119

ہمارے فواد، فیصل اور فراز

ہمارے فواد، فیصل اور فراز
مظہر برلاس
25جنوری کو صبح منہ اندھیرے لاہور میں ایک گھر پر سفید کپڑوں میں ملبوس سرکاری اہلکار اس طرح حملہ آور ہوئے جیسے دنیا کا کوئی بڑا دہشت گرد یہاں ہو، حملہ آوروں کے پاس نہ تو گرفتاری کے وارنٹ تھے اور نہ ہی انہوں نے یونیفارم پہن رکھی تھی سو یہ بے شناختے لوگ فواد چودھری کو اٹھا کر لے گئے۔ ان بے شناختے لوگوں نے چادر اور چار دیواری کا احترام بھی نہ کیا ۔اس عمل کے بعد فواد چودھری کے اہلخانہ اور پی ٹی آئی کے لوگ متحرک ہوئے۔احمد پنسوتا ایڈووکیٹ لاہور ہائیکورٹ پہنچ گئے ،اظہر صدیق ایڈووکیٹ بھی ساتھ تھے جب لاہور ہائیکورٹ کی سرگرمی دیکھی تو پولیس فواد چودھری کو ایک مجسٹریٹ کےسامنے لے آئی ۔اس دوران یہ پولیس اہلکار لاہور کی سڑکوں پر فواد چودھری کو گھماتے رہے ۔میں ابھی اس شش وپنج میں تھا کہ آخر فواد چودھری کا قصور کیا ہے ؟کیوں اسے اس طرح گرفتار کیا گیا ہے ؟اتنی دیر میں میرے بھائی عمار برلاس نے مجھے ایک چھوٹی سی تحریر بھیج دی جس سے مجھے فواد چودھری کے جرم کا ادراک ہوا وہ تحریر کچھ اس طرح سے تھی ’’منشی(الیکشن کمیشن)پریم چند اردو کے مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں، ان کا اصلی نام دھنپت رائے ہے لیکن ادبی دنیا میں پریم چند کے نام سے مشہور ہیں وہ 1880ء میں منشی (الیکشن کمیشن) عجائب لال کے ہاں ضلع وار انسی مرٹھوا کے گائوں لمہی میں پیدا ہوئے ان کے دادا گائوں کے پٹواری (ن لیگی) اور والد ایک ڈاکخانے میں کلرک (منشی ) تھے۔منشی (الیکشن کمیشن )پریم چند ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے آپ نے تقریباً سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی‘‘ اس تحریر سے مجھے پتہ چلا کہ فواد چودھری نے کسی کو منشی کہا ہے اور یہ منشی کہنا غداری بن گیا ہے اور اس ایک لفظ نے فواد چودھری کو باغی بنا دیا ہے ملک کے صف اول کے قانون دان چودھری اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ فواد چودھری کی پوری گفتگو میں ریاست کے بارے میں تو کچھ کہا نہیں گیا پھر یہ بغاوت اور غداری کہاں سے نکل آئی۔

ابھی میں فواد چودھری کی فوٹیج دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک فراز چودھری کی گرفتاری کے مناظر ٹی وی اسکرین پر چلنا شروع ہوگئے۔ ان مناظر کو دیکھ کر مجھے وہ فلسطینی نوجوان یاد آ گئے جنہیں اسرائیلی فوج گرفتار کرتی ہے اس منظر سے وہ مناظر بھی یاد آ گئے جو مقبوضہ کشمیر میں آئے روز پیش آتے ہیں ۔خیال آیا کہ میرا پاکستان تو ایسا نہیں تھا، یہ ہم پاکستان کا کونسا ’’چہرہ‘‘ دیکھ رہے ہیں ۔یہاں تو انسانی حقوق کا بڑا خیال رکھا جاتا تھا مگر نکمے حکمراں اپنی سیاسی شکست کو ظلم کے توسط سے جیت میں بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کوشش میں میرا سوہنا پاکستان بدنام ہو رہا ہے اور یہ نادان، اس دھرتی کو اجاڑ رہے ہیں۔

فواد چودھری اور فراز چودھری کی گرفتاری کے بعد ان کے بھائی فیصل چودھری ایڈووکیٹ سرگرم رہے وہ عدالتوں میں سارا دن متحرک رہے اس طرح تینوں بھائی عدالتوں میں رہے پولیس کے آمنے سامنے رہے ان کے ماموں چودھری شہباز حسین بھی فواد چودھری کے پیچھے عدالت پہنچے۔ آفرین ہے فواد چودھری پر کہ وہ کسی لمحے بھی پریشان نہیں ہوئے بلکہ ہر مرتبہ ان کا ہنستا مسکراتا ’’چہرہ‘‘ ٹی وی چینلز نے دکھایا، فواد چودھری نے صرف جہلم کا نہیں پورے ملک کے آزادی پسند جمہوری لوگوں کا سر فخر سے بلند کیا، جہلم شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین ہے یہی بات فواد چودھری نے ثابت کی کہ اس کا تعلق بہادروں کی دھرتی سے ہے۔

سچی بات ہے کہ میں ان تینوں بھائیوں فواد، فیصل اور فراز پر ہمیشہ فخر کرتا ہوں ۔بچپن میں یتیم ہونے والے یہ تینوں بھائی بڑے زرخیز دماغوں کے مالک ہیں، ہمارے فواد چودھری نے وکالت کے بعد سیاست میں بھرپور نام کمایا، وہ وفاقی وزیر رہے، آج کل تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر ہیں پارٹی کے مرکزی ترجمان ہیں اور سب سے بڑھ کر عمران خان کے قابل اعتماد اور متحرک ساتھی ہیں۔ چودھری فواد حسین کے بعد چودھری فیصل فرید جو عرف عام میں فیصل چودھری کے نام سے مشہور ہیں بڑے کامیاب وکیل اور تجزیہ نگار ہیں چودھری فراز حسین جو فراز چودھری کے نام سے معروف ہیں ضلع جہلم پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل ہیں، کامیاب بزنس مین ہیں اور خوبصورت نوجوان سیاست دان ہیں مرحوم چودھری نسیم کے یہ تینوں صاحبزادے ملنسار اور ذہین ہیں اور پھر انہیں چودھری شہباز حسین جیسے خوبصورت انسان کی شفقت بھی حاصل ہے۔رہی بات غداری کی تو یہ اس گھرانے کا بڑا پرانا زیور ہے کیونکہ جب موجودہ حکمرانوں کےبڑے بزرگ آمر ایوب خان کو سپورٹ کر رہے تھے تو اس وقت فواد چودھری کا گھرانا مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒکے ساتھ کھڑا تھا فاطمہ جناحؒ دو مرتبہ ان کے گھر بھی آئیں آپ کو یاد ہونا چاہئے کہ شیخ مجیب الرحمٰن بھی فاطمہ جناحؒکا چیف سپورٹر تھا۔

صاحبو!اگر فاطمہ جناحؒ کو سپورٹ کرنا غداری ہے تو پھر ہم سب غدار ہیں پھر ہمارے سب نوجوان غدار ہیں، جیتے رہیں ہمارے فواد، فیصل اور فراز،پی ٹی آئی کی خواتین کو رس کی صورت میں ’’منشی منشی‘‘ گیت گا رہی ہیں اور میں احمد فراز کا شعر یاد کر رہا ہوں کہ ؎

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں

چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں