mazhar abbas 147

’ہائبرڈ جمہوریت ویکسین‘.مظہرعباس

تمام اہلِ وطن کو مبارک ہو کہ پاکستان نے’جمہوریت کے وائرس ‘کو روکنے کے لیے ایک موثر اور قابل عمل ’’ہائبرڈ جمہوریت ویکسین ‘‘ تیار کرلی ہے جس پر کامیابی سے عمل ہورہا ہے جس کی وجہ سے ہرچیز مثبت نظر آرہی ہے بشمول تنقید، جن میں اب بھی تھوڑی بہت وائرس کی علامات پائی جاتی ہیں ان کو بھی مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ جلد یہ ویکسین لگوالیں تاکہ سیاست میں اُن کی واپسی ہوسکے۔ یہ بات طے ہے کہ اس کو لگائے بغیر وہ انتخابی عمل میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔

کبھی آپ نے غور کیا کہ2002کے بعد سے ہر پانچ سال بعد ملک میں الیکشن ہورہے ہیں اور پرامن طریقہ سے انتقالِ اقتدار ہوتا رہاہے ۔نہ کوئی لڑائی جھگڑے نہ ہی کوئی سازشیں(جو آپ کو نظر آتی ہیں وہ بھی بس ایسی ہی ہیں)۔ اطمینان رکھیں اس ویکسین کے ذریعہ اب آپ کو کوئی مزاحمتی تحریک نظر نہیں آئے گی، ہر طرف مفاہمت کا ہی بول بالا ہوگا۔

جمہوریت پسند بھی خوش کہ بات آگے بڑھ رہی ہے اور جمہوریت مخالفوں کو بھی کچھ اطمینان کہ کم ازکم نظام کو ہائبرڈ تو کیا گیا بہرحال وائرس جاتے جاتے ہی جاتا ہے۔ وقت تو لگے گا۔

اس ویکسین کو لگانے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ کے اندر فوراً ’ اینٹی باڈیز ‘ بننے کا عمل شروع ہوجاتا ہے آپ فوراً جدوجہد، احتجاج، دھرنے اور ہڑتال جیسی خرافات سے اجتناب کرنے لگتے ہیں اور اس طرح آپ صحیح معنوں میں’محب وطن‘ بن جاتے ہیں کیونکہ ’غداری‘ کی علامات زائل ہوجاتی ہیں۔ایک بات بہرحال ہماری ریاست نے طے کرلی ہے کہ جواس عمل سے نہیں گزرے گا اس پر سیاست کے دروازے بند رہیں گے جبکہ اس سے فائدہ اٹھانے والے وزیر بھی بن سکتے ہیں اور وزیر اعظم بھی ۔

اب دیکھیں نا یہ اس ’ہائبرڈ جمہوریت ویکسین ‘ کا ہی تو کمال تھا کہ آمر باعزت رخصت ہوا بڑے سے بڑا الزام بھی اسے دبئی جانے سے نہ روک سکا۔میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور پھر کہہ رہا ہوں کہ اب ہم ایک قدم آگے جارہے ہیں اور پہلی بار موجودہ وزیر اعظم اپنے پانچ سال پورے کریں گے اور نئے الیکشن کااعلان وہی کریں گے۔

رہ گیا معاملہ دوبھائیوں کا تو ایک نے تو یہ ویکسین لگوائی ہوئی ہے، دوسرا مارے خوف کے لگوانے کو تیار نہیں ۔چھوٹے والے اسی لیے لندن جانا چاہتے تھے کہ وہ بھائی جان کو تیار کرلیں گےکہ2023 سے پہلے یہ ویکسین لگوالیں ورنہ آپ واپس نہیں آسکتے کیونکہ اسد عمر صاحب نے جوNCOCکے سربراہ ہیں فیصلہ کرلیا ہے کہ جب تک یہ وائرس موجود ہے انہیں واپس نہ آنے دیا جائے، ’نو ویکسین نو انٹری‘۔

اصل میں ہمارے لوگوں کو تاریخ کا نہیں پتا ۔میاں صاحب کوتولایا ہی ایک ’ ویکسین‘ کے طور پر گیا تھا تاکہ ایک خطرناک وائرس’ نظریاتی سیاست ‘ کا خاتمہ کیا جاسکے ۔ تجربہ تو کامیاب رہا مگر وائرس کی نئی علامات سامنے آ گئیں جن میں کرپشن وائرس نمایاں ترین ہے۔ اس نے پورے نظام کا ہی بیڑہ غرق کردیا مگر چونکہ اس ملک میں وائرس کا شکار صرف سیاسی لوگ ہوتے ہیں لہٰذا ’ تجربات ‘ بھی انہی پر ہوتے ہیں باقیوں کی تو ’’اینٹی باڈیز‘‘ بنتی رہتی ہیں۔

اب آپ لوگ اطمینان رکھیں، اس ملک میں کوئی حسن ناصر، نظیر عباسی کسی ٹارچر سیل میں نہیں مارا جائے گا کوئی ذوالفقار علی بھٹوپھانسی نہیں چڑھے گا۔اب ہم سب ایک ایسی جمہوریت کے مسافر ہونگے جو نظر آئے گی مگر ہوگی نہیں جیسے انتخابی نتائج قبول نہیں کیے جاتے مگر پارلیمنٹ کا حصہ رہتے ہیں اور اپنے اپنے وقت کا انتظار کرتے ہیں۔

بڑا وقت لگا ہے اس کی تیاری میں بس یوں سمجھ لیں کہ جب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے11اگست، 1947کو ایوان میں تقریر کرتے ہوئے مستقبل کے پاکستان کے لیے ایک روڈمیپ کا اعلان کیا تو ہماری ’ اشرافیہ‘ کو سب سے پہلے اس میں سے جمہوری وائرس کی بو آنے لگی۔

فوری طور پر اس تقریر کے کچھ حصے حذف کرنے کی کوشش کی گئی وہ تواس وقت کے ڈان اخبار کے ایڈیٹر الطاف حسین صاحب کو پتا چل گیا تو وہ قائد اعظم کے علم میں یہ بات لے آئے۔

وہ دن ہے اور آج کا دن ، اس وائرس کو روکنے کے لیے تجربات کئے جاتے ہیں کبھی 1949میں ’پروڈو‘ کے ذریعہ، 1959میں ’ا یبڈو‘ کے ذریعہ اور پھر34سال آمریت نافذ کرکے بھی دیکھ لیا۔ پہلے بائیں بازو کو قابوکیا گیا اور پھر دائیں بازو اور خاص طور پر ان عناصر کو جن میں جدوجہد کرنے، جیل جانے وغیرہ کی علامات زیادہ پائی گئیں۔

’ہائبرڈ جمہوریت ویکسین‘ کی بدولت ہی یہ کامیابی ملی کہ اب اس ملک میں جمہوری نظام ہوتے ہوئے بھی ملک میں طلبہ یونین اور ٹریڈ یونین پر پابندی برقرار ہے۔ یعنی ’’جمہوریت‘‘ کا وائرس پھیلنے نہ پائے۔ ماشاء اللہ سے حکومت پی پی پی کی ہو، مسلم لیگ (ن) کی یا تحریک انصاف کی ’’محمود و ایاز‘‘ ایک ہی صف میں ہیں۔ کوئی یونین سازی نہیں ہوگی۔

چونکہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون اور اب ایک تناور درخت بن گیا ہے، لہٰذا اس کے لئے بھی یہ ضروری قرار دیا گیا کہ صحافیوں بشمول اینکرز کو بھی یہ ’ویکسین‘ لگوائی جائے۔ جنہوں نے انکار کیا انہیں قرنطینہ کر دیا گیا ہے۔ جن میں یہ علامات نہیں پائی گئیں انہیں نہیں لگائی گئی۔

جن میں کچھ دوسری علامات پائی گئی ہیں ان کے ٹیسٹ لے لئے گئے ہیں۔ رپورٹ آنے پر فیصلہ ہوگا۔ تو حضور اب اس ملک میں ایک ’ہائبرڈ نظام‘ ہی چلے گا۔ جسے یہ برا لگتا ہے وہ ’جدوجہد‘ کا راستہ اپنا کر دیکھ لے، آخر میں اسے بھی ’’ویکسین سینٹر‘‘ ہی جانا پڑے گا۔

اب کس گیٹ سے اس کا پتا آپ کو شیخ رشید صاحب سے چل جائے گا کیونکہ انہیں کبھی اس ویکسین کی ضرورت ہی نہیں پڑی وہ پہلے دن سے ایک ’ہائبرڈ سیاست دان‘ ہیں۔آپ لوگ اطمینان کرلیں کہ ملک میں کوئی مارشل لا نہیں لگے گا، کوئی پھانسی نہیں چڑھے گا اور 2023تک سب ’ہائٹرڈ‘ ہو جائیں گے۔

پھر بھی اگر اس وائرس نے دوبارہ سر اٹھایا تو ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں اور اس نظام کو بچانے کے لئے ’ڈاکٹرز‘ اپنی پوری ذمہ داری سے ’جمہوری وائرس‘ سے متاثرہ مریضوں کا مکمل علاج کرائیں گے وہ بھی مفت۔آگے بڑھیں اس وائرس سے بچیں اور ’ہائبرڈ‘ جمہوریت ویکسین‘ لگا کر سیاست میں آگے بڑھیں کیونکہ اب یہی رستہ بچا ہے۔ پھر بھی اگر علامات برقرار رہیں تو آپ ’لندن‘ جانے کی درخواست دائر کر سکتے ہیں ورنہ جیل میں تو انتظامات کئے ہی جانے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں