاطب کرتا ہے تو ان کو الذین ھادو یعنی اے وہ لوگ جو یہودی بن کر رہ گئے ہو۔ کیونکہ یہودی مذہب میں بنی اسرائیل کے علاوہ غیر اسرائیلی بھی شامل ہیں۔
یہودی عقائد ااور عبادات کو اگر دیکھا جائے تو اس میں اور اسلام میں ایک حد تک مماثلت نظر آتی ہے ۔ مگر یہود نےمقدس کتاب تورات میں تحریف کے ساتھ ساتھ اپنے عقائد و عبادات میں بھی اس قدر تحریف کر لی ہے کہ ان کی اصل شکل کافی حد تک مسخ ہو چکی ہے ۔یہودیوں نے کتاب مقدس میں جہاں جہاں تحریف کی ہے۔قرآن نے جگہ بہ جگہ اس کی نشاندہی کی ہے بلکہ تقریبا قرآن کا چوتھا ئی حصہ بنی اسرائیل اور یہود کے واقعات ، تاریخ ، عادات و خصائل نیز ان کا اجتماعی ارتداد اور مفسدانہ ذہنیت کے بیان پر مشتمل ہے اور ان کی جملہ بداعمالیوں اور فریب کاریوں کا پردہ اس نے چاک کیا ہے
تورات میں تحریف کے حوالے سے قرآن کریم بتاتا ہے کہ چند ٹکوں کی خاطر یہود نے اس میں تحریف اور ردوبدل کیا ہو ا ہے ۔ خود عہد نبوی میں جب انہوں نے زنا کا ایک مقدمہ قصدا آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ ﷺ نے مدینہ الیہود کے درمیان تورات کا جو بڑا عالم تھاجس کا نام “ابن صوریا جوخود” تھا اس کو قسم دے کر پوچھا کہ تورات میں شادی شدہ زانی کے لئے سنگساری کی سز ا ہے یا نہیں؟ تو اس نے مجبورا اقرار کیا حالانکہ دیگر یہودی اس کے منکرتھے ۔ سورہ البقرہ میں ارشاد ہے۔
فَوَيْلٌ لِّـلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـذَا مِنْ عِندِ اللّهِ لِيَشْـتَرُواْ بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً فَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُونَ
پس ایسے لوگوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو اپنے ہی ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑے سے دام کما لیں، سو ان کے لئے اس (کتاب کی وجہ) سے ہلاکت ہے جو ان کے ہاتھوں نے تحریر کی اور اس (معاوضہ کی وجہ) سے تباہی ہے جو وہ کما رہے ہیں
اس لئے وہ قرآن اور مسلمان دونوں کے شدید مخالف ہیں۔ خود قرآن پاک نے ان کی شدید دشمنی پر گواہی دی ہے ۔ سورہ المائدہ میں ارشاد ہے
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُواْ
آپ یقیناً ایمان والوں کے حق میں بلحاظِ عداوت سب لوگوں سے زیادہ سخت یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے،
قرآن حکیم کے مطابق یہود انتہائی متعصب واقع ہو ئے ہیں۔ نسلی تفاخر میں یہ ا س قدر مبتلا ہیں کہ آپ ﷺ کو تورات کی صریح نشانیوں میں پہچاننے کے باوجود صرف نسلی تفاخر کی وجہ سے وہ آپ ﷺ پر ایمان نہیں لائے کیونکہ وہ کتاب اور نبوت صرف بنی اسرائیل میں دکھنا چاہتے تھے۔ حالانکہ وہ آپ ﷺ کی آمد سے قبل آپ ﷺ کی آمد کے منتظر تھے ۔پورے حجاز میں ان کی ہی آواز پر عوام میں حضور ﷺ کی آمد کا چرچا تھا ۔ ان کی ہی بتائی ہوئی علامتوں کی وجہ سے انصار مدینہ نے ایمان لانے میں پہل کی۔ اور یہود اپنی نسلی تعصب کی وجہ سے پھر آنے والے نبی کی میلاد پڑھنے لگے
سورہ البقرہ میں ان کی حالت یوں بیان کی گئی ہے ۔
وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُواْ مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُواْ فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَّا عَرَفُواْ كَفَرُواْ بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب (قرآن) آئی جو اس کتاب (تورات) کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس موجود تھی، حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان پر اترنے والی کتاب قرآن کے وسیلے سے) کافروں پر فتح یابی (کی دعا) مانگتے تھے، سو جب ان کے پاس وہی نبی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب قرآن کے ساتھ) تشریف لے آیا جسے وہ (پہلے ہی سے) پہچانتے تھے تو اسی کے منکر ہو گئے، پس (ایسے دانستہ) انکار کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے
جو بشارتیں آپ ﷺ کے متعلق ان کی کتب میں درج ہیں ان کو کسی بھی طرح سے جھٹلانا ان کے بس میں نہیں ہے اگر وہ ان بشارتوں کو جھٹلائیں گے تو در حقیقت وہ اس مقدس کتاب کو جھٹلا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ایک نجات دہندہ کے منتظر ہیں اب ان بشارتوں کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ جو آپ ﷺ کی نبوت پر کتاب مقدس کی نا قابل تردید گواہی ہے
1۔حضرت موسی علیہ السلام نے کوہ طور پر خداوند کی باتیں سنیں اور فرما یا گیا: خداوند تیرا خدا تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میر ی مانند ایک نبی برپا کرے گا ۔ مین ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانندایک نبی برپا کروں گا۔اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا اور جو کوئ میر ی ان باتوں کوجن کووہ میرا نام لے کر کہے گا ، نہ سنے گا تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا لیکن جو نبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اس کو حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کچھ کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے (کتاب مقدس ص 184 “عہد نامہ قدیم ” کتاب استثناء ، باب 18 آیات 20،19،18،15 )
2۔ اور مرد خدا موسی علیہ السلام نے جو دعائے خیر دے کر اپنی وفات سے پہلے بنی اسرائیل کو برکت دی وہ یہ ہے
اور اس نے کہا :خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر آشکار ہوا ۔اور کو ہ فاران سے جلوہ گر ہوا۔ اور لاکھوں قدسیوں کے ساتھ آیا ۔اس کے داہنے ہاتھ پر اس کے لئے آتشی شریعت تھی۔(کتاب مقدس،پرانا عہد نامہ ،کتاب استثناء ،باب 33 آیت 2 ص 201 )
اس میں تین عظیم الشان رسولوں کی بعثت کا اعلان ہے ۔سب سے پہلے موسی کلیم اللہ جو وادی سینا اور سینا پہاڑ (کوہ طور) سے خاص نسبت رکھتاہے ۔دوم حضرت مسیح علیہ السلام جو شعیر سے آشکار ہوئے ۔شعیر اس پہاڑ کا نام ہے جو شام میں واقع ہے ۔اور تیسرے حضور ﷺ جو کوہ فاران پر جلوہ آرا ہوئے ۔ اس کے بعد لکھا گیا ہے کہ لاکھوں قدسیوں کے ساتھ آیا۔ حالنکہ ایک صدی قبل بائبل میں یہ جملہ یوں تھا “اور دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور یہ حقیقت تاریخ ،احادیث و سیر کی کتابوں سے ثابت ہے کہ فتح مکہ کے وقت آپ ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کی تعداد دس ہزار تھی ۔ چونکہ احادیث و سیر میں تحریف ان کے لئےممکن نہ تھی۔ اس لئے بائبل کے اردو مترجمین نے اس تعداد کو نہ یک جنبش قلم لاکھوں میں تبدیل کر دیا ۔ شاید اب بھی دیگر غیر ملکی زبانوں میں یہ تعداد دس ہزار ہی ہو ۔اس کو فیلڈ ریفرنس بائبل مطبوعہ 1917ء کے انگریزی ترجمے میں دس ہزار قدوسیوں کے الفاظ موجود ہیں ۔اس سے “کتاب مقدسہ ” میں تحریف کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔جبکہ آتشی شریعت یعنی جہاد وقتال کا ارادہ لے کر آپ ﷺ مکہ کو فتح کرنے کےلئے تشریف لائے تھے۔
3۔زبور حضرت داود علیہ السلا م ایک آنے والے نبی کا مشتاقانہ ذکرو توصیف یوں فرماتے ہیں ۔
تو بنی آدم میں سب سے حسین ہے
تیرے ہونٹوں میں لطافت بھری ہے
اس لئے خدا نے تجھے ہمیشہ کے لئے مبارک کیا (آیت ۔2 )
اے زبردست! تو اپنی تلوار کو
جو تیری حشمت و شوکت ہے اپنی کمر سے حمائل کر (آیت ۔3)
اور سچائی اور حلم اور صداقت کی خاطر
اپنی شان و شوکت میں اقبال مندی سے سوار ہو
اور تیرا دہنا ہاتھ تجھے مہب کام دکھائے گا (سکھلائے گا) (آیت۔4)
تیرے تیر تیز ہیں
وہ بادشاہ کے دشمنوں کے دل میں لگے ہیں
امتیں تیرے سامنے زیر ہوتی ہیں
اے خدا! تیرا تخت ابدالآباد ہے
تیری سلطنت کا عصاراستی کا عصا ہے
تو نے صداقت سے محبت رکھی اور بدکاری سے نفرت
اسی لیے کد تیرے خدا نے شادمانی کے تیل سے
تجھ کو تیرے ہمسروں سے زیادہ مسلح کیا
تیرے ہر لباس سے مر اور عود اور تج کی خوشبو آتی ہے
ہاتھی کے دانت کے محلوں میں سے تاردارسازوں نے تجھے خوش کیا ہے
تیرے بیٹے تیر ے باپ دادا کے جانشین ہوں گے
جن کو تو تمام روی زمین پر سردار مقرر کرے گا
میں تیرے نام کی یاد کو نسل درنسل قائم رکھوں گا
اس لئے امتیں ابدالآباد تیری شکر گزار ی کریں گی (کتاب مقدس، پرانا عہد نامہ ،زبور ۔ باب 45، ص 54۔553 )
یہ بشارتیں حرفا حرفا حضور ﷺ پر صادق ہیں ۔
4۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے محبوب خدا فخر انبیاء، حضرت محمد ﷺ کی شان میں یوں مدح خوانی فرمائی ہے
میرا محبوب سرخ وسفید ہے (نورانی گندم گو مراد ہے )
وہ دس ہزار میں ممتاز ہے
اس کا سر خالص سونا ہے (اس کا سر ہیرے کا ساچمک مدارہے )
اس کی زلفیں پیچ در پیچ اور کوے سی کالی ہیں
اس کی آنکھیں ان کبوتروں کی مانند ہیں
جو دود ھ میں نہا کر لب دریا تمکنت سے بیٹھے ہوں
اس کے رخسار پھولوں کے چمن اور بلسان کی ابری ہوئی کیاریاں ہیں
اس کے ہونٹ سوسن ہیں جس سے رقیق مر ٹپکتا ہے
اس کے ہاتھ زبر جدسے مرصع سونےکے حلقے ہیں
اس کا پیٹ ہاتھی کے دانت کا کام ہے جس پر نیلم کے پھول بنے ہوں
اس کی ٹانگیں کندن کے پایوں پرسنگ مرمر کے ستون ہیں
وہ دیکھنے میں لبنان اور خوبی میں رشک سرو ہے
اس کا منہ از بس شیریں ہے ۔ ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے
(کتاب المقدس، پرانا عہد نامہ ، کتاب غزل الغزلات آیت 10 تا 16 باب 5 ص 658 )
حضرت سلیمان علیہ السلام حضور ﷺ کے حلیہ مبارک کو انتہائی عاشقانہ انداز میں بیان کرتے ہیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایک موقع پر دس ہزار جانثار ،اس کے جلو میں ہوں گے اور یہ تاریخٰ حقیقت دنیا پر آشکار ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار جانثار آپ ﷺ کے ہمرکاب تھے ۔ جس کے آپ ﷺ سردار تھے پھر یہ فرمایا کہ وہ سراپا عشق انگیز ہے مگر یہاں عبرانی اور قدیم عربی ترجموں میں اصل لفظ “محمدیم ” موجو دہے ۔ مگر مترجمین نے اصل عبرانی لفظ “محمدیم” کو ترجمہ “آل ٹو گیدر لولی ” کیا ہے ۔عبرانی زبان میں علماء کے نزدیک “یم “عبرانی زبان میں احترام و اکرام اور جمع و تعظیم کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسا کہ خدا کو بائبل میں “الوہ” کی بجائے الوہیم کہا گیا ہے ۔یہاں اصل لفظ “محمد ” تھا ۔تعظیم کی وجہ سے “محمدیم ” کر دیا گیا اور بعد میں مترجمین نے اس کا کچھ سے کچھ بنا دیا۔
5۔یہود کا یہ شعار تھا کہ جب کبھی کفار و مشرکین سے ان کی جنگ ہوتی تھی اور ان کی فتح کے ظاہری امکانات ختم ہوجاتے تو اس وقت تورات کوسامنے رکھتے اور وہ مقام جہاں حضور ﷺ کی صفات و کمالات کا ذکر ہوتا کھول دیتے ۔ان پر ہاتھ رکھ کر ان الفاظ میں خدا سے مانگتے ۔
“اے اللہ !ہم تجھ سے تیرے اسی نبی کا واسطہ دے کر عرض کرتے ہیں جس کی بعثت کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہو اہے ۔آج ہمیں اپنے دشمنوں پر فتح دے ” تو اللہ تعالی ان کی دعا قبول کر کے انہیں فتح عطا فرماتا تھا ۔ مگر جب آپ ﷺ تشریف لائے تو صرف آپ ﷺ کی نبوت سے اس لئے انکار کر دیا کہ آپ ﷺ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔ سورہ بقر ہ میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کر کے یوں فرمایا گیا ہے۔
وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُواْ مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُواْ فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَّا عَرَفُواْ كَفَرُواْ بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب (قرآن) آئی جو اس کتاب (تورات) کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس موجود تھی، حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان پر اترنے والی کتاب قرآن کے وسیلے سے) کافروں پر فتح یابی (کی دعا) مانگتے تھے، سو جب ان کے پاس وہی نبی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب قرآن کے ساتھ) تشریف لے آیا جسے وہ (پہلے ہی سے) پہچانتے تھے تو اسی کے منکر ہو گئے، پس (ایسے دانستہ) انکار کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے
6۔ ابن نملہ سے منقول ہے کہ مدینہ کے بنی قریظہ یہودی اپنی کتابوں میں نبی کریم ﷺ کا ذکر پڑھا کرتے تھے ۔ اپنی اولاد کو بھی حضور ﷺ کی آمد ، صفات اور اسم مبارک سے آگاہ کرتے اور یہ بھی بتاتے تھے کہ مدینہ حضور ﷺ کی ہجرت گاہ ہے ۔ لیکن جب آپ ﷺ مبعوث ہوئے تو مارے حسد و عناد کے آپ ﷺ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔
عیسائیت اور بعثت نبی ﷺ پر اس کی گواہی:
عیسائیت کا شمار دنیا کے عظیم مذاہب میں ہوتاہے۔دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی اس مذہب پر عقیدہ رکھتی ہے۔ اس کی ابتداء اگرچہ مشرق سے ہوئی ہے لیکن کچھ عرصہ بعد مغربی قوموں نے اس کو اختیار کیا ۔ موجود ہ مذہب کو اگرچہ حضرت عیسی علیہ السلام سے منسوب کیا جاتاہے لیکن اگر تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پھر خاص کر قرآن کی روشنی میں اس کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو جاتوا ہے کہ یہ وہ مذہب نہیں جس کی تعلیم حضرت عیسی علیہ السلام نے دی تھی ۔قرآن اور کتا ب مقدس سے قطع نظر تاریخ بھی اس امر کی تائید کرتی ہوئی نظر آتی ہے بلکہ اس مذہب میں جس قدر اور جس زمانے میں جتنی تخریب ہوئی وہ بھی تاریخ کے صفحات پر بکھرا پڑا ہے ۔یہ دنیا کا غالبا واحد مذہب ہے ،جس کی تاریخ تحریف بھی محفوظ ہے ۔تا ہم عام طور پر اس سے وہ مذہب مراد لیا جاتا ہے جس کی تعلیم حضرت عیسی علیہ السلام نے دی تھی ۔
حضرت عیسی کا ذاتی نام یشوع یا یسوع عیسی تھا۔ مسیح آپ کا صفاتی نام تھا،کنیت ابن مریم تھی ،جبکہ قرآن مجید میں آپ کے مندرجہ ذیل نام بیان کیے گئے ہیں۔1۔عیسی تقریبا 26 مرتبہ 2۔ مسیح تقریبا گیارہ مرتبہ 3۔ عبد اللہ 2 مرتبہ 4 ابن مریم کنیت کے حوالے سے 23 مرتبہ5۔وجیھا فی الدنیا والاخرہ ایک مرتبہ 6۔ کلمۃ اللہ ا یک مرتبہ 7۔ روح اللہ یعنی بغیر اسباب ظاہری کے روح ڈالے ایک مرتبہ۔
1۔انجیل برناباس میں ہے کہ اس وقت کاہن نے کہا مسیا کا نام کیا رکھا جائے گا اور وہ کیا نشانی ہے جو اس کے آنے کا اعلان کرے گی۔ یسوع نے جواب دیا ۔مسیا کا نام عجب ہے اس لیے کہ اللہ نے جو اس وقت اس کی ذات کو پیدا کیا اور اسے آسمانی روشنی میں رکھا خود ہی اس کا نام بھی رکھا ہے۔ تحقیق اس کا مبارک نام “محمد” ہے اس وقت عالم لوگوں نے یہ کہتے ہوئے شور مچایا۔ یا للہ ! تو ہمارے لیے اپنے رسول کو بھیج ۔اے محمد! تو جلد دنیا کو نجات دینے کے لئے آ۔ (فصل نمبر 97 آیات 18،17،14،)
2۔ جب ایک شخص جس کا نام اندراس تھا اس نے یسوع (عیسی علیہ السلام ) سے کہا: اے معلم ! ہمارے لئے کوئی نشانی بتا ‘تاکہ ہم اس رسول کو پہچانیں۔
یسوع علیہ السلام نے جواب دیا: بے شک وہ تمہارے زمانے میں نہ آئے گا۔ بلکہ تمہارے بعد کی برسوں کے (گزرنے پر) جس وقت میری انجیل باطل کر دی جائے گی اور قریب قریب تیس مومن بھی نہ پائے جائیں گے ۔ (فصل نمبر 72۔آیات 10-13 )
3۔ اگر تاریخ کے اوراق کو بھی کھنگالیں تو معلوم ہو تا ہے عیسائی علماء نبی کریم ﷺ کی آمد سے پورے طور پر باخبر تھے ،حضور ﷺ کی علامات اور صفات ان کے ذہن نشین تھے۔اوروہ آپ ﷺ کی آمد کے منتظر تھے۔اس لئے جب آپ ﷺ پرر پیلی وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ کو آپ کی زوجہ مبارکہ ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئی جو عیسائیت کے بہت بڑے عالم تھے اور آپ کی زوجہ کے چچا زاد بھائی تھے۔ حضور ﷺ نے پہلی وحی کا حال ان کو سنایا تو انہوں نے کہا : یہ وہی ناموس (وحی لانے والا فرشتہ ) ہے جو اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔ کاش میں آپ ﷺ کے زمانہ قوت میں قوی ہوتا، کاش میں اس وقت زندہ رہوں جب آپ ﷺ کی قوم آپ کو نکالے گی ۔ یہ سن کر رسول کریم ﷺ نے فرمایا:کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟ تو ورقہ بن نوفل نے کہا ۔”ہاں ! کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص وہ چیز لے کر آیا ہو، جو آپ ﷺ لائے ہیں اور اس سے دشمنی نہ کی گئی ہو ۔ اگر میں نے آُپﷺ کا زمانہ پایا تو میں آپ ﷺ کی پرزور مدد کروں گا۔ مگر زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ ورقہ بن نوفل کا انتقال ہو ا اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ اعزاز ایک عیسائی عالم دین کو حاصل ہو ا۔ جنھوں نے سب سے پہلے نہ صرف آپ ﷺ کی نبوت کی تصدیق کی بلکہ اس پر ایمان لے آیا۔
4۔پانچ ہجری کو مسلمانوں نے کفار مکہ کی ظلم و ستم سے مجبور ہو کر حبشہ کو ہجرت ی۔ تو نجاسی بادشاہ نے ان ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو اپنے دربار میں طلب کیا اور حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے رسول کریم ﷺ کی تعلیمات سنیں تو بےساختہ پکار اٹھا۔ مرحبا! تم کو اور اس ہستی کو جس کے یہاں سے تم آئے ہو ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور وہی ہیں جن کو بشارت عیسی علیہ السلام ابن مریم علیہ السلام نے دی تھی ۔
5۔قیصر کے نام جو خط ارسال کیاگیا تھا وہ دمشق میں ان کو ملا ۔ خط ملنےکے بعد انہوں نے تفتیش احوال کے لئے عرب تلاش کیے تو اتفاق سے ابو سفیان تجار عرب کے ساتھ غزہ میں مقیم تھے۔ جو ان دنوں حضور ﷺ کا جانی دشمن تھا۔ قیصر کے آدمی انکو غزہ سے جا کر لائے باوجود دشمنی کے انہوں نے راست گفتاری سے کام لیتے ہوئے قیصر روم کو تمام سوالات کے جوابات بالکل صحیح اور درست دیے کیونکہ قریش کے متعبر لوگ جھوٹ سے عموما احتراز کرتے تھے۔ تحقیق حال کے بعد ہرقل (قیصر اس کا لقب تھا) نے کہا۔
“مجھے معلوم تھا کہ نبی آخر الزمان کا ظہور ہونے والا ہے لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ اسکی پیدائش عرب میں ہو گی ۔ اگر تمہارے جوابات صحیح ہیں تو وہ شخص ایک روز اس جگہ پر قابض ہو گا ۔کاش! میں اس تک پہنچ سکتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔ اس کے بعد آپ کا مکتوب پڑھا گیا۔ شبلی کےمطابق ہر قل اہل دربار کی ناراضگی اور بغاوت کےخوف سے دولت ایمان سے محروم رہا ۔