Do Palestinians exist? 140

تنازع فلسطین کا مستقل حل ضروری

پاکستان نے اقوام متحدہ سے اسرائیلی جارحیت کے شکار فلسطین میں عالمی فوج تعینات کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے غزہ پر حملے بند کرنے کے مطالبے پر اسرائیل نے سردست حملے روک دیے ہیں۔یاد رہے کہ سلامتی کونسل میں امریکہ نے چار بار فلسطین کی مذمت پر مبنی قرار داد کو روک کر اسرائیل کو فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے کی چھوٹ دیے رکھی۔ بلا شبہ یہ سلامتی کونسل جیسے طاقتور ادارے کی ناکامی قرار دی جا سکتی ہے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے سلامتی کونسل کی جانب سے فلسطینیوں کی مدد نہ کرنے پر ترکی‘فلسطین‘ ایران ‘ ملائشیا‘ انڈونیشیا اور تیونس کے وزرائے خارجہ کے ہمراہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں معاملہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے تحت بلائے گئے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کوئی اسرائیل کو پوچھنے والا نہیں‘ اسرائیل کو جنگی جرائم کے ارتکاب پر قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیل سے کہا کہ وہ فلسطینی سرزمین پر بستیوں کی تعمیر روکے‘ جنگی قوانین کی خلاف ورزی سے باز رہے۔ غزہ میں ایمرجنسی نافذ کر کے امدادی کارروائیاں شروع کی جائیں۔ اقوام متحدہ کی ساکھ‘ طاقت اور افادیت کو جن تنازعات سے چیلنج لاحق ہے۔ فلسطین ان میں سے ایک قدیم ترین تنازع ہے۔ اقوام متحدہ کی ذمہ داری اس لحاظ سے بھی زیادہ تصور کی جاتی ہے کہ اسی کے کہنے پر ستر برس پہلے صیہونی ریاست قائم کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی اس سرپرستی کے باوجود فلسطین کے معاملے پر غیر فعالیت اقوام متحدہ کی ناکامی کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اسرائیل کے پروردہ گروپوں نے بیت المقدس کے قدیم محلے سے درجنوں فلسطینیوں کو بیدخل کر دیا۔اس ناانصافی پر فلسطینیوں نے احتجاج کیا۔ بعدازاں یہ فسطینی مسجد اقصیٰ میں عبادت میں مصروف تھے کہ اسرائیلی پولیس نے حملہ کر دیا۔ دو روز تک مسجد اقصیٰ کا صحن اور اندرونی عمارت اسرائیلی تشدد کے باعث زخمی فلسطینیوں سے بھرے رہے۔ اس دوران عالمی برادری نے چپ سادھے رکھے۔ بعدازاں اسرائیلی آرٹلری اور طیاروں نے فلسطینی باشندوں کے گھروں‘ دفاتر اور کاروباری مراکز کو نشانہ بنایا۔ ڈیڑھ ہفتے تک جاری رہنے والے ان حملوں میں چار سو کے قریب فلسطینی شہید ہوئے۔ شہید ہونے والوں میں بچوں اور عورتوں کی تعداد قابل ذکر ہے۔افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مغربی میڈیا نے فلسطینیوں کے موقف اور ان پر روا مظالم کو اجاگر کرنے کی بجائے قابض اسرائیل کی کارروائیوں کو جنگ قرار دے کر نہتے فلسطینی باشندوں کو ایک امن دشمن طاقت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایک مضحکہ خیز ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔ وہ ادارہ جو عراق میں جعلی رپورٹس کی بنیاد پر ہلاکت خیز ہتھیاروں کو ہٹانے کی آڑ میں امریکہ کو حملے کی اجازت دیدیتا ہے‘ جو راتوں رات مشرقی تیمور کو الگ ریاست بنا دیتا ہے‘ جو شام میں حیاتیاتی اور مہلک گیس والے ہتھیاروں کی آڑ میں حملے کی دھمکی دیتا ہے۔ جو سوڈان سے عیسائی اکثریت والے دارفر کو الگ کر دیتا ہے۔ اس سلامتی کونسل کو فلسطین میں بہتا خون نظر نہیں آتا۔ المیہ یہ کہ دنیا میں انسانی حقوق‘ انصاف اور رواداری کی بات کرنے والے مغربی ممالک نے اسرائیل کا ہاتھ روکنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ امریکہ نے ہر مرحلے پر اسرائیل کے خلاف کارروائی کو غیر موثر بنایا۔ سکیورٹی کونسل میں چار بار قرار داد مذمت روکنے والے امریکہ کے صدر جوبائیڈن متعدد بار ٹیلی فون کر کے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو حملے روکنے کا کہتے رہے لیکن باہمی ساز باز کی وجہ سے اسرائیل نے امریکی صدر کی اپیل ہر بار مسترد کر دی۔ ایک المیہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا کے ہر اہم معاملے میں اقوام متحدہ ‘ او آئی سی ‘ یورپی یونین یا کسی دوسرے بین الاقوامی گروپ کو آگے آنے کا موقع نہیں دینا چاہتا۔ بین الاقوامی تنازعات کو پرامن طریقے سے طے کرنے کی ذمہ داری اقوام متحدہ نے اٹھا رکھی ہے لیکن امریکہ کی سفارتی مشینری ان معاملات پر کسی دوسرے کو اثر انداز ہونے کا موقع نہیں دیتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کشمیر‘ فلسطین یا یمن ہو تمام تنازعات تشدد کو فروغ دینے کا ذریعہ بنے رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے متعدد دیگر رکن ممالک اس صورتحال سے خوش نہیں۔ اسرائیل نے حملے روکنے پر آمادگی ظاہر کی ہے‘ اس سے فلسطینیوں پر جاری ظلم کا سلسلہ وقتی طور پر رک سکتا ہے لیکن بنیادی تنازع اپنی جگہ رہے گا۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ اسرائیل نے جارحیت کا ارتکاب کیا اور فلسطینیوں کے کمزور سے ردعمل کو دہشت گردی بنا کر سینکڑوں افراد کو شہید کر دیا۔اس تنازع کو حل کرنے کا بنیادی اصول یہی ہے کہ اسرائیل کو اس کے علاقوں تک محدود کیا جائے۔ فلسطینی باشندوں کے گھر مسمار کر کے اور ان کی جان لے کر تنازع کو پرامن طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل کا جبر اور ظلم اس وجہ سے بھی ناقابل قبول ہو گا کہ اس سے دنیا میں مکالمہ‘ مذاکرات اور پرامن بقائے باہمی کے تصورات دم توڑ جائیں گے۔ دنیا کو پرامن رکھنے کے لئے اقوام متحدہ اور بڑے ممالک کو اپنے تعصبات سے بالا ہو کر فلسطینیوں کا حق خود ارادیت تسلیم کرنا ہو گا ورنہ جو لڑائی آج رکی ہے وہ پھر کسی روز شروع ہو جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں