گفتگو کیسے کریں 414

ہم گفتگو کیسے کریں

ہم گفتگو کیسے کریں

زبان وبیان اللہ تعالٰی کی ایک عظیم نعمت ہے جس سے اس نے انسانوں کو نوازا ہے اُس کے ذریعے تمام مخلوقات پر اُسے فضیلت بخشی ہے۔
الرَّحْمَـٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ﴿سورہ رحمٰن ١-٤﴾
نہایت مہربان اللہ نے اس قرآن کی تعلیم دی اسی نے انسان کو پیدا کی اور اُسے بولنا سکھایا۔

نعمت جیسی عظیم ہوگی اس کا حق اتنا ہی زیادہ ہوگا، اس کا شکریہ ادا کرنا اتنا ہی ضروری ہوگا اور اس کی ناشکری وناسپاسی اتنی ہی زیادہ قابل ملامت ہوگی، اسلام نے وضاحت کی ہے کہ لوگ اس نعمت غیر مترقبہ سے کس طرح فائدہ اتھائیں اور باتیں جو دن بھر ان کی زبان پر جاری رہتی ہیں کس طرح انہیں خیروحق کے لئے استعمال کریں ایسے افراد کی تعداد کم نہیں ہے جن کی گفتگو کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا اور نہ ان کی زبان خاموش ہوتی ہے اگر ان کی گفتگوؤں کا آپ احاطہ کریں تو دیکھیں گے کہ ان کا زیادہ حصہ لغو، بیکار اور دل آزاد باتوں پر مشتمل ہوتا ہے حالانکہ اللہ تعالٰی نے اس کے لئے منہ میں زبان نہیں رکھی تھی اور نہ اسے یہ صلاحتیں اس مقصد کے لئے دویعت کی تھیں۔

لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ﴿النساء ١١٤﴾۔
ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی خیر نہیں، ہاں! بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادے سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑا ﺛواب دیں گے۔

اسلام نے کلام، اس کے اسلوب اور اس کے آداب وقواعد کی طرف خصوصی توجہ دی ہے، اس لئے کہ کسی انسان کے منہ سے نکلی ہوئی بات اس کی عقلی سطح اور اخلاقی فطرت کو بتاتی ہے اور اس لئے بھی کہ کسی جماعت میں گفتگو کے آداب اس کے عام معیار کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس ماحول میں فضیلیت وشرافت کے نفوذ کا پتہ دیتے ہیں۔

اپنا محاسبہ کیجئے!۔
دوسروں سے مخاطب ہونے سے پہلے خود اپنی طرف جھانکیں اور اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ کیا کوئی ایسا موقو ہے جو گفتگو کا متقاضی ہے؟۔ اگر جواب اثبات میں ہو تو بات کیجئے ورنہ خاموشی زیادہ بہتر ہے بلاضرورت مواقع پر گفتگو سے پرہیز کرنا بڑے اجر کی بات ہے۔

خضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ کہتے ہیں۔
قسم ہے اُس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس روئے زمین پر طویل المعیاد قید کا زبان سے زیادہ کوئی مستحق نہیں (طبرانی)۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔
پانچ باتیں ایسی ہیں جو کالی دھاری کے ٹانگوں والے گھوڑوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔
١۔ بےمطلب کی باتیں نہ کرو کیونکہ یہ فضول اور لغو ہے اور میں اس سے تمہارے گناہ میں پڑجانے کے اندیشہ سے مطمئن نہیں ہوں۔
٢۔ کام کی باتیں کرو تو اس وقت جب کہ اس کا موقع ہو، اس لئے کہ بہت سے لوگ ہیں جو بےموقع کی باتیں کرتے رہتے ہیں یہ عیب ہے۔
٣۔ کبھی سمجھدار یا بےوقوف سے کج بحثی نہ کرو، اگر وہ سمجھدار ہے تو تم سے ناراض ہوجائے گا اور نفرت کرنے لگے گا اور اگر بےوقوف اور جاہل ہے تو ہمیں نقصان پہنچانے کے درپے ہوجائے گا۔
٤۔ اپنے بھائی کی غیرحاضری میں ان الفاظ میں اس کا ذکر کرو جو تم خود اپنی موجودگی میں اس سے سننا چاہتے ہو اور اسے ان چیزوں سے بڑی قرار دو جن کے بارے میں تم چاہتے ہو کہ وہ تمہیں ان سے بری سمجھے۔
٥۔ اس آدمی کا ساعمل کرو جو یہ سمجھتا ہے کہ احسان پر اسے نوازا جائے گا اور جرائم پر اس کی گرفت ہوگی۔
کوئی مسلمان ان صفات کو اسی وقت پیدار کرسکتا ہے جب وہ اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہو اور اس کی نکیل اپنے ہاتھ میں رکھتا ہو جہاں خاموشی ضروری ہو وہاں اس کی لگام کھینچ لے اور جہاں گفتگو کی ضرورت محسوس ہو وہاں اسے قابو میں رکھتے ہوئے چھوڑ دے لیکن جن کے اوپر اُن کی زبانوں کی حکومت چلتی ہے وہ پیچھے کی طرف دھکیل دیے جاتے ہیں اور زندگی کے میدان میں انہیں ذلت ورسوائی نصیب ہوتی ہے۔

خاموشی میں عافیت!۔
اول فول اور واہی تباہی بکنے سے عقل بھی جاتی رہتی ہے جو لوگ مجلسوں میں اپنی باتوں سے تمام شرکاء پر چھاجانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی زبان سے گفتگو کی بارش ہوتی رہتی ہے، ان میں سے اکثر اپنے عمل سے سامعین کو یہ یقین دلادیتے ہیں کہ ان کی باتوں کو کسی زندہ وہوش مند شعور یاگہری فکر کا نتیجہ نہ قرار دیں بلکہ بسا اوقات توگمان ہونے لگتا ہے کہ اس طول تقریر اور عقل ودرایت کے درمیان کوئی ادنٰی ساتعلق بھی نہیں ہے۔

انسان جب بھی اپنی حیثیت پر غور کرنا چاہتا ہے اور اپنے دین کی مرتب ویکجا کرنا چاہتا ہے تو ہنگامہ وغوغا کے ماحول سے بھاگ کر پرسکون یا خاموش فضاء میں پناہ لیتا ہے اس لئے اگر اسلام خاموشی کی تلقین کرتا ہے اور اسے مہذب تربیت کا ایک بڑا وسیلہ تصور کرتا ہے تو مقام حیرت نہیں ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو ایک نصیحت یہ بھی کی تھی کہ خاموشی اخیتار کرو، یہ شیطان کو بھگانے کا ایک ذریعہ ہے اور تمہارے دین کے معاملہ میں تمہارا مددگار (مسند احمد)۔

بےشک زبان شیطان کے ہاتھ میں پڑی ہوئی رسی ہے جسے وہ جدھر چاہتا ہے پھیر دیتا ہے جب انسان اپنے معاملہ پر قابو نہیں رکھ پاتا ہے تو اس کا منہ ان تمام باتوں کی گزرگاہ بن جاتا ہے جو دل کو ملوث کردیتی ہیں اور اس کے اوپر غفلت کی چادر چڑھا دیتی ہیں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
کسی بندے کا ایمان سیدھا نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نہ سیدھا ہو جائے اور اس دل سیدھا نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی زبان درست نہ ہوجائے (مسند احمد)۔

اسی راستی اور درستگی کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان غیرمتعلق معاملات سے اپنا ہاتھ جھاڑ لے اور ان امور میں مداخلت نہ کرے جن کے بارے میں وہ جواب دہ نہیں ہے یہ آدمی کے حسن ایمان کی دلیل ہے کہ وہ لایعنی کاموں کو چھوڑ دے (ترمذی)۔

لغو سے پرہیز کامیابی کی شرط ہے۔
لغو سے پرہیز کرنا کامیابی کی شرط اور کمالات کی دلیل ہے قرآن کریم نے اس کا تذکرہ ٢ محکم فرائض کے درمیان کیا ہے جس سے اس کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ﴿سورہ مومنون ١-٤﴾
یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغو بات سے دور رہتے ہیں اور زکوہ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔

اگر پوری دنیا کے انسان اپنے ان مشاغل کو شمار کریں جو وہ لغو قول وعمل میں لگاتے ہیں تو یہ نتیجہ سامنے آئے گا کہ پھیلی ہوئی داستانوں اور کہانیوں، مشہور ومعروف خبروں اور افسانوں، تقریروں اور نشریات وغیرہ کا بیشتر حصہ لغو اور فضول چیزوں پر مشتمل ہے جن سے نگاہیں سینکی جاتی ہیں جن کی طرف کان لگائے جاتے ہیں لیکن ان کا کوئی فائدہ سامنے نہیں آتا۔

اسلام نے لغو سے اپنی کراہیت کا اظہار کیا ہے، اس لئے کہ سطحی اور بےفائدہ چیزیں اس کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتیں، پھر جن چیزوں میں کوشش اور جدوجہد کرنے اور اُن سے پیداوار حاصل کرنے کے لئے انسان کی تخلیق ہوئی ہے ان کو چھوڑ کر دوسرے کاموں میں اپنی عمر برباد کرنا بھی دراصل لغو ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کا انتقال ہوگیا تو ایک دوسرے شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، وہ جنت میں جائے گا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوکا تو کیا تمہیں علم ہے؟ِ ہوسکتا ہے کہ لایعنی گفتگوؤں میں اُس نے حصہ لیا ہو یا مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لیا ہو حالانکہ اس سے کوئی کمی نہیں ہوتی (ترمذی)۔

لغو باتیں کرنے والا اپنی فکر اور گویائی کے کمزور رشتہ کی وجہ سے جو کچھ منہ میں آتا ہے بکتا چلا جاتا ہے بسا اوقات وہ ایک ایسی بات بھی کہہ جاتا ہے جس سے وہ خطرے میں پڑجاتا ہے اور اپنا مستقبل تباہ کرلیتا ہے کہا جاتا ہے کہ جو جتنا زیادہ بولے گا اس سے اتنی ہی زیادہ غلطیاں سرزد ہونگی ایک عربی شاعر نے کہا ہے!۔

آدمی کے قدموں سے جو لغرش ہوتی ہے وہ زبان کی لغرش کی خطرناکیوں سے کہیں کم ہوتی ہے (بہیقی)۔

سخن دل نواز۔۔۔ داعی کا رخت سفر!۔
جب آدمی بات کہے تو اچھی اور بھلی بات کہے اور اپنی زبان کو خوبصورت اور باوقار گفتگو کا عادی بنائے، اس لئے کہ دل میں اٹھنے والے خیالات کی بہترین تعبیر ادب عالیہ ہے جس سے اللہ نے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو نوازا ہے قرآن نے وضاحت سے کہا ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل سے جو عہد لیا گیا تھا اس میں ایک یہ بھی تا کہ وہ اچھی اور بھلی بات کہیں۔

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّـهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ ﴿البقرہ ٨٣﴾۔
اور یاد کرو اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ رشتہ داروں کے ساتھ یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوہ دینا۔

پاکیزہ اور عمدہ گفتگو دوستوں اور دشمنوں سب پر اثر انداز ہوتی ہے اس کے میٹھے پھل ظاہر ہوتے ہیں اور یہ دوستوں کے درمیان محبت کی حفاظت اور اُن کی دوستی کو مستحکم اور پائیدار کرتی ہے اور شیطان کی تمام چالوں کو ناکام بنادیتی ہے کہ وہ ان کے رشتے کمزور کرسکے اور ان کے درمیان فتنہ فساد ڈال سکے۔

وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿بنی اسرائیل ٥٣﴾۔
اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! میرے بندوں سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

شیطان انسانوں کی گھات میں لگا رہتا ہے ان کے درمیان عدوات اور کینہ وبغض کی تخم ریزی کی کوشش کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ آپس کے معمولی سے جھگڑے کو خونریز معرکہ میں تبدیل کردے اور خوبصورت اور عمدہ بات کے ذریعہ اس کا راستہ نہ روکا جاسکے۔

دشمنوں کے ساتھ دلنواز گفتگو کیجئے تو اُن کی دشمنی بجھ جاتی ہے اور اُن کا غصہ ٹھنڈا پڑجاتا ہے یا کم از کم دشمنی اور شرانگیزی کے اسلوب میں نمایاں فرق ہوجاتا ہے۔

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ﴿٣٤﴾
نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی۔ برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔

ہر حالت میں لوگوں کو حسن تعبیر کا عادی بنانے کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
تم اپنے مال کے ذریعہ لوگوں پر حاوی نہیں ہوسکو گے بلکہ خوش روی اور حُسن اخلاق سے ان کے دلوں کو جیت سکتے ہو (البزار)۔

اسلام کی نگاہ میں حسن اخلاق اور ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی کو نہ دینا اس سے کہیں بہتر ہے کہ عطیات دیئے جائیں لیکن چھچھورے پن کا ثبوت دیا جائے اور اس کو تکلیف پہنچائی جائے۔

قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى ۗ وَاللَّـهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ (سورہ البقرہ ٢٦٣)۔
نرم بات کہنا اور معاف کردینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو اور اللہ تعالیٰ بےنیاز اور بردبار ہے

عمدہ گفتگو ایک ایسی خصلت ہے جو نیکیوں اور فضائل میں شمار ہوتی ہے اور اُس کو اختیار کرنے والا اللہ کی خوشنودی کا مستحق ٹھہرتا ہے اور اس کے لئے ہمیشگی کی نعمت لکھ دی جاتی ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں!
ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے کوئی ایسا عمل سکھا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کرسکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

مسکینوں کو کھانا کھلاؤ، سلام کو رواج دو، رات کو جب لوگ نیند کے مزے لے رہے ہوں تو تم نماز پڑھو تو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ گے۔

اللہ تعالٰی نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم دوسرے کے مذہب کے پیروکاروں سے بحث کریں تو شریفانہ اور سنجیدہ انداز بحث کو ملحوظ رکھیں اس میں شدت ہو نہ غیض وغضب، البتہ جو ہمارے اوپر ظلم کریں تو ان کی سرکشی کو توڑنا اور اُن کے ظلم وعدوان کو روکنا ضروری ہے۔

وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ ﴿العنکبوت ٤٦﴾۔
اور اہل کتاب کے ساتھ بحث ومباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو مگر ان کے ساتھ جو ان میں ﻇالم ہیں

بڑے آدمی اپنے تمام حالات میں اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اُن کے منہ سے کوئی زائد اور بیکار لفظ نہ نکل جائے۔

جواب جاہلاں باشد خموشی!۔
کچھ لوگ زندگی بھر ترش رو، تندمزاج اور فحش گورہتے ہیں ان کا ایمان ویقین ان برائیوں پر ذرہ برابر نہیں کڑھتا نہ اُن کا اخلاق اس پر انہیں ملامت کرتا ہے دوسروں سے ایسی باتیں کہنے میں انہیں کوئی باک نہیں ہوتا جو انہیں ناپسند ہوں، جب انہیں اپنی بدخو طبعیت کی جولانی دکھانے کے لئے میدان میسر آجاتا ہے تو وہ بگٹٹ گھوڑے کی طرح فحش اور بےہودہ باتوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں کوئی چیخ ان کو متاثر نہیں کرتی نہ کوئی آواز انہیں متنبہ ہونے دیتی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے!۔
ایک آدمی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اپنے خاندان کا کیا ہی بُرا شخص ہے یہ! جب وہ اندر آیا تو کھل اٹھے اور اُس سے بڑی نرمی سے بات کی اس کے واپس چلے جانے کے بعد میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو اس طرح کی باتیں کہتے ہوئے سنا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے مبارک پر کوئی شکن نہ آئی بلکہ اس سے خوش روی سے ملے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! رضی اللہ عنہ تم نے مجھے کب فحش گوپایا ہے قیامت کے دن سب سے بدتر آدمی اللہ کے نزدیک وہ شخص ہوگا جس سے لوگوں نے اس کے فحش کی وجہ سے بچنے کے لئے ملنا جلنا چھوڑ دیا ہو (رواہ بخاری)۔

وَعِبَادُ الرَّحْمَـٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ﴿الفرقان ٦٣﴾۔
رحمٰن کے (سچے) بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔

انسان ایک بار، دو بار غصہ پی جاتا ہے لیکن پھر پھٹ پڑتا ہے حالانکہ ایک بااخلاق مسلمان سے اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ تکلیفوں کو برداشت کرے تاکہ بالآخر شرکو اپنے موقف پر جمنے کا موقع نہ مل سکے۔

حضرت سعد بن مسیب رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں!۔
اس اثناء میں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بُرا بھلا کہا اور انہیں دل آزار بات کہہ دی لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے اس نے دوبارہ انہیں تکلیف دہ بات کہی، ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے پھر تیسری بار جب اس نے انہیں تکلیف پہنچائی تو انہوں نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض ہوگئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں! بلکہ آسمان سے فرشتہ نازل ہوا تھا جو اس کی باتوں کو جھٹلا رہا تھا لیکن جب تم نے جواب دینا شروع کیا تو فرشتہ چلا گیا، شیطان بیٹھ گیا اور میں وہاں نہیں بیٹھ سکتا جہاں شیطان بیٹھا ہو (رواہ ابوداؤد)۔

سفہا اور کم عقل لوگوں کی تعظیم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوا کہ ان کی پست اور سطحی حرکتوں کو بھی تسلیم کرلیا جائے ان دونوں صورتوں میں بڑا فرق ہے پہلی چیز کا مطلب یہ ہے کہ جہالت وسفاہت کے سامنے آدمی اپنے نفس پر قابو رکھے اور اسے بات کا موقع نہ دے کہ وہ اصل فطرت جو غصہ اور غضب کی حامل ہے کو ظاہر کرسکے اور انتقام لینے پر تل جائے جب کہ دوسرا پہلو بالکل ہی مخالف مفہوم رکھتا ہے اس میں نفس کی حماقت اور ذلت ورسوائی کے حوالے کرنا ہے اور ان پست چیزوں کو قبول کرنا ہے جنہیں کوئی عاقل اور شریف آدمی قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔

قرآن کریم نے کم عقلوں کی تعظیم اور پست اور سطحی حرکتوں سے نفرت وکراہیت کا اظہار اس طرح کیا ہے!
لَّا يُحِبُّ اللَّـهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ سَمِيعًا عَلِيمًا إِن تُبْدُوا خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَن سُوءٍ فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا ﴿النساء ١٤٨-١٤٩﴾۔

برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کی اجازت ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا جانتا ہے اگر تم کسی نیکی کو علانیہ کرو یا پوشیدہ، یا کسی برائی سے درگزر کرو، پس یقیناً اللہ تعالیٰ پوری معافی کرنے واﻻ اور پوری قدرت واﻻ ہے۔