mazhar-barlas 337

ہندوستانی خارجہ پالیسی کی ڈی کوڈنگ

جب سے اکبر حسین درانی اطلاعات کے وفاقی سیکرٹری بنے ہیں، وزارت کے تحت کوئی نہ کوئی مباحثہ یا سیمینار ایسا منعقد کرواتے ہیں جس سے انفارمیشن گروپ کے نئے افسران کے لئے خاص طور پر سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے۔

اگرچہ ان مباحثوں میں اخبارات کے ایڈیٹرز، کالم نگار اور وزارت اطلاعات کے سینئر افسران بھی مدعو ہوتے ہیں مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ نئے آنے والے افسران کے لئے یہ مباحثے انتہائی اہم ہیں۔

وزارت اطلاعات نے گزشتہ دنوں بھی ایک ایسے ہی مباحثے کا اہتمام کیا جس کا عنوان تھا ’’ہندوستانی خارجہ پالیسی کی ڈی کوڈنگ‘‘ مباحثے میں وزارت خارجہ کے چار سابق اہم عہدیدار شریک تھے۔

سابق سیکرٹری خارجہ ریاض حسین کھوکھر سمیت تین سابق سفیروں سلیمان بشیر، عزیز احمد خان اور آصف درانی نے خطے کی صورتحال پر بڑی تفصیل سے بات کی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ سفیر اسی خطے میں خدمات انجام دے چکے ہیں، دو سفیر تو بھارت میں رہے۔

مباحثے میں پرنسپل انفارمیشن آفیسر شاہیرہ شاہد، ڈی جی ریڈیو امبرین جان (راوین) اور منظور میمن سمیت وزارت کے سینئر افسران خاصے متحرک نظر آئے۔

مباحثے کے آغاز میں بطور میزبان اکبر حسین درانی کا کہنا تھا کہ ’’یہ سیشن ہمیں علاقائی اور عالمی تناظر میں چیلنجز اور آر ایس ایس کی قیادت میں ہندوستانی حکومت کی اشتعال انگیز خارجہ پالیسی کو سمجھنے میں مدد فراہم کرے گا کیونکہ ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے، اسے پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح آر ایس ایس کے غنڈے اقلیتوں کے مذہبی مقامات، اجتماعات حتیٰ کہ گھروں میں گھس کر انسانیت سوز سلوک کر رہے ہیں۔

ان واقعات نے ہندوستان کی حکومت کا اصل ’’چہرہ‘‘ بے نقاب کر دیا ہے۔ اب دنیا اسے راشٹر انڈیا کے نام سے جاننے لگی ہے جبکہ ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان ایک پرامن اور ذمہ دار ریاست کے طور پر نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی امن کے لئے کردار ادا کر رہا ہے، پاکستان نے حالیہ افغان امن میں جو مثالی کردار ادا کیا دنیا اس کی معترف ہے۔

بھارت تو سرزمینِ ِافغانستان کو دہشت گردی کے لئے استعمال کرتا رہا، بھارت اپنے ہمسایہ ملکوں میں کیا چاہتا ہے، اس کا سب سے بڑا ثبوت کلبھوشن یادیو کی صورت میں دنیا کے سامنے ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی سے کون واقف نہیں۔ ہندوستان خطے کا امن تباہ کر رہا ہے‘‘۔

اکبر حسین درانی نے مقبوضہ کشمیر پر ہندوستان کے غیر قانونی قبضے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ہندوستانی خارجہ پالیسی کا چہرہ بھرپور انداز میں بے نقاب کیا۔

سابق سفیر سلیمان بشیر کا کہنا تھا کہ ہمیں ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، ہمیں ہندوستان کی خارجہ پالیسی سمجھنے کے لئے ان کی ذہنیت کا اندازہ لگانا ہو گا۔ میرے نزدیک ہندوستان نو آبادیاتی قبضے، استحصال اور فرسودگی کی پیداوار ہے۔

اسے خطے میں سو سالہ برطانوی راج سے تخلیق کیا گیا، ہندوستان تو کبھی بھی متحد نہیں تھا، یہاں مختلف ریاستیں، راجواڑے اور سلطنتیں تھیں لہٰذا آج کا ہندوستان برطانوی سامراج کا نوآبادیاتی پیکیج ہے، ہندوستانی یونین کے اندر 29ریاستیں ہیں، ہر ایک کی نسل، ثقافت اور زبان الگ ہے۔

مثال کے طور پر میں نے مغربی بنگال کا سفر کیا، مسٹر منظور میرے ساتھ تھے، ممتا بینرجی کا پاکستان کے بارے میں مختلف نظریہ تھا جبکہ مورین سلطنت پٹنہ میں وزیراعلیٰ نتیش کمار کا پاکستان سے متعلق نظریہ بالکل ہی مختلف تھا جیسا کہ ارون دھتی رائے نے حال ہی میں کہا کہ ریاست ہند حیدرآباد، جونا گڑھ، گوا، سکم اور آسام کی ہمیشہ سکھوں اور مقبوضہ کشمیر سے لڑائی رہی۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ انڈین یونین بہت نازک ہے۔

ہندوستان کا قومی مفاد لوگوں کی فلاح و بہبود یا سماجی و اقتصادی ترقی نہیں، ان کا قومی مفاد ہندو سامراج ہے، اسی سوچ کے تحت وہ بڑے بڑے خوابوں پر مشتمل محلات بناتے ہیں جیسا کہ جسونت سنگھ نے کہا کہ ہندوستان کی اصل سرحدوں میں افغانستان بھی شامل ہے اور میانمر بھی۔

سابق بھارتی سیکرٹری خارجہ شیام سرن اپنی کتاب میں بھی ہندوستانی خارجہ پالیسی کو مہا بھارت سے تعبیر کرتے ہیں۔ بھارت کے لوگ پاکستان کو ہدف تنقید بناتے ہیں اور یہ سبق وہاں کی ہندوانہ سوچ نے دیا ہے، وہ پاکستان کو توڑنے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں میرے نزدیک جموں و کشمیر تنازع کا پرامن حل ناممکن ہے۔

بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے نزدیک ہندوستان پر تین بوجھ ہیں، 1947ء کی تقسیم، اصلاحات اور معاشی اصلاحات کا چین کے بعد شروع ہونا۔

بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عزیز احمد خان کے نزدیک ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں ایک چھوٹا سا عنصر افسانوں کا ہے اور اسی طرح ایک چھوٹا سا عنصر بالی وڈ کا ہے۔

ہندوستانی خارجہ پالیسی بنانے والے داستان گوئی کر رہے ہیں مگر ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا مستقل عنصر پاکستان دشمنی ہے۔ سابق سفیر آصف درانی کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی برسوں کا نتیجہ ہے اور مودی کے آنے کے بعد بھارت نے اپنے ہمسایوں کے ساتھ متصادم پالیسی اپنا رکھی ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہندوستانی حکومت نے کشمیری عوام سے متعلق جو وعدہ اقوام عالم کے سامنے کیا تھا وہ پورا نہیں کیا۔

سابق سیکرٹری خارجہ ریاض کھوکھر نے بتایا کہ میں ہندوستانی خارجہ پالیسی کو بالکل شفاف سمجھتا ہوں، اس کا جواب یہی ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کشمیری آزادی حاصل کریں تو پھر ہمیں ان کی ہر طرح سے مدد کرنی چاہئے اور یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے۔ اس مباحثے میں اور بہت سی باتیں ہوئیں مگر کالم میں اتنی جگہ کہاں؟ ایمان قیصرانی کا شعر یاد آ رہا ہے کہ ؎

وہ میرے سائے سے بھی گریزاں

میں جس کی قربت میں جی رہی ہوں