153

ہم سب منافقت کا شکار ہیں

ہم سب منافقت کا شکار ہیں

تحریر : مفتی گلزار احمد نعیمی

جنرل پرویز مشرف پاکستانی تاریخ کا بہت متنازع کردار ہے۔وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے مگر ہم ان کے لیے دعاگو ہیں کہ ان سے جو غلطیان سرزد ہوئیں جنکی وجہ سے وطن عزیز کو اور دین اسلام کو نقصان پہنچا،اللہ سبحانہ وتعالی انکی یہ غلطیاں معاف فرمائے۔انہوں نے جو اچھے کام کیے ہیں ان کے صدقے اللہ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہہ دے۔
انکی نماز جنازہ اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے کے حوالہ سے بہت اختلاف پیدا کیے گئے۔اس عمل کے جواز کے لیے جو سب سے بڑی دلیل تراشی جارہی ہے وہ یہ کہ اس نے آئین پاکستان توڑا اور ملک سے غداری کی اور آئین توڑنےکی سزا سزائے موت ہے۔میرے نزدیک جنرل پرویزمشرف مرحوم کا سب سے بڑا جرم محسن پاکستان، عظیم ایٹمی سائنسدان جناب ڈاکٹر عبد القدیر خان پر عرصئہ حیات تنگ کرنا تھا۔محسن پاکستان کی عظیم قربانیوں کا تقاضہ تھا کہ انکی شان و شوکت کے مطابق ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جاتا۔مشرف تو انہیں امریکہ کے حوالے کرنے پر تل گئے تھے، خدا بھلا کرے سابق وزیراعظم ظفر اللہ خان جمالی مرحوم کا کہ جنہوں نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ایسا نہیں ہونے دیا تھا۔لیکن پھر بھی مشرف نے ڈاکٹر اے کیو خان سے ٹی وی پر ناکردہ گناہوں کا اقرار کروایا جو تاریخ کا ایسا سیاہ ترین باب ہے جس پر ہر پاکستانی شرم سار ہے۔ہم دنیا کی ایسی قوموں میں شامل ہوگئے ہیں جو اپنے محسنوں کا اپنی ہی تلواروں سے انکا خون کرتی ہے ڈاکٹر جب تک زندہ رہا اسے اس کے گھر میں بی قیدیوں کی طرح رہنے پر مجبور کر دیا گیا، ڈاکٹر عبد القدیر خان موت کے انتظار میں ہی اپنے گھر قید کردیا گیا اور زندگی کے آخری لمحات بھی انہوں نے اسی کیفیت میں گزارے۔اس سلوک بد کی وجہ سے پورا پاکستان حزن و ملال کی کیفیت میں رہا۔ظلم بالائے ظلم یہ کہ اس پاکستانی محسن و ہیرو کی نماز جنازہ میں ہمارے بڑے،وزیر اعظم سمیت شریک نہ ہوئے۔اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں جنرل مشرف کا سب سے بڑا جرم یہ تھا۔
جہاں تک آئین توڑنے کا تعلق ہے تو یہ پاکستان میں اب جرم نہیں رہا ۔یہ اب ایک عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے۔ اگر جنرل نے جرم کیا تھا تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا وہ آئین توڑنے میں اکیلا تھا؟جواب یہ ہے کہ ایسا نہیں تھااس کے ساتھ سیاستدانوں کی قابل ذکر تعداد تھی جنہوں نے اسکی آئین توڑنے معاونت تھی۔اس کے ساتھ معزز عدالتوں کے ججز بھی تھے جنہوں نے مشرف کے کُو کو آئینی راستہ دیا۔ اس کے ساتھ صنعتکار بھی تھے اور معلمین بھی۔اس لیے اگر آپ نے غداری کا لقب دینا ہے تو سیاستدانوں، ججوں صنعت کاروں اور ان سب کو دیں جو مشرف کے ساتھ شریک جرم تھے۔سب سے پہلے ان نام نہاد سیاستدانوں کو پھانسی پر چڑھائیں جو ہردور میں ڈکٹیٹروں کے لیے اپنے کندھے پیش کرتے رہے ہیں۔انکی بے اصولیاں اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ انہیں عوام کی زرا بھی پرواہ نہیں ہے۔ملک سیاسی معاشی اور سماجی طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے مگر یہ لوگ اپنی حیثیتوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم سب بہت سخت منافقت کا شکار ہیں۔عوام بھی منافق ہیں۔وہ اس لیے کہ انکا چمن لٹ رہا ہے،افراد خزاں رسیدہ پتوں کی طرح شجر زندگی سے جھڑ رہے ہیں مگر ہم سب خاموش ہیں۔سیاستدان ،بطور خاص حکمران دونوں ہاتھوں سےچمن کی رونقوں پر اپنا ہاتھ صاف کر رہے ہیں لیکن عوام بھی خاموش ہیں اور وہ بھی جنہیں اس صورت حال پر خاموش نہیں رہنا چاہیے۔دنیا کی قومیں سچائی اور حقائق کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہیں۔خواب بس خواب ہی ہوتے ہیں۔
ہمارے تقسیم در تقسیم ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم اس مسئلے پر بھی اختلاف کا شکار ہیں کہ مشرف کے لیے ہمیں دعائے مغفرت کرنی چاہیے کہ نہیں۔دوسری طرف ہماری منافقت کا بھی ذرا اندازہ لگائیے کہ ایک مذہبی سیاسی جماعت کا سینٹر سینٹ میں مشرف کے لیے دعاکرانے سے انکار کر دیتا ہے جبکہ اسی جماعت کا ایک ایم این اے قومی اسمبلی میں دعا خود کراتا ہے۔جماعت ایک ہے مگر سینٹ میں اور پالیسی اورقومی اسمبلی میں اور۔بہت ہی افسوس رویہ ہے ہمارا۔ہم اقتدار کی منزل کو حاصل کرنا چاہتے ہیں چاہے عزت رہے نہ رہے۔اصول رہیں یا نہ رہیں۔شیراز کے حافظ نے اس کیفیت کو کیا خوبصورت پیرائے میں اپنے ایک شعر میں اسکو بیان کیا۔
حافظا گر وصل خواہی صلح کن بخاص و عام
با مسلمان اللہ اللہ با برہمن رام رام
ترجمہ: اے حافظ اگر آپ وصل(اپنا مقصد) چاہتے ہیں سب کے ساتھ صلح کر لو۔اگر مسلمان کے ساتھ واسطہ پڑے تو اللہ اللہ کرو اور جب برہمن سے واسطہ پڑے تو رام رام شروع کردو.
میرا اپنے رہنماؤں سے سوال ہے کہ اگر آئین کو معطل کرنا گناہ ہے اور قابل سزا جرم ہے تو کیا انسانی حقوق کی پامالی گناہ نہیں ہے؟کیا انسانی حقوق آئین کا حصہ نہیں ہیں کیا موجودہ حکام نے ان حقوق کو معطل نہیں کیا ہوا۔ظاہرا اگر معطل نہیں ہیں تو عملا تو معطل ہی ہیں۔اگر ایک ڈکٹیٹر آئین کو معطل کرتا ہے مگر وہ بنیادی انسانی حقوق کو پامال نہیں کرتا تو شاید وہ اتنا بڑا جرم نہیں کر رہا جتنا کہ وہ جمہوری حاکم جو آئین کو بحال رکھ کر عوام کے حقوق پر ڈاکہ مارتا ہے،جو عوام کے بنیادی حقوق کا ذرا بھی خیال نہیں رکھتا۔
یاد رکھیں! زندگی مفروضوں کی بنیاد پر نہیں گزرتی، اس کے لیے کچھ بنیادی حقائق درکار ہوتے ہیں جن کے ذریعے سے ہم زندگی کے غم کے دریا میں اپنی ناؤ کو غرق ہونے سے بچا سکتے ہیں۔یہی آج کی حقیقت ہے اور یہی زندگی کا سبق بھی۔ہم جوتے کھا رہے ہیں مگر اس پر احتجاج نہیں کرتے کہ ہمیں کیوں مارے جارہے ہیں۔ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھا دی جائے تاکہ ہمیں انتظار نہ کرنا پڑے۔ہمارے لیے فیس بک اور سوشل میڈیا کافی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں