طارق بن زیاد 661

طارق بن زیاد

Tariq Bin Ziad
طارق بن زیاد

تعارف:
طارق بن زیاد خلیفہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں افریقہ کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے نائب گورنرتھے۔موسیٰ بن نصیر نے اندلس کے ظالم بادشاہ راڈرک کے ہاتھوں ظلم کی چکی میں پسی مظلوم اسپینی عوام کو چھڑانے کی مہم طارق بن زیاد کو سونپی ۔ طارق بن زیاد نے اندلس کے ساحل’’ جبل الطارق‘‘ پر اتر کر اپنی تمام کشتیاں جلا ڈالیں تاکہ مسلمان پسپائی کے بارے میں نہ سوچ سکیں۔ انہوں نے 12 ہزار مجاہدین اسلام کے ساتھ شہنشاہ راڈرک کی’’ ایک لاکھ ‘‘ سپاہ کو ایک ایسی عبرت ناک شکست دی جس پر آج تک دنیا کے فوجی مبصرین حیرت زدہ ہیں۔ طارق بن زیادنے711ء سے 715ء کے دوران پورے اندلس کو خلافت مسلمہ کا حصہ بنا دیا۔
ابتدائی زندگی:
طارق بن زیاد الجیریا کے علاقے تفنا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام زیاد جبکہ والدہ کانام حلیمہ بی بی تھا۔ ان کی تاریخ پیدائش کے بارے میں شکو ک و شبہات پائے جاتے ہیں تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کی پیدائش 660ء کے اردگرد ہوئی( بمطابق50ہجری )۔ان کا تعلق بربر قبیلے ’’آ شداف‘سے تھا جو شمالی افریقہ میں مقیم تھا۔ تاریخ کے مطابق بربروں کو مسلمانوں نے650 سے 705 ء کے دوران بڑی مشکلوں سے مطیع کیا ۔وہ بہت بہادر اور لڑاکا قوم کے لوگ تھے جنہیں حکومتی تسلط میں لانا بہت مشکل کام تھا۔
ایک روایت کے مطابق طارق کا والد زیاد ایک غریب بر بر تھا جو مشہور عرب سردار موسیٰ بن نصیر کا ذاتی خدمت گار تھا ۔زیاد موسیٰ بن نصیر کے ساتھ ساتھ رہتا اور مختلف معرکوں اور دوردراز کے سفر میں اس کے ہمراہ چلتا۔ ایک مہم میں موسیٰ دشمن کے گھیرے میں آگیا تو ز یادنے اس کی جان بچائی ۔اس لئے وہ اس کا تہہ دل سے مشکور ہوگیا ۔ جب زیاد ایک لڑائی میں شدید زخمی ہو گیا اور کافی عرصہ تک بیمار رہنے کے بعدانتقال کر گیا تو اس کا نوجوان بیٹا اور ماں حلیمہ بی بی موسیٰ بن نصیر کی سر پر ستی میں آگئے اور اِس کے گھر میں رہنے لگے ۔ موسیٰ بن نصیر نے طارق کی پرورش اپنا بیٹا سمجھ کر کی۔ اس نے اپنے وقت کے بہترین اساتذہ کواس کی تربیت پر لگایا جس سے طارق کے اندر شائستگی،خوش اسلوبی اور دوسروں سے تعاون کا جذبہ پیدا ہوا۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک بہادر، خوبرو اور مقبول سپہ سالار بن گیا ۔لوگ اس کی عزت کرنے لگے اور اسے کی قریبی حلقوں کے سوا کسی کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ ہ اس کا بیٹا نہیں ۔جب وہ جوان ہوا تو اس میں سپہ سالاری والی تمام خصوصیات پیدا ہو چکی تھیں ۔واضح رہے کہ اس وقت مسلمان خلیفہ ولید بن عبدالملک کی قیادت میں پوری دنیا کو اپنے تسلط میں لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ولید بن عبدالملک کادور فتوحات کا دور تھا ۔ باہمت،جری اور بہادر جوانوں کو مسلمان فوج اور حکومت کے دیگر اداروں میں ان کی صلاحیتوں کے مطابق اہم مراتب پر فائز کیا جاتا تھا۔اگر اس وقت کی مسلمان قیادت کا جائزہ لیا جائے تو وہ اس کے بعد کے تمام ادوار پر حاوی نظر آتی ہے ۔مثال کے طور پر محمد بن قاسم ، قتیبہ بن مسلم، طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر جو آج بھی مسلمانوں کے ہیرو ہیں اور مسلمان ان کے کارناموں سے عزم و حوصلہ لیتے ہیں۔
اسپین کے حالات:
جیسا کہ اس زمانے میں مسلمان دنیا بھر کی فتوحات میں مصروف تھے۔ان کو مزید علاقے فتح کرنے کے لئے اندلس کے علاقے بہت مناسب معلوم ہوئے۔ اس وقت کے اندلس کے سیاسی حالات اس بات کا تقاضا کر رہے تھے کہ وہاں فوجی مداخلت کی جائے۔کیونکہ اس زمانے میں اندلس کی حکومت گاتھ قوم کے بادشاہ رواوٹیز کے ہاتھ میں تھی ۔اگرچہ رواوٹیز (جسے اہلِ عرب غیطشہ کہتے تھے ) ایک عیش پرست حکمران تھا مگراس نے اپنے زمانے میں کلیسا کے اجارہ داروں کی اصلاح کرنا ضروری سمجھا۔ ان کی بڑھتی ہوئی بد
عنوانیوں کو روکنے کی کوشش کی ۔اس لیے پادریوں نے جب اسے اپنے خلاف پایا اور دیکھا کہ وہ ان کے اقتدار کو مٹی میں ملانے پر تُلا ہوا ہے تو حکومت کے امر ا ء اور عیسائی عوام کو ساتھ ملا لیا اور اسے بے دین قرار دیتے ہوئے تخت سے اُتارنے کی جد و جہد شروع کردی۔ ایک طویل جد وجہد کے بعد وہ واوٹیز کو تخت سے محروم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اہل کلیسا ایک ایسے آدمی کو تاج سونپنا چاہتے تھے جو ان کی بات مانتا اور ان کے احکامات کی پیروی کرتا۔لہذا انہوں نے حکومت ایک ایسے بو ڑھے تجربہ کار فوجی راڈرک کے ہاتھ میں دے دی جسے شاہی خاندان سے دور کا بھی تعلق نہ تھا ۔ مگر وہ پادریوں کے مزاج کے مطابق کام کرتا تھا ۔گاتھ قوم کے حکمرانوں میں حکومت اور امراء کے درمیان تعلقات کو استوار اور مضبوط رکھنے کے لیے سیاسی مصلحت کے تحت مدتوں سے یہ دستور چلا آرہا تھا کہ اندلس کی حکومت کے رئیسوں ،امیروں اور جاگیرداروں کے بچے شاہی محل میں بادشاہ وقت کی ملکہ کے زیرِ نگرانی پرورش پاتے تھے ۔اس کے علاوہ بسا او قات ان بچوں کی شادیاں بھی ماں باپ کی بجائے خود شاہ کی طرف سے کر دی جاتی تھیں ۔راڈرک جب تخت پر بیٹھا تو سب سے پہلے اسی دستور سے نا جائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی اور عوام میں غیرمقبول ہو گیا۔اس نے شہزادیوں کی شادیاں اپنے خاندان میں کروانا شروع کر دیں۔ اسپین کے عوام عیاش راڈرک کے خلاف ہوگئے۔اس نے واوٹیز کی بانجھی کو زبردستی اٹھا کر اپنے حرم میں ڈال دیا۔ اس سے انتقام لینے کے لئے واوٹیز نے ایک خفیہ وفد موسیٰ بن نصیر کے پاس بھیجا۔
اندلس پرحملے کی اجازت:
موسیٰ بن نصیر نے اندلس کے اندرونی حالات اور راڈرک کے ظلم اورعیاشی کے واقعات سننے کے بعد خلیفہ ولید بن عبد الملک کو دمشق خط لکھ کر اندلس پر حملہ کرنے کی اجازت مانگی ۔ موسی ٰ بن نصیر کے ایلچی طریف ابن مالک کی واپسی کے بعد موسیٰ بن نصیر نے مارچ 711ء میں طارق بن زیاد کو سات ہزار فوج دے کر کاؤنٹ جولین کے ہمراہ روانہ کیا۔واضح رہے کاؤنٹ جولین کو گاتھ قوم نے اپنا نمائندہ بنا کر موسیٰ بن نصیر کے پاس بھیجا تھا ۔ یہ فوج کشتیوں اور جہازوں میں سوار ہو کر اندلس پہنچ گئی اور پہاڑی مقام پر ڈیرے ڈال دیے جو بعد میں طارق ہی کے نام پر انگریزی میں جبر ا لٹر اور عربی میں جبل الطارق مشہور ہوا۔
طارق بن زیاد کی اندلس میں فتوحات:
طارق بن زیاد 30اپریل711ء کو جبرالٹر کے ساحل پر اترا۔راڈرک اس وقت بلبونہ میں ایک فوج لیے ملک کے اندرونی دشمنوں سے نبرد آزما تھا ۔اسے جونہی طارق بن زیاد کے حملے کی اطلاع ملی تو اس مہم کوو ہیں چھوڑ کر چل دیا ۔اُدھر طارق بن زیاد بھی پیش قدمی کرتا ہو ا اندلس کے شہر شذو نہ تک پہنچ گیا ۔ اسے جب معلوم ہوا کہ راڈرک ایک لاکھ کا لشکر لیے اس کے مقابلے پر آرہا ہے تو اس نے ان جہازوں اور کشتیوں کو آگ لگا دی جن میں سوار ہو کر مسلم سپاہی یہاں پہنچے تھے ۔ پھرجب موسیٰ بن نصیر نے اس کی مدد کے لیے پانچ ہزار فوج اور بھیج دی تو بارہ ہزار فوج کو لے کر راڈرک کی ایک لاکھ سپاہ کا مقابلہ کرنے میدانِ جنگ میں نکل آیا۔وادی لکہ یا بکہ میں دریائے گراڈلٹ کے کنارے پر دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا ۔
طارق بن زیاد کی تقریر:
طارق بن زیاد نے جنگ شروع کرنے سے پہلے مجاہدین کے سامنے ایک مجاہدانہ اور ولولہ انگیز تقریر کی جس میں اس نے کہا:’’اے مسلمانو ! میدانِ جنگ سے بھاگنے کی اب کوئی صورت نہیں ۔تمہارے آگے دشمن کا وسیع ملک ہے اور پیچھے ٹھاٹھیں مارتا سمندر ۔خداکی قسم صرف ثابت قدمی ،پامردی اور استقلال ہی میں تمہاری بھلائی ہے۔ میں نے ان کشتیوں کو جلا دیا ہے جن پر بیٹھ کر آپ لوگ یہاں آئے ہو۔ یاد رکھو! اگر مسلمان میدان جنگ میں شہید ہو جائے تو لافانی ہو جاتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اللہ کے ہاں رزق پاتا ہے اور اس کا مقام و مرتبہ سب سے بلند ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے، جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کا شعور نہیں۔ کیا یہ سودا تمہارے لئے گھاٹے کا ہے کہ تم روز قیامت اللہ کے نبیوںؑ کے ساتھ اٹھاؤ جاؤ ۔ یاد رکھو یہ زندگی چند روزہ ہے اگر تم نے اس کو عیش و عشرت میں گزارا تو بھی گزر جائے گی اور اگر تم نے اللہ کی راہ میں بہادری سے موت کو گلے لگاکے گزارا تو اس کا صلہ دنیا اور آخرت دونوں میں عظیم ترین ہو گا۔لہذا دشمن کی تعداد کومت دیکھو، دشمن کے پاس ٹڈی دل لشکر ہے لیکن دشمن کے پاس وہ حوصلہ اور عزم نہیں ۔دشمن کے پاس شہادت کا وہ جذبہ نہیں جو تمہارے پاس ہے ۔آگے بڑھو اور میدان جنگ میں خالدبن ولیدؓ ، سعد بن وقاصؓ اور عبیدہ بن الجراحؓ کی یادوں کو تازہ کرو۔ آگے بڑھو اور بدر و حنین کی یاد تازہ کرو۔آگے بڑھو اور معرکہ خیبر کی یاد تازہ کرو۔ تم اللہ کے سپاہی ہو۔ تمہیں موت نہیں آتی اور یاد رکھو! اگرآج تم بہادری کی ایک نئی داستان لکھ گئے تو یہ داستان آنے والوں وقتوں میں ایک مثال بن جائے گی اور لوگ اسے بار بار دھرائیں گے ۔لوگ تمہاری داستان سے عزم و حوصلہ پائیں گے۔‘‘
طارق بن زیاد کی یہ تقریر پورے عالم اسلام میں مشہور ہوئی۔ علامہ محمد اقبال ؒ نے طارق کی اس تقریر کو طارق کی دعا کی صورت میں کچھ یوں پیش کیا ہے:
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
اس میں کوئی شک نہیں کہ طارق بن زیاد نے وہ داستان لکھ دی جو بعد میں آنے والے ہر مسلمان سپہ سالار اور سپاہ نے مشکل کی ہر گھڑی میں دھرائی ۔ اسی داستان کو صلاح الدین ایوبی ، نور الدین زنگی ، محمود غزنوی ، شہاب الدین غوری اور ظہیرالدین بابر جیسے سپہ سالاروں نے دھرا کر ناقابل یقین معرکے جیتے۔
طارق بن زیاد کی تقریر کا رد عمل:
طارق بن زیادہ کے بارہ ہزار کفن پوش سپاہی حکم ملتے ہی دشمن پر ٹوٹ پڑے ۔ راڈرک کی فوج مسلمانوں کے حملے کی تاب نہ لا کربُری طرح پسپا ہوئی ،یہاں تک راڈرک اپنی جان بچانے کے لیے میدانِ جنگ سے بھاگ نکلا اور بد حواسی کے عالم میں بھاگتا ہوا دریا میں ڈوب کر مر گیا ۔بچے کھچے سپاہی بھاگ کر استجہ پہنچ گئے اور میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا ۔
طارق بن زیادہ کا سپین پر قبضہ:
اب طارق بن زیاد کی فوج کا زیادہ حصّہ تو غرناطہ کی طرف بڑھا ،جبکہ دوسرا حصہ قرطبہ پر حملہ آور ہوا ۔تیسرے حصے نے مالفہ کی راہ کی اور چوتھا حصہ خود طارق بن زیاد اپنے ساتھ لے کر اندلس کے پایہ تخت طلیطلہ پہنچا ۔انہوں نے جب سنا کہ طارق بن زیاد ان پر چڑھائی کے ارادے سے چلا آرہا ہے تو تمام دولت اورنوادرات کو دوسرے مقامات پر منتقل کر دیا اور خود شہر چھوڑ کر جبل شارات کی پشت پر دوسرےشہر چلے گئے ۔چنانچہ طارق بن زیاد جب یہاں پہنچا تو اس نے شہر کو خالی پایا ۔اس طرح بغیر جنگ و جدل کے طلیطلہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ۔موسیٰ بن نصیر نے کاوئنٹ جولین کی راہنمائی میں شذونہ کو پار کرتے ہوئے قرمونہ کا رخ کیا ۔یہ شہراپنی مضبوطی اور استحکام کے لحاظ سے اندلس بھر میں لاجواب تھا اور اسے فتح کرنا آسان نہ تھا۔کاوئنٹ جولین کے ساتھیوں نے اس مشکل کا حل تلاش کرنے کے لیے ترکیب کی کہ خود کو شکست خورہ سپینی ظاہر کر کے اہلِ قرمونہ سے پناہ کی درخواست کی جسے انہوں نے قبول کر لیا ۔جب رات ہوئی ،تاریکی ہر طرف پھیلنے لگی ،یہاں تک کہ تمام شہر کے لوگ سو گئے تو کاؤنٹ جولین نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر رات کے اندھیرے میں شہر کے پھاٹک کھول دیے۔پھاٹک کھلتے ہی اسلامی فوج اندداخل ہوگئی اور بغیر جنگ و جدل کے قرمونہ جیسا بڑا شہر اور اس کے مضافات پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا ۔
اندلس کی حکومت کے پایہ تخت طلیطلہ کے بعد دوسرا اہم صوبہ قرطبہ تھا ۔ اس کی جانب مہم کو طارق بن زیاد نے خلیفہ ولید بن عبدالملک کے ایک تجربہ کار غلام مغیث رومی کو بھیجا ۔ مجاہدین اسلام رات کی تاریکی میں شہر کی طرف بڑھے ۔ اتفاقاًجب وہ دریا کو پار کر کے فصیل تک پہنچے تو بارش ہونے لگی ۔ موسم سرد تھا ،شہر پناہ کے محافظ کونوں کھدروں میں جا کر سو گئے ۔ مغیث نے بڑے اطمینان و سکون کےساتھ گھوم پھر کر شہر پناہ دیکھا مگر اسے کوئی راستہ نہ ملا ۔ ابھی وہ کچھ سوچتا ہوا دو قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ اچانک ایک روزان دکھائی دیا اور اس کے پاس ایک اونچا سا درخت تھا ۔ چند مسلمان پگڑیوں کی کمند بنا کر درخت کے سہارے اوپر پہنچ گئے ، نیچے اتر کر پہرہ داروں کو قتل کر دیا اور پھاٹک کھول دیے۔ باہر جو لشکر اسلام انتظار میں کھڑا تھا دروازہ کھلتے ہی اندر آگیا اور سیدھا قصر حکومت کی طرف بڑھا ۔ صوبے دار محل خالی کر کے شہر کے مغربی حصے’’ کنسیہ‘‘ میں پناہ گزیں ہو گیا ۔یہ مستحکم اور سنگین کنسیہ بجائے خود ایک قلعہ تھا ۔
ابن قتیبہ نے لکھا ہے کہ طلیطلہ کی فتح میں مسلمانوں کو اتنا سونا ،چاندی اور مختلف قسم کا دوسرا قیمتی سازوسامان ہاتھ آیا کہ شمار سے باہر ہے۔ اس کے بعد موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد دونوں سپہ سالار آگے پیچھے روانہ ہوئے اور طلیطلہ سے سرغوسہ تک تمام علاقے فتح کرڈالے ۔اب مسلمان پورے اندلس پر قابض ہو چکے تھے اور انہوں نے وہاں ایک فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی جو بعد میں عبدالرحمن الداخل نے اس ایک مستقل حکومت کی شکل دی اور مسلمانوں نے اندلس پر پانچ سو سال تک حکومت کی۔
وفات :
طارق بن زیاد نے ناقابل یقین معرکہ سرانجام دے کر دنیا کو حیران کر دیا۔ ان کا نام سلطنت اسلامیہ کے طول وعرض میں بہادری کے ایک استعارے کے طور پر یاد کیا جانے لگا۔ ولید بن عبدالملک کے انتقال کے بعد جب سلیمان بن عبدالملک خلافت پر متمکن ہوا تو اس نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے ولید بن عبدالملک کے تمام نامی گرامی عاملین اور سپہ سالاروں کو تہ تیغ کر نے کا منصوبہ بنایا۔اس کے امراء ، وزرا اور عاملین نے اسے بہت سمجھایا کہ ان عظیم لوگوں کو قتل کر کے وہ تاریخ اسلام میں مطعون و ملہون ٹھہرے گا لیکن خلیفہ نے کسی کی ایک نہ سنی۔ لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی نئے خلیفہ کے دل میں ان امرا ء کے خلاف کدورت نہ گئی جنہوں نے ولید بن عبدالملک کی قیادت میں حیرت انگیز کارنامے سرانجام دئیے تھے۔چنانچہ محمد بن قاسم،موسیٰ بن نصیر ، اور طارق بن زیاد وغیرہ جیسے جرنیلوں کو سلیمان بن عبدالملک کی انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بننا پڑا ۔715ء میں موسیٰ بن نصیر پر روپے پیسے کی خرد برد کا الزام لگایا گیا۔ اسے دھوپ میں کھڑا کیا گیا اور کئی لاکھ روپے کا تاوان ادا کرنے کی سزا دی گئی جسے وہ ادا نہ کر سکا اور اسی صدمے میں چل بسا کچھ ایسا ہی معاملہ طارق بن زیاد سے بھی پیش آیا۔طارق بن زیاد کی موت 720ء میں اسی کسمپر سی کی حالت میں ہوئی جب اس کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں