imran_khan speech at parliament 516

عمران خان بھی لیڈر بن سکتے ہیں؟ انصار عباسی

بھارت کشمیر کو ہڑپ کر گیا۔ اگرچہ میرا ایمان ہے کہ بھارت کو یہ کارروائی بہت مہنگی پڑے گی اور آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد میں مزید تیزی آئے گی لیکن گلہ یہ ہے ہم کیا کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی بات کی تو ایسا لگا جیسے ہم نے دنیا فتح کر لی ہو لیکن بھول گئے کہ کس ملک اور کس صدر کی بات پر اعتبار کر رہے ہیں۔ امریکہ کے ’’تاریخی‘‘ دورہ سے واپسی پر وزیراعظم عمران خان کو ہار پہنائے گئے، خود انہوں نے کہا کہ اُنہیں ایسا لگا جیسے وہ ورلڈ کپ جیت کر واپس ملک لوٹ رہے ہیں۔ لیکن ابھی ہم اس ’’کامیاب‘‘ دورہ اور ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کے ثمرات کا انتظار ہی کر رہے تھے کہ بھارت نے اپنے آئین کی دفعہ370 اور 35اے کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کو باقاعدہ طور پر اپنا حصہ بنا لیا۔ اس پر پاکستان جہاں اس وقت اندرونی طور پر سینیٹ کے معرکہ کی جیت کی خوشیاں منائی جا رہی تھیں، ہکا بکا رہ گیا۔ اسی لیے سوشل میڈیا پر کسی نے کیا خوب کہا کہ جب مودی مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی تیاری کر رہا تھا، ہم یہاں سینیٹ کا الیکشنManageکر رہے تھے۔ ان حالات میں ہمیں لگا جیسے 1971ء کے سانحہ کے بعد یہ پاکستان کے لیے سب سے بڑا غم کا موقع ہے لیکن باوجود اس کے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی قرارداروں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور شملہ معاہدہ اور لاہور ڈیکلریشن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کشمیریوں کی رائے کے خلاف مقبوضہ جموں و کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا، دنیا نے پاکستان کا ساتھ نہ دیا۔ ٹرمپ اور امریکہ نے تاریخ کو ایک بار پھر سچ ثابت کرتے ہوئے پاکستان سے منہ پھیر لیا، ثالثی کے اپنے وعدہ کو بھلا کر مقبوضہ کشمیر پر اس بھارتی کارروائی کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا۔ عرب امارات نے تو اس بھارتی فیصلہ کو سراہا، کسی دوسرے ملک بشمول سعودی عرب اور ایران نے بھی اس معاملہ پر کچھ بولنے سے گریز کیا جو دراصل بھارت کے ہی حق میں جاتا ہے۔ یہاں تک کہ چین نے اپنے اور بھارت کے درمیان تنازعات کی وجہ سے لداخ کی بات ضرور کی لیکن وہ بیان نہ دیا جس کا بہت سے پاکستانیوں کو انتظار تھا۔ چین نے ایسا کیوں کیا، اس پر ہمیں ضرور سوچنا چاہئے اور غور کرنا چاہئے کہ سی پیک کے حوالے سے جو منفی خبریں کچھ عرصہ سے آ رہی ہیں، وہ کہیں سچ تو نہیں اور کیا اسی وجہ سے چین پاکستان سے خفا تو نہیں؟ پورے اقوامِ عالم بشمول مسلم دنیا سے صرف ترک صدر رجب طیب اردوان کا بیان آیا جس میں اُنہوں نے کشمیر کے معاملہ پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس کے برعکس آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو اُسی روز جب بھارت نے کشمیر سے متعلق آئینی ترمیم کی وارننگ جاری کی، کہا گیا کہFATFکے معاملات اور خصوصاً دہشت گردی کی حمایت سے متعلق خدشات (جو دراصل بھارت سے تعلق رکھتے ہیں) کو دور کیا جائے ورنہ آئی ایم ایف کا قرضہ اور اس سے جڑی دوسری امداد سے پاکستان کو ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ اگر کوئی سمجھے تو یہ واضح ہو چکا ہے کہ بھارت نے یہ اقدام امریکہ کی مرضی سے اٹھایا اور اب پاکستان کو آئی ایم ایف اور FATFکے ذریعے بلیک میل کیا جائے گا تاکہ پاکستان کشمیر کے معاملہ پر اُس بھارتی اقدام کو اگر تسلیم نہیں بھی کرتا تو بھی وہ حدود عبور نہ کرے جن سے بھارت کو کوئی پریشانی لاحق ہو۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے بالکل درست کہا کہ بھارت میں اب نئے پلوامہ طرز کے حملے ہوں گے لیکن وہ الزام پاکستان پر لگائے گا۔ کشمیر کو بھارت نے ہڑپ تو کر لیا لیکن اُس کے لیے کشمیر کو ہضم کرنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ مسئلہ کشمیر کے اصل فریق کشمیری اس فیصلے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں، وہ تو پہلے ہی بھارت کے ظلم و ستم سے تنگ تھے اور آزادی اور ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ اب اُن کی تحریکِ آزادی مزید زور پکڑے گی، ممکنہ طور پر بھارتی فوج پر حملے بڑھیں گے، بھارت کو دھماکوں اور خود کش حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت بھی False Flag آپریشن کرکے ماضی کی طرح پاکستان پر الزامات عائد کر کے امریکہ کی مدد سے پاکستان کے لیے مزید مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس تناظر میں پاکستان کو اپنے اندرونی سیاسی معاملات Manageکرنے کے بجائے بین الاقوامی طور پر اپنے دوست ممالک کو فعال کرنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں چین سے بات کرکے سی پیک سے متعلق اُس کے تحفظات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ روس سے تعلق کو بہتر بنانا پڑے گا۔ سب سے اہم کام جو وزیراعظم عمران خان کو کرنا چاہئے وہ ترک صدر رجب طیب اردوان سے مل کر اُن کی اُس تجویز پر عملی اقدام کرنا ہے جس میں کہا گیا کہ ترکی، ملائیشیا اور پاکستان کو مسلم امہ کے احیا کے لیے اکٹھا ہونا چاہئے۔ مسلمان ممالک اور اسلامی دنیا کو جن مسائل کا سامنا ہے اور جس طرح مسلمانوں کو مارا، ستایا اور تڑپایا جا رہا ہے اُس کا واحد حل وہی ہے جو تجویز رجب طیب اردوان نے دی ہے۔ عمران خان ایک لیڈر بن سکتے ہیں، اگر وہ اردوان کے وژن کو سمجھتے ہوئے مسلم امہ کے احیاکے لیے عملی طور پر اپنا فعال کردار ادا کریں۔