mazhar-barlas 349

یہ معاشرہ تو ایسا نہیں تھا. مظہربرلاس

پہلے ایک افسوس ناک خبر، ہمارے جنگ کے کالم نگار ایس اے زاہد کے جواں سال صاحبزادے داغ مفارقت دے گئے ہیں، مرحوم محمد علی شاہ ’’جنگ‘‘ راولپنڈی کے رپورٹر آصف علی شاہ کے بھائی تھے۔ میرا اس خاندان سے تعلق برسوں پرمحیط ہے۔ میرے لئے ایس اے زاہد برادر بزرگ ہیں، ان کے بیٹے بھتیجوں اور چھوٹے بھائیوں جیسے لاڈلے ہیں۔ شاہ صاحب کی ہستی کو سمجھنا بہت مشکل ہے کہ وہ دنیا داری سے کہیں دور ہیں مگر جواں سال بیٹے کی موت نے انہیں توڑ کے رکھ دیا ہے، اب مرحوم کے لئے دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ خدائے لم یزل اس کی مغفرت کرے۔ اس جہان سے سب کو چلے جانا ہے مگر لوگوں میں خدا خوفی نہیں رہی۔ معاشرے میں دولت کی ہوس نے ایسے پنجے گاڑے ہیں کہ رشتوں سے دولت کی دیوی بڑی ہوگئی ہے۔ لوگ اختیارات اور عہدوں کااستعمال بھی دولت کی آنکھوں سے کرتے ہیں۔ کوئی نہیں سوچتا کہ باب العلم حضرت علیؓ سے جب کسی نے دولت کی حیثیت سے متعلق پوچھا تو انہوں نے ہتھیلی پر تھوڑی سی خاک رکھ کر پھونک مار کر اڑاتے ہوئے فرمایا . . . . ’’بس دولت کی یہی حیثیت ہے . . . .‘‘ افراتفری کے اس دور میں لوگ لوگوں کو یاد بھی کم رکھتے ہیں۔ مغرب کی تیز رفتار زندگی تو شاید لوگوں سے یہ ہنر بھی چھین لیتی ہے مگر میں لندن میں مقیم اپنے راوین طاہر چودھری کے علاوہ مستحسن بھائی سمیت کئی دوستوں کاشکر گزا ر ہوں کہ وہ مصروفیات میں سے وقت نکال کر حسنِ اخلاق سے پوچھ لیتے ہیں، ہمارے ہاں تو اب حسنِ اخلاق بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا احساس مجھے لاہور میں ایک تقریب کے دوران ہوا۔

12ربیع الاول کے دن لاہور میں ایک شاندار تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ ’’اسلام فار آل‘‘ آگاہی مہم کی افتتاحی تقریب بلوچستان اسمبلی کی سابق رکن فرح عظیم شاہ نے سجائی تھی۔ اس مہم کا واحد مقصد یہ ہے کہ حضورؐ کی بتائی ہوئی تعلیمات سے معاشرے کو سدھارا جا سکے۔ ابتدائی کلمات میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سیاستدان فرح عظیم شاہ نے اس پوری مہم سے حاضرین کو آگاہ کیا اوربتایا کہ یہ مہم وقت کا تقاضا ہے۔ تقریب میں بطور مہمان خصوصی لاہور کی ہر دلعزیز سیاسی شخصیت صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں نبی پاکؐ کی تعلیمات پر پوری طرح عمل کرنا چاہیے۔ ہم جذبات پر عمل کرتے ہیں اور اپنے فوائد کے لئے جزیات چن لیتے ہیں، یہ طرز عمل درست نہیں، جب ہمیں مکمل رہنمائی دی گئی ہے تو پھر ہمیں پوری طرح عمل کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف اور سینئر صحافی میاں حبیب سمیت رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ کاردار نے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر تنزیلہ عمران خان نے بڑی خوبصورت بات کی کہ . . . ’’اگر روز حشر اللہ تعالیٰ نے صرف اخلاق حسنہ سے متعلق پوچھ لیا تو کیا ہم سب اس کا جواب دے سکیں گے؟. . . ‘‘ویمن پروٹیکشن اتھارٹی پنجاب کی سربراہ کنیز فاطمہ چدھڑ نے کچھ برس پہلے کے معاشرے کا آج کے معاشرے سے خوبصورت تقابلی جائزہ پیش کیا اور کہا کہ آج سمجھانے والے بزرگ معاشرے میں نہیں رہے۔لاہور کی اس یادگار تقریب کی سب سے جاندار تقریر مجیب الرحمٰن شامی کی تھی، اس روز شامی صاحب کی خطابت جوبن پر تھی۔ مجیب الرحمٰن شامی سے ہماری اٹوٹ محبت ہے وہ گزشتہ پانچ چھ دہائیوں سے قلمی جہاد کے علاوہ خطابت کے جوہر بھی دکھا رہے ہیں۔ آغا شورش کاشمیری کے بعد صحافیوں میں اعلیٰ پائے کا خطیب مجیب الرحمٰن شامی ہی کو کہا جاسکتا ہے، ان کی تقریروں میں سیاسی و سماجی امور کے علاوہ سلجھائو کی سچی کرنیں ضرور ملتی ہیں، اس روز بھی وہ کہنے لگے . . . .’’ جیسے ہوا، پانی، چاند اور سورج پوری کائنات کے لئے ہیں اسی طرح حضرت محمد ؐ کی ہستی بھی پوری انسانیت کے لئے ہے، وہ رحمت اللعالمین ہیں، رحمت اللمسلین نہیں۔ ہم دن تو مناتے ہیں مگر انؐ کی باتوں پر عمل کہاں کرتے ہیں، انہوںؐ نے تو مدینے میں بہترین معاشرہ تشکیل دیا تھا، ہم نے کیا کیا، ہمارے معاشرے میں تو امیروں نے اپنی بستیاں الگ بنا لیں، اپنے سکول الگ بنا لئے، اپنے ہسپتال اور گرائونڈ الگ بنا لئے بلکہ معاشرہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اس معاشرے میں امیروں نے اپنے قبرستان بھی الگ بنا لئے. . . .‘‘شامی صاحب کی باتیں درست ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں لوگوں کے مابین سماجی فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔ ایسے فاصلے کسی سامراجی سماج میں تو ہوسکتے ہیں مگر ایک اسلامی معاشرے کو تو یہ ہرگز زیب نہیں دیتے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں طبقاتی تقسیم اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہے۔ ہم نام تو رسول پاکؐ کا لیتے ہیں مگر ان کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ ہمارے معاشرے میں جھوٹ، فریب، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور ناانصافی عام نہیں؟ ہمارے ہاں لوگ ایک دوسرے کا حق نہیں مارتے؟ کیا ہمارے ہاں منافقت کا چلن عام نہیں؟ کیا ہم اپنے ہمسائیوں کا خیال رکھ سکتے ہیں؟ کیا ہم صفائی کے معاملے میں اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ اسے نصف ایمان قرار دیا گیا۔ کیا ہمارے ہاں بچوں اور عورتوں کو ہراساں نہیں کیا جاتا، کیا ظلم عام نہیں؟ اب تو لوگ والدین کا احترام بھی بھول گئے ہیں، کیا معاف کردینے کا رویہ ہے؟ کیا عدم برداشت نہیں بڑھ گیا؟، کیا حق داروں کو ان کا حق مل رہا ہے؟ اگر ان سب باتوں کا جواب نہیں تو پھر عشق رسولؐ کے دعوے کیسے؟ ہم سے تو وہ لڑکی کہیں اچھی ہے جو اس تقریب میں ایک کونے میں بیٹھی تھی جس نے ایسے والدین کے لئے ایک مرکز بنایاہے جن کو ان کی اولادیں چھوڑ گئیں۔ کومل سلیم نے لاہور کے وسط میں سایہ کے نام سے شاندار ادارہ بنا کر معاشرے کے بے رحم رویوں کا ماتم کیا ہے اور بتایا ہے کہ خدمت یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ بقول فرازؔ:

شکوۂ طلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

اپنا تبصرہ بھیجیں