Battle of Plassey 460

Battle of Plassey| جنگ پلاسی

Battle of Plassey| جنگ پلاسی

جنگیں ہر دور کا ایک لازمی جزو رہی ہیں ۔کبھی انگریز تو کبھی ہندو اورکبھی مسلمان مغل حکمران۔ جو ہر دور میں اپنی حکومت کا جادو جگانا چاہتے تھے۔ان ہی وقتوں میں کسی قوم کا جادو سر چڑھ کر بولا تو کسی کو شکست کاسامان کرنا پڑا۔ ان ہی چند بڑی جنگوں نے تاریخ بدل ڈالی۔
تاریخ دانوں کے قلم ہر دور کے سورماؤں کے ارادوں ، ان کی حکومتوں کے پس پردہ ہونے والے حالات اور ان کی عیاشیوں،عورتوں کی آبرو کی پامالی کے قصے اور غلاموں سے ناروا سلوک کو بڑی دلیری سے صفحہ قرطاس پر اتارتے رہے ہیں۔ایسے ہی ایک بہادر اور جنگجو کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے جس کا نام سراج الدولہ تھا ۔اس نے ایسے دور میں جب ہر طرف فرنگیوں کا راج تھا،ان کی قوم کے مانے ہوئےایک جری وبہادر جرنل کلائیو کے سامنے اعلان جنگ کر دیاجو پلاسی کے نام سے مشہور ہوئی۔
پس منظر اور جنگ کے اسباب:
مرزا محمد سراج الدولہ المعروف نواب سراج الدولہ (1733ء تا ۲ جولائی 1757ء) بنگال، بہار اور اڑیسہ کے آخری حقیقی آزاد حکمران تھے ۔ 1757ء میں ان کی شکست سے بنگال میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا۔نواب سراج الدولہ کے والد زین الدین بہار کے حکمران تھے۔ جبکہ والدہ امینہ بیگم بنگال کے نواب علی وردی خان کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ چونکہ نواب علی وردی خان کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی، اسی لیے شروع ہی سے خیال کیا جاتا تھاکہ مر شدآبادیعنی بنگال کے تخت کا وارث نواب سراج الدولہ ہی ہوگا۔ ان کی پرورش نواب علی وردی خان کے محلات میں ہوئی اور انہوں نے اوائل جوانی ہی سے جنگوں میں نواب عل وردی خان کے ہمراہ شرکت کی مثلا ً1746ء میں مہا شٹر میں ہندؤں کو شکست فاش دی۔ 1752ء میں نواب علی وردی خان نے سرکاری طور پر سراج الدولہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ نواب ایک مذہبی آدمی تھے اور علی خان کی طرح ان کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا۔
واقعات:
سراج الدولہ کا دور حکمرانی مختصر تھا ۔ 1756ء میں علی وردی خان کے انتقال پر 23سال کی عمر میں بنگال کے حکمران بنے۔ شروع ہی سے بنگال میں عیار برطانوی لوگوں سے ہوشیارتھے جو بنگال میں تجارت کی آڑ میں اپنا اثر بڑھا رہے تھے۔ 23 جون 1757ء کو سراج الدولہ نواب آف بنگال اور انگریز جر نیل کلائیو کے درمیان لڑی گئی یہ جنگ کلکتہ سے 70میل کے فاصلے پر دریائے بھاگیرتی کے کنارے قاسم بازار کے قریب لڑی گئی ۔ انگریز جرنیل کلائیو تمام بنگال پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ شہنشاہ دہلی پہلے ہی اس کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا ہوا تھا۔ بنگال پر قبضے کے لیے بلیک ہول کا افسانہ تراشا گیا اور میرجعفر سے سازش کروائی گئی۔ میر جعفر سراج الدولہ کے نانا علی وردی خاں کا بہنوئی تھا۔ اس کو نوابی کا لالچ دے کر منالیا گیا۔اس جنگ کی اصل وجہ ایک ایسی کمپنی تھی جو واقع تو انڈیا میں تھی لیکن اس کی بھاگ دوڑ انگریزوں کے ہاتھ میں تھی۔ اس کے ممبران میں انگریزوں کے علاوہ چند ہندو بھی شامل تھے۔ اس کمپنی نے کچھ معاہدے نواب کے ساتھ بھی طے کیے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے سراج الدولہ کے خلاف سازش تیار کی جو نواب کو معلوم ہو گئی۔
وجوہات:
۱۔ اول انگریزوں نے نواب کی اجازت کے بغیر کلکتہ کے فورٹ ولیم (قلعہ ولیم) کی دیواریں پختہ اور اونچی کیں جو معاہدوں کے صریح خلاف ورزی تھی ۔
۲۔ دوم انگریز وں نے بنگال کے کچھ ایسے آ فسران کو پناہ دی جو ریاست کے خزانے میں خرد بردکے مجرم تھے۔
۳۔ سوم انگریز خود بنگال کی کسٹم ڈیوٹی میں چوری کرنے کے مرتکب تھے۔ ان وجوہات کی بنا پر نواب اور انگریز وں میں مخالفت کی شدید فضا پیدا ہو گئی۔
جب رنگے ہاتھوں ٹیکس اور کسٹم کی چوری پکڑی گئی اور انگریز معاہدوں کے خلاف کلکتہ میں اپنی فوجی قوت بڑھانا شروع کر دی تو سراج الدولہ نے جون 1756ء میں کلکتہ میں انگریزوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے متعدد انگریزوں کو قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے قید کر لیا۔ نواب سراج الدولہ کے مخالفین میں سے انگریزوں نے رابطہ کیا۔ ان مخالفین میں گھسیٹی بیگم (سراج الدولہ کی خالہ) میر جعفر المشہور غدار بنگال اور شوکت جنگ ( سراج الدولہ کا رشتہ دار) شامل تھے۔ان لوگوں نے سراج الدولہ سے غداری کر کے ان کی شکست اور انگریز کی جیت کا راستہ ہموار کیا۔
برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی یا برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی یا برطانوی شرق الہند کمپنی ، جزائر شرق الہند میں کاروباری مواقع کی تلاش کے لیے تشکیل دیا گیا ایک تجارتی ادارہ تھا ۔تاہم بعد ازاں اس نے برصغیر میں کاروبار پر نظریں مر کوز کر لیں اور یہاں بر طانیہ کے قبضہ کی راہ ہموار کی ۔ 1857ء کی جنگ آزادی تک ہندوستان میں کمپنی کا راج تھا اس کے بعد ہندوستان براہ راست تاج زیر نگین آگیا۔ برطانیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو 1600میں ملکہ الزبتھ اول کے عہد میں ہندوستان سے تجارت کا پروانہ ملا۔ انگلش ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا کی پہلی لیمٹد کمپنی تھی۔ اس کے 125 شیئر ہولڈرز تھے اور یہ 72000 پاؤنڈ کے سر مائے سے شروع کی گئی تھی۔ 2010 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستانی نژاد برطانوی کاروباری شخصیت سنحی مہتا نے خرید لیا۔
کمپنی راج:
کمپنی راج یا ہندوستان میں کمپنی کی حکمرانی سے بر صغیر پر بر طانوی ایسٹ انڈیا کی حکمرانی یا بادشاہت سے مراد ہے۔ اسکی شروعات عام طور ر 1757ء میں جنگ پلاسی میں سراج الدولہ نوا ب آف بنگال کے ہتھیار ڈال دینے کے بعد سے لی جاتی ہے۔ یہ حکمرانی 1858ء تک جاری رہی جب جنگ آزادی ہند 1857ء کے بعد حکومت ہندوستان ایکٹ1858ء میں بنایا گیا اور برطانوی حکومت ہندوستان کا انتظام براہ راست نئے برطانوی راج کے سپرد کر دیا گیا۔
ایم واٹس کو نواب کے سامنے پیش ہونے کے لیے خط لکھا جس کے بعد وہ سراج الدولہ کے پاس حاضر ہوا۔ نواب نے انگریزوں کی روش پر اسے سر زنش کی۔ اس پر واٹس نے مصالحانہ رویہ اختیار کیا اور نواب کے تمام مطالبات مان لیے۔ لیکن کمپنی نے ان مطالبات کو ماننے سے انکار کردیا اور ڈریک نے فوج کو تیار کر کے سکھ ساگر اور قلعہ تھانہ کی طرف بھیج دیا۔
واقعات
اب اس انگریز کا حال سنئے ،ڈریک کی فوج نے دونوں جگہ نواب کی فوجوں سے شکست کھائی۔ اس کے بعد 16 جون کو نواب خود تیس ہزار سپاہیوں کی معیت میں فورٹ ولیم کے سامنے آگیا۔ دونوں فوجوں میں زبردست معرکہ ہوا۔ انگریزی دستے پسپا ہوگئے۔ انگریزوں نے اپنی بیوی بچوں کو جہاز پر سوار کر کے فرار کروادیا۔ خود ڈریک بھی بھاگ نکلا۔ اس کے بعد ڈریک کی جگہ ہال ویل نے لے لی۔ نواب کے ساتھ صلح کرنے کا اعلان کردیا۔ چناچہ 20 جون کو انگریزوں کی تمام فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس طر ح نواب سراج الدولہ کی فوجیں با آسانی فورٹ ولیم میں داخل ہوگئیں۔فورٹ ولیم کی فتح حاصل کر چکنے کے بعد 16 اکتوبر 1756ء کو سراج الدولہ نے راجہ رام نرائن کی مدد سے شوکت جنگ کو منہاری کے مقام پر شکست دی۔ اس جنگ میں شوکت جنگ مارا گیا۔ اس کے بعد سراج الدولہ کی فوجوں نے کلکتہ اور پورنیہ کا علاقہ بھی فتح کر لیا۔ لیکن اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے اپنی سر گرمیاں جاری رکھیں۔ اس دوران ان میں مدراس سے جرنل کلائیو اور واٹسن بری اور بحری فوج لے کر مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے لگے۔ راجہ مانک رام نے بھی انگریزوں کے خلاف مزاحمت نہ کی ۔اس طرح انہیں کلکتہ پر قبضہ کرنے میں آسانی ہوگئی۔جب نواب نے کلکتہ کا رخ کرنا چاہا تو میر جعفر درلبھ رام اور جگت سنگھ جیسے غداروں نے انگریزوں کو خفیہ پیغامات پہنچانا شروع کر دیے۔ دوسری جانب احمد شاہ ابدالی کے حملے کی اطلاح بھی نواب کو پریشان کرنے کے لیے کافی تھی۔ اس زمانے میں یورپ میں جنگ شروع ہوچکی تھی جو سات سال تک جاری رہی۔ انگریزوں نے نواب کی مرضی کے خلاف فرانسیسی مقبوضات پر خود قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد کچھ فرانسیسی نواب کے پاس پناہ کے لیے آگئے جنہیں انگریزوں نے واپس مانگا۔ نواب نے انہیں دینے سے انکار کر دیا ۔ اس دوران میں انگریزوں نے میر جعفر سے ساز باز مکمل کر لی تھی۔ چنانچہ نواب کے ساتھ انگریزوں کی جنگ تقریباً نا گزیر ہو چکی تھی اور 30 جون کو کلائیو نے شمالی علاقوں پر حملہ کر دیا ۔ نواب سراج الدولہ نے مزاحمت کیے بغیر قتوہ انگریزوں کے حوالے کردیا۔
جرنل کلائیو کی سراج الدولہ کی فوج پر چڑھائی:
جرنل کلائیو اپنی روایتی تین ہزار فوج کو لے کر نواب سراج الدولہ پر چڑھ آیا ۔ جرنل کلائیو کی فوج میں صرف 500انگریز اور 2500 سو ہندوستانی تھے۔ نواب سراج الدولہ کے پاس صرف 50000 ہزار پیادہ اور 18000 گھوڑ سوار تھے اور 55توپیں تھیں لیکن اس فوج کا ہر فرد میر جعفر کے زیر کمان جرنل کلا ئیو سے مل چکا تھا۔ اس لیے نواب اس جنگ میں ناکام ہوگیا ۔
انگریز مورخوں کا یہ دعوٰی ہے کہ جنرل کلائیو نے تین ہزار سپاہیوں کی مدد سے نواب سراج الدولہ کی لا تعداد فوج پر فتح حاصل کی مگر ایسا نہیں ہوا ۔ کیونکہ خود نواب کی فوج کا بیشترحصہ جنرل کلائیو کے ساتھ ملا ہو تھا۔ نیز یہ کہنا کہ میر جعفر آخری دم تک کلائیو کے ساتھ نہیں ملا سراسر غلط ہے۔ اگرا یسا ہوتا تو اس میر جعفر کو انگریز حکمران کبھی بھی نوابی نہ نوازتے۔ یہ صرف اسی ایک شخص کی کارستانی تھی اور بھر پور غداری تھی جس کی بنا پر بنگال میں اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس پر بھی اگر نواب سراج الدولہ کا اہم سپہ سالار نہ مارا جاتا تو نتیجہ کچھ اور ہی اخذ ہوتا اس سپہ سالار کو جو میر جعفر کے ساتھ شریک نہ تھا، موقع پاتے ہی میر جعفر کے آدمیوں نے قتل کر دیا۔
اس سپہ سالار کے قتل ہو جانے کے بعد سراج الدولہ کی وفادار فوج بھی بد حواس ہو گئی۔ کلائیو کے صرف 20 آدمیوں کا مارا جانا اور پچاس آدمیوں کا زخمی ہونا تعجب خیز نہیں۔ کیونکہ توپ خانے کو بھی پہلے ہی خرید لیا گیا تھا اور توپوں میں پانی ڈلوادیا گیا تھا۔ بتایا یہ گیا کہ جنگ سے پہلے بارش ہوگئی تھی۔ اور نواب کے پاس ان توپوں کو ڈھانپنے کے لیے کوسازوسامان نہ تھا ۔اس لیے نواب کا سارا بارود بارش کی وجہ سے بھیگ کر ناکارہ ہو گیا اور نواب سراج الدولہ کو اس جنگ میں بری طرح ناکامی کا سامنا کر نا پڑا۔
میر جعفر کی بطور نواب تقرری:
اس لڑائی کے بعد جنرل کلائیو مرشد آباد پہنچا جو ان دنوں بنگال کا دارالحکومت تھا۔ کٹھ پتلی شاہ دہلی سے پہلے ہی میر جعفر کی تقرری کا فرمان حاصل کر چکا تھا۔ چنانچہ اس کو نوابی دے دی گئی اور اس کو گدی پر بٹھا دیا گیا۔ میر جعفر کو تمام خزانہ اور ذاتی زر و جواہر کلائیو کے حوالے کرنے پڑے جن میں سے ہر ایک کو معقول حصہ دیا گیا۔ مگر کچھہ دن بعد انگریزوں نے میر جعفر کو بے دست و پا کردیا ۔ لیکن یہ شخص نہایت سمجھدار نکلا۔ اس نے اسے اقدمات شروع کردیے جس سے انگریزوں کے پنجے ڈھیلے ہونا شروع ہوگئے اور پٹنہ میں دو سو انگریزقتل کر دیئے گئے۔ادھر میر قاسم نے دیگر مسلمانوں کو متحد کر کے بکسر کے مقام پر بہادری سے انگریزوں کا مقابلہ کیا جس میں ایک ہزار انگریز مارے گئے لیکن پھر غداری اور سازش اپنا رنگ لائی۔میر قاسم کی فوج میں بھگدڑ مچ گئی اور انگریز بنگال پر قابض ہو گئے۔ بنگال کا صوبہ مغلیہ سلطنت کی ایک ریاست تھی جو سولہویں اور اٹھارویں صدی کے درمیان موجودہ بنگلہ دیش اور بھارت کی ریاستوں مغربی بنگال ، بہار اور آڑیسہ پر مشتمل تھی۔
معاہدہ علی نگر:
چنانچہ نواب سراج الدولہ نے فروری1757ء کو معاہدہ علی نگر پر دستخط کر دیئے جس کے تحت بنگال کے تمام مقبوضات دوبارہ کمپنی کو واپس مل گئے۔ اس کے علاوہ تاوان کے طو ر پر انگریزوں کو سکہ سازی اور قلعہ بندیوں کے حقوق بھی دے دیے ۔ لیکن اس کے باوجود صلح عارضی ثابت ہوئی اور پانچ ماہ کے بعد ہی یہ معاہدہ ختم ہوگیا۔
نواب سراج الدولہ کی شہادت:
نواب سراج الدولہ جنگ میں شکست کے بعد مرشد آباد اور بعد میں پٹنہ چلے گئے۔ انہوں نے اپنی بیوی لطف النساء بیگم اور بیٹی کے ہمراہ بھیس بدل کر ایک خانقا ہ میر بعنہ شاہ میں روپوش تھے جہاں میر جعفر کے سپاہیوں نے انہیں گرفتار کرلیا۔ میر جعفرکے بیٹے میر میران کے حکم پر محمد علی بیگ نے نواب سراج الدولہ کو نماز فجر کے بعد شہید کردیا۔ نواب سراج الدولہ کا مزار مرشد آباد کے ایک باغ”خوش باغ” میں واقع ہے، خوش باغ نوابان بنگال کا خاندانی قبرستان ہے۔ یہ دریائے بھا گیر تھی کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔ اگرچہ یہ مزار کی عمارت سادہ ہے مگر عوام کی زیارت کا مرکز ہے ۔ اس طرح ایک مسلمان نے مسلمان کے ساتھ غداری اور قتل کر کے غیر مسلموں یعنی انگریزوں کی حکومت کے قیام میں مدد کی۔
نمک حرام ڈیوڑھی:
جس مقام پر نواب سراج الدولہ کو شہید کیا گیا یہ میر جعفر کی رہائش گاہ تھی جسے بعد میں عوام نے نمک حرام ڈیوڑھی کا نام دیا۔ غداروں نے نواب کی میت کو ہاتھی پر رکھ کر مر شد آباد کی گلیوں میں گھمایا تاکہ عوام کو یقین ہو جائے کہ نواب قتل ہوچکا ہے اور نیا نواب میر جعفر تخت نشین ہو گیا ہے۔
نتائج:
جنگ پلاسی تاریخ کی ایک ہولناک جنگ تھی جس میں بنگال کا صوبہ انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ اس جنگ کے بعد حکمران مسلمان محکوم گئے اور اس کے بعد انگریزوں کے سامنے نہ اٹھ سکے۔انگریزوں نے نواب سراج الدولہ کا خزانہ لوٹ لیا ۔ انگریزوں نے نواب سراج الدولہ کا لوٹا ہو ا مال سب لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ اس تقسیم میں جنرل کلائیو کے ہاتھ ۵۳ لاکھ سے زیادہ کی رقم آئی۔ جواہرات کا تو کوئی حساب نہ تھا۔ میر جعفر کو ایک کٹھ پتلی حکمران کے طور پر رکھا گیا مگر عملاً انگریزوں کی حکمرانی تھی۔ انگریزوں نے ایسے حا لات پیدا کیے جس میں میر جعفر کو بے دست وپا کر دیا گیا اور بعد میں میر قاسم کو حکمران بنا دیا گیا جس کے بھی انگریز وں سے اختلافات ہو گئے۔ چنانچہ ان کے درمیان جنگ کے بعد پورے بنگال پر انگریز قابض ہو گئے اور یہ سلسلہ پورے ہندوستان پر غاضبانہ قبضہ کی صورت میں نکلا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں