195

پاکستان اور طالبان. اعزاز سید

پاکستان میں داخلی سیاست اتنی ہنگامہ خیز اوردلچسپ ہے کہ ہم اکثر اردگرد رونما ہوتے واقعات نظرانداز کردیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی برادری ہمیں افغانستان کے تناظر میں دیکھتی ہے اور وہاں رونما ہوتے واقعات خطے اور پاکستان دونوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔پاکستان میں مکمل جمہوریت نافذنہیں ہے اس لئے خارجہ امور کے بارے میں سارے فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں ہوتے۔افغانستان کے امور میں سیکورٹی ایک اہم جزو ہے لہٰذا اس پر پالیسی کے معاملے میں پاکستانی ادارے ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر آپ نے افغانستان کو سمجھنا ہے تو طالبان کو سمجھنا ہوگا اگر طالبان کو سمجھنا ہے تو پاکستان کو سمجھنا ضروری ہے اور اگر پاکستان کو سمجھنا ہے تو پاکستان کی فوج اوراسکے اداروں کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔

امریکہ کی طرف سے مارچ 2020 میں افغانستان کی حکومت کو نظرانداز کرتے ہوئے افغان حکومت سے ہی برسرپیکارافغان طالبان یا امارات اسلامیہ سے قطرمیں معاہدے نے جہاں ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عملی خاتمے کا ڈنکا بجایا وہاں افغانستان کے اندرافغان حکومت کے مقابلے میں طالبان کو مزید مستحکم بھی کیا۔ یوں طالبان افغانستان میں عسکری کے ساتھ ساتھ سیاسی حوالے سے بھی دوبارہ زور پکڑ گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد جوبائیڈن کرسی صدارت پر براجمان ہوئے تو انہوں نے افغانستان سے امریکی وبین الاقوامی فورسز کے ستمبر2021 تک انخلا کا اعلان کردیا یوں طالبان کو مزید طاقت مل گئی۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افغانستان میں سب سے موثرمسلح گروپ افغان طالبان یا امارات اسلامیہ ہے۔ظاہر ہے یہ بات عالمی برادری کوبھی نظرآرہی ہے کہ افغانستان میں سیاسی خلا کے بعد طالبان اقتدارحاصل کرلیں گےاسی لئے امریکہ افغانستان سے نکل کربھی اپنی سلامتی کے تناظر میں افغانستان پرکڑی نظررکھنا چاہتا ہے۔اس مقصد کے لئےپاکستان سے اڈوں اورلاجسٹک سپورٹ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔پاکستان شروع دن سے افغانستان میں طالبان کا حامی رہا ہے۔صرف نائن الیون کے فوری بعد کا کچھ عرصہ ایسا تھا جس میں ہم طالبان سے دورہوئے تھے مگر”کٹی” نہیں کی تھی بلکہ انہیں اپنی مجبوریوں کے بارے میں آگاہ کردیا تھا جو انہوں نے تسلیم بھی کرلی تھیں۔ چند سال یہ سلسلہ جاری رہا مگر آرمی چیف جنرل کیانی کے دورمیں مجبوری کی وجہ سے اختیارکی گئی دوریاں پھرخاموشی سے ختم کردی گئیں اور تعاون کا خفیہ سلسلہ دوبارہ چل پڑا۔ اب طالبان ہمارے اورچند دیگر ممالک کے تعاون سے بھرپور طاقت اختیار کرچکے ہیں۔ان کے جنگجو کابل اورقندھار کے اردگرپہنچ چکے ہیں۔ پاکستان اگرطالبان کی حمایت کرتا ہے تو کالعدم تحریک طالبان اور اس سے جڑے عسکریت پسند جتھے مزید مستحکم ہوتے ہیں جبکہ ایران کی مداخلت بھی بڑھنے کا خدشہ ہےاور اگر امریکہ سے تعاون کیا جاتا ہے تو افغان طالبان کی طرف سے باضابطہ لڑائی کا خطرہ ہے۔ یعنی دونوں راستے مشکل ہیں۔امریکی پالیسی کے تحت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی افغان طالبان سے دوری اختیارکرنے کا عندیہ دے دیا ہے اب پاکستان پرسب کی نظریں ہیں۔

اسی تناظر میں 24 مئی 2021 کو وزیراعظم عمران خان نے آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز میں اعلیٰ سطح سیکورٹی اجلاس کی صدارت کی ہے۔آئی ایس آئی میں ایس ڈائریکٹوریٹ افغان امورکی نگرانی کرتا ہے اس کے سربراہ نے وزیراعظم اور ان کے وزرا کو تینوں مسلح افواج کے سربراہوں اور ڈی جی آئی ایس آئی کی موجودگی میں افغانستان کی تازہ صورتحال پربریفنگ دی ہے۔ وزیراعظم کو امریکہ کی خواہشات اور اس حوالے سے پاکستان کے لئے مجوزہ امکانات اور راستوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق پاکستان نے اس سارے معاملے پرعالمی برادری کا ساتھ دینے کافطری فیصلہ کیا ہےتاہم اس کے ساتھ طالبان کو بھی “انگیج” کیا جائے گا۔ظاہر ہے کمزور معیشت کے ساتھ پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ ہے ہی نہیں۔وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اس غیرمعمولی اجلاس کے دو روز بعد 26 مئی کو طالبان کے ترجمان جناب سہیل شاہین کی طرف سے امارات اسلامیہ کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ “پڑوسی ممالک امریکہ کو اڈے دینے کی غلطی نہ کریں ورنہ ہم اسکو برداشت کریں گے نہ اس پر خاموش بیٹھیں گے”۔ اس بیان میں پاکستان کا نام نہیں لیا گیا لیکن ظاہر ہے مخاطب پاکستان ہی کو کیا گیا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ طالبان نے کھلے عام پاکستان کو آنکھیں دکھائی ہیں۔یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان نے امریکہ اور طالبان کا معاہدہ کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جس کے جواب میں طالبان نے کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ پاکستان کا معاہدہ کروانے کی کوشش کی اور اس ضمن میں کچھ عرصہ قبل خفیہ مذاکرات بھی کروائے تاہم وہ بے نتیجہ رہے۔ یعنی دونوں ایک دوسرے کی طاقت اور کمزوریوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔پاکستان کے پاس امریکہ کا آپشن ہے تو طالبان کے پاس پاکستان سےعلانیہ یا غیر علانیہ جنگ کا راستہ۔ طالبان اور ٹی ٹی پی دونوں کا ایجنڈا اورمقاصد ایک ہیں تاہم میدان الگ الگ ہیں۔ ڈر یہ ہے کہ یہ میدان مشترکہ میدان نہ بن جائیں۔پاکستان کے لئے اس مشکل صورتحال میں مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ اس سارے معاملے پر قومی سیاسی قیادت کو بے خبر رکھا گیا ہے۔اگلے روز قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ انہیں ابھی تک افغانستان کی صورتحال سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کے نوجوان سربراہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ بھی صورتحال مختلف نہیں۔ بلوچستان ، خیبرپختونخوا کی سیاسی جماعتیں بھی اس بارے میں لاعلم ہیں۔

اس نازک معاملے پرفوری طورپر سیاسی قیادت سے مشاورت اورانہیں اعتمادمیں لے کرایک قومی پالیسی مرتب کرنےکی ضرورت ہے۔ طالبان نے توہمیں کھل کردھمکی دی ہے مگرعالمی برادری نے خاموش رہ کرہماری معاشی مجبوریوں کو دھمکی کی طرح استعمال کیا ہے۔ نئی افغان پالیسی پرقومی اتفاق رائے قائم نہ کیا گیا توغلطیوں کا قوی امکان ہے۔ ایک بھی غلطی ہوئی تو دھمکی دھمکی نہیں رہے گی حقیقی مسئلہ اختیارکرلیگی جو پاکستان کے لئے یقینی طورپر تباہ کن ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں