152

گجرات کے چوہدری خاندان کی سیاست داخلی وحدت سے تقسیم تک

گجرات کے چوہدری خاندان کی سیاست داخلی وحدت سے تقسیم تک
چوہدری شجاعت کا خاندان حکومتی اتحادیوں کی حمایت کر رہا ہے جبکہ چوہدری پرویز الہی نے اپنی امیدیں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ وابستہ کر لی ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں کئی دہائیوں تک اہم کردار ادا کرنے والے گجرات کے چوہدری خاندان میں اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ چوہدری خاندان میں انتشار کی وجہ سے پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی ایک اہم حامی جماعت مسلم لیگ قاف بھی دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ان کے بقول لگتا یوں ہے کہ چوہدری خاندان کی تقسیم کے اثرات گجرات کی سیاست پر بھی پڑیں گے اور اس بات کا امکان بڑھ رہا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں اسی خاندان کے افراد ہی آمنے سامنے ہوں گے۔
سیاسی رقابتیں خاندانی وحدتوں کو لے ڈوبیں
چوہدری فیملی کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ اس خاندان کے کچھ خیر خواہوں نے سیاسی رقابتوں کے ہاتھوں تباہ ہوتی ہوئی خاندانی وحدت کو بچانے کے لئے بہت کوششیں کیں لیکن وہ کارگر ثابت نہ ہو سکیں۔ سینئر تجزیہ کار سجاد میر نے بتایا کہ چوہدری خاندان کے اختلافات ان کے لئے بھی بہت دکھ اور تکلیف کا باعث ہیں ۔
ان کے بقول پرویز الہی چوہدری شجاعت سے کچھ عرصہ پہلے ملنے گئے تھے انہوں نے چوہدری شجاعت سے کہا تھا کہ وہ ان کے والد کی طرح ہیں۔ اور چوہدری شجاعت نے بھی چوہدری پرویز الہی کے لئے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا تھا۔ لیکن حمزہ شہباز کی حمایت میں لکھے جانے والے چوہدری شجاعت کے خط کے بعد اب لگتا ہے کہ حالات پوائینٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ گئے ہیں۔
’’پنجاب اسمبلی میں وزیراعلی کے انتخاب والے دن جب مونس الہی چوہدری شجاعت سے ملنے گئے تو انہیں چوہدری شجاعت نے مشورہ دیا کہ جیسے تم میرے ساتھ احترام سے بات کر رہے ہواس طرح اپنے بھائی (درحقیقت کزن) چوہدری سالک سے بھی بات کر لو لیکن اس وقت تک شاید دیر ہو چکی تھی‘‘.
بڑے اپنے بچوں کے ہاتھوں اپنے ہی گھر میں ہار گئے
چوہدری خاندان کی باہمی رنجشیں بہت سے لوگوں کے لئے شدید حیرانگی کا باعث ہیں۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے تک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ رنجشیں خاندان کو اس حال تک پہنچا دیں گی۔
چوہدری خاندان کی تاریخ پر نگاہ رکھنے والے ماہرین بتاتے ہیں کہ چوہدری ظہور الہی سیاست میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے اور وہ اپنی وضعداری ، معاملہ فہمی اور مہمان نوازی کے لئے بہت معروف تھے دوسری طرف ان کے بھائی چوہدری منظور الہی کی دلچسپی کاروباری امور کی طرف زیادہ تھی۔ طبیعت کے فرق کے باوجود دونوں بھائیوں نے ساری زندگی ایک دوسرے کا خیال رکھا اور کبھی ایک دوسرے کو شکایت کا موقعہ نہیں دیا۔
پرویز الہی چوہدری منظور الہی کے بیٹے ہیں اور شجاعت حسین کے کزن ہیں۔ پچھلی چار پانچ دہائیوں میں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی نے بھی خاندانی قربت اور وفا شعاری کی اسی روایت کو آگے بڑھایا۔ لیکن جب معاملات بچوں کے ہاتھوں میں آئے تو ان میں بزرگوں جیسی قربت پیدا نہ ہو سکی۔
تجزیہ نگار نوید چوہدری کے بقول چوہدری شجاعت کے بچے اپنے آپ کو چوہدری ظہور الہی کی خاندانی میراث کا حقیقی وارث سمجھتے ہیں اور اس میراث کے تمام ثمرات کو پرویز الہی اور مونس الہی کی طرف جاتا ہوا دیکھنا انہیں قبول نہیں ہے۔ ان کو مونس الہی کے فیصلوں کا چوہدری پرویز الہی کے ذریعے باقی تمام خاندان پر نفاذ بھی پسند نہیں ۔ اس لئے ان میں بھی ایک طرح کا ردعمل پیدا ہوگیا ہے۔ ”کئی بار خاندان کی عزت بچانے کے لئے چوہدری خاندان کے بڑوں نے اپنے خاندانی اختلافات کی تردید بھی کی لیکن اب ان کے بچے جوان ہو گئے ہیں۔ اور وہ اپنی باتوں پر اصرار کرنے لگ گئے ہیں۔ ان کے سامنے بزرگوں کی ایک نہ چل سکی۔‘‘
دشمنوں کے ساتھ وضعداری نبھانے والوں کے بچے آپس میں دشمن بن گئے
چوہدری خاندان میں بہت قریبی رشہ داری ہے، چوہدری پرویز الہی کی بہن چوہدری شجاعت کی اہلیہ ہیں اور چوہدری شجاعت حسین کی ہمشیرہ چوہدری پرویز الہی کی اہلیہ ہیں۔ حالیہ اختلافات کی شدت نے اس خاندان کو بہت دکھ دیا ہے۔ کچھ فیملی ممبرز میں بول چال بھی نہیں ہے۔ وہ وضعداری جو چوہدری فیملی کے بزرگ دشمنوں کے ساتھ بھی نبھاتے تھے اب وہ ان کے اپنے خاندان میں بھی باقی نہیں رہی۔ چوہدری پرویز الہی کے حامی اور چوہدری شجاعت کے بھائی چوہدری وجاہت حسین نے چوہدری شجاعت کے بیٹے چوہدری سالک پر الزام لگایا ہے کہ وہ زرداری سے ڈالر مانگ رہے ہیں۔ رہی سہی کسر چوہدری شجاعت حسین کے گھر کے باہر ہونے والے قاف لیگ کے احتجاجی مظاہروں میں لگنے والے نعروں اور چوہدری شجاعت کے خلاف انٹرنیٹ پر چلوائی جانے والی پوسٹوں نے پوری کر دی ہے۔
بات کیسے بگڑی؟
نوید چوہدری بتاتے ہیں کہ چوہدریوں کے خاندان میں حالات کافی عرصے سے خراب تھے لیکن وہ اتنی شدت سے منظر عام پر نہیں آئے تھے۔ ان کے بقول سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقعے پر اس خاندان میں تقسیم بہت واضح ہوگئی۔ ان کے بقول چوہدریوں کا گھر پاکستان کی سیاست کا مرکز بنا ہوا تھا۔ سارے بڑے لیڈر یہاں آکر چوہدریوں کی حمایت کے متمنی تھے۔ شہباز شریف بھی چودہ سالوں بعد چل کر ان کے گھر گئے۔ ”پی ڈی ایم نے چوہدری پرویز الہی کو پنجاب میں چیف منسٹر بنانے کا اعلان بھی کر دیا پھر طاقتور حلقوں کو خیال آیا کہ پرویز الہی ادھر چلے گئے تو عمران خان اکیلے رہ جائیں گے اور طاقت کا توازن درست نہیں رہے گا سو ایک بہت اہم شخصیت کی ٹیلی فون کال آئی اور پرویز الہی جنہوں نے چند ہی دن پہلے ایک انٹرویو میں عمران خان کے خلاف توہین آمیز خیالات کا اظہار کیا تھا وہ عمران خان کے پاس چلے گئے شجاعت فیملی نے اپنے عہد کا پاس کیا یوں دونوں کی راہیں جدا ہو گئیں۔‘‘
چوہدریوں کی سیاست
قدرت نے چوہدریوں کی سیاست کو بڑی کامیابیوں سے نوازا تھا۔ پاکستان کی وزارت عظمی، پنجاب کی وزارت اعلی اور کئی وفاقی و صوبائی وزارتیں اس گھر کے حصے میں آئیں۔ کئی ترقیاتی منصوبے چوہدریوں نے مکمل کروائے۔ سجاد میر کے بقول پاکستان میں چوہدریوں کی سیاست وضعداری، معاملہ فہمی، رواداری اور مہمان نوازی کے رنگ بھی لئے ہوئے تھی۔ سجاد میر کو یاد ہے کہ نو ستاروں کی تحریک کے دوران سارے پیسے سارے دسترخوان اور سارے انتظامات چوہدری ظہور الہی کے ذمے تھے۔ انہوں نے کبھی اس کا ذکر بھی کسی سے نہیں کیا۔ نوید چوہدری کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے پچھلی کچھ دہائیوں میں چوہدریوں نے اپنی سیاست کو اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال کیا۔ یاد رہے پرویز الہی نے کہا تھا کہ وہ جنرل مشرف کو دس مرتبہ بھی وردی میں صدر بنوانے کو تیار ہیں۔
کون صحیح کون غلط
سجاد میر اس سوال کا جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے بس اتنا بتاتے ہیں کہ چوہدری مونس الہی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے اور سیاست میں آگے جانے کے لئے بہت زیادہ پرجوش ہیں جبکہ چوہدری سالک کا مزاج دھیما اور وضعدارانہ سا ہے۔ نوید چوہدری کی رائے یہ ہے کہ یہ دونوں اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے سرگرداں ہیں۔ لیکن ان کے الفاظ میں اب ان کی سیاست کا آخری دور ہے ۔ پرویز الہی پنجاب کے وزیراعلی بن بھی جائیں انہیں پی ٹی آئی کا مزاج قبول نہیں کرے گا۔ گجرات پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہاں لوگوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ اب وہاں بھی قاف لیگ پی ٹی آئی کی مدد کے بغیر الیکشن نہیں جیت سکے گی۔
ہم چوہدری خاندان کی صورتحال سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
سجاد میر کہتے ہیں کہ جماعتیں خاندان کی بنیاد پر بننی چاہیئں اور نہ چلنی چاہیئں۔ سیاسی جماعتوں کو پروفیشنل اور سیاسی انداز میں ہی کام کرنا چاہئیے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ چوہدری خاندان کے بعد اب اگلی باری شریف خاندان کی ہو سکتی ہے جہاں مریم نواز اور حمزہ شہباز کے اختلافات میڈیا کی خبروں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں