397

گاما خاندان پر زوال کیسے آیا؟ – رُستم زماں کے نواسے ناصر بھولو کی دلچسپ کہانی. کرامت علی بھٹی

خوبصورتی اور اداسی‘ اوپر سـے بھولپن کا چھینٹا‘ خدایا! تونے انسانوں کو کس قدر گوناگوں بنایاہے۔ لوگ طاقت کا مزہ چکھتے‘ بدمست ہوتے، دنیا دیکھتے اور پر کار ہو جاتے ہیں مگر یہ کیسا زور آور شخص ہے جس نے ایک دنیا کو اپنی طاقت اور ہنر سے پچھاڑا مگر کس بل نکلے تو خود اس کے اپنے، اور ایسے نکلے کہ ایک بھی باقی نہ رہا۔ نجیب ہونا کسے کہتے ہیں،اس بات کو جانناہو تو بندہ گاما خاندان کے مایہ ناز سپوت ناصر بھولو سے ملے۔ انکسار، رواداری اور وضع داری میں گندھا یہ گُل رنگ انسان کبھی طوفان تھا تو گردش دوراں کا چکر اب اسے آہستہ خرام‘ بادبہاری میں بدل چکا ہے۔

حاجی منظور حسین المعروف بھولو پہلوان ولد امام بخش پہلوان رستم زمان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ پاکستان بنا تو یہ خاندان ہجرت کر کے موہنی روڈ لاہور آ بسا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے بھولو پہلوان سے ذاتی طور پر ملاقات کر کے پاکستان ہجرت کے فیصلے سے باز رکھنا چاہا مگر ناکام رہے۔ پاکستان آمد کے ایک سال بعد بھولو نے یونس پہلوان کو ہرا کر رستم پاکستان کا ٹائٹل جیتا۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے بھائیوں اعظم‘ اسلم‘ اکرم اور گوگا کے ہمراہ گروپ بنا کر ملک کے اندر اور باہر بے شمار مقابلوں میں اپنی فتح کے جھنڈے گاڑے۔ 51سال پہلے بھولو پہلوان کو اللہ تعالیٰ نے اولاد نرینہ سے نوازا۔ نومولود کا نام ناصر رکھا گیا یہی ناصر بعد ازاں ناصر بھولو کے نام سے فن پہلوانی کا درخشندہ ستارہ بنا۔بھولو نے اکلوتے بیٹے کو ابتدائی تعلیم کے بعد کراچی بھیج دیا۔ جہاں انہوں نے میٹرک کے بعد ڈی جے سائنس کالج میں ایف ایس سی کے لیے داخلہ لے لیا۔
کشمیری النسل ناصر بھولو نے پہلی فری سٹائل کشتی میٹرک کے دوران لڑی، جو برابر رہی ۔اس کے بعد اپنے کیریئر کے دوران انہیں کبھی شکست کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ انہوں نے زیادہ تر کشتیاں پاکستان‘ لندن‘ خلیجی ممالک اور بنگلہ دیش میں لڑیں۔ 1982 میں بنگلہ دیش کے اندر فری سٹائل کشتیو ں کے مقابلے ہوئے جن میں دنیا بھر سے نامور پہلوانوں نے شرکت کی۔ اس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ بنگلہ دیشی صدر جنرل ارشاد حسین نے کشتیاں دیکھنے کے لیے کرفیو کے اوقات میں تبدیلی کا حکم دیدیا تاکہ لوگ ان مقابلوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ناصر بھولو یہاں نامور پہلوانوں کو ہرا کر ایشین چیمپیئن بنے۔جاپان کے نامور پہلوان انوکی نے ان کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر دو لاکھ ماہانہ اور جاپان میں تربیت کی پیشکش کی مگر ناصر بھولو کے والد نے انہیں یہ پیشکش قبول کرنے سے منع کر دیا۔
ایشین چیمپیئن بننے کے بعد جلد ہی ناصر نے اس فن سے کنارہ کشی کر لی۔ وہ وسائل کی کمی اور حکومت کی طرف سے عدم تعاون کو اس کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔ جرات‘ سرعت اور ذہانت کو فن پہلوانی کے بنیادی اجزا قرار دینے والے ناصر بھولو کی فلائنگ کک کسی زمانے میں بہت مشہور تھی جو انہوں نے اپنے چچا گوگا سے سیکھی۔ المناک بات یہ ہے کہ ڈیرہ غازی خاں میں فری سٹائل کشتی کا مقابلہ ہوا تو وہی چچا ان کی فلائنگ کک لگنے سے ایسے گرے کہ پھر کبھی نہ اٹھ سکے۔ چچا کے اپنے ہاتھوں جان سے گزر جانے کا صدمہ ایسا ہے کہ جسے یاد کر کے ناصر آج بھی نمناک ہو جاتے ہیں۔ چچا کے بعد والد کی وفات نے بھی ناصر بھولو کی زندگی پر گہرے اثرات چھوڑے۔ ان کے والد کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود مردم شناس ‘ حاضر دماغ اور انتہائی شفیق انسان تھے۔ ان کا حافظہ اتنا اچھا تھا کہ جو بھی شعر سنتے، آسانی سے یاد ہو جاتا۔ رستم زمان گاما پہلوان رشتے میں ناصر بھولو کے نانا ہیں۔ وہ ان پڑھ ہونے کے باوجود اردو اور فارسی کے اچھے شاعر تھے۔ میاں محمد نواز شریف کی شریک حیات محترمہ کلثوم نواز گاما پہلوان کی نواسی اور ناصر بھولو کی سگی خالہ زاد ہیں۔

شارق بھولو اور تین بیٹیوں کے والدناصر بھولو کی بیوی کے ساتھ بائیس سال قبل علیحدگی ہوئی۔ شہرت، وسائل اور طاقت رکھنے کے باوجود انہوں نے دوسری شادی نہ کی اور زندگی کے قیمتی ماہ و سال اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور خدمت گزاری پر صرف کر دیے۔ زندگی نے ہر مرحلے پر ناصر بھولو کو آزمائش میں ڈالا۔ انہوں نے خدا کی مدد اور حوصلے سے سارے مشکل مرحلے گزار دیئے۔ اس دوران طبیعت میں بے چینی زیادہ بڑھ جاتی تو اپنی خالہ زاد بہن محترمہ کلثوم نواز اور محترمہ بیگم خدیجہ اور ان کے شوہر ڈاکٹر آصف کے دامن شفقت میں پناہ ڈھونڈلیتے۔بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہیں ان کی ذات کے لق و دق صحرا میں جھانکنے کا موقع مل سکا۔ زندگی کوبہترین کتاب اور زمانے کوبہترین استاد قرار دینے والے ناصر بھولو کے مطابق جس روز میری والدہ اس جہاں سے رخصت ہوئیں تو مجھے لگا کہ گویا میں سڑک پر بیٹھ گیا ہوں۔جیسے میری ساری اوٹ اور پناہ گاہیں ختم ہو چکی ہوں۔

یہ بڑے دکھ سے بتاتے ہیں کہ ان والدہ کینسر کی مریضہ تھیں۔ انہوں نے زندگی کے آخری دن بڑی اذیت میں گزارے۔ وہ کہتیں پپیا! بڑی تکلیف میں ہوں‘ خدا خود کشی سے منع نہ کرتا تو زہر کا ٹیکہ لگوا لیتی۔ ایک مرتبہ رات بھر جاگنے کے باعث سحری کے قریب میری آنکھ لگی ہی تھی کہ انہوں نے آواز دے دی‘ میں اٹھا تو مگر قدرے ناگواری کے ساتھ‘ کچھ عرصہ بعد وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ بچوں نے بعد میںمجھے بتایاکہ اس روز والدہ نے کہا تھا ’’ اب مجھے چاہے جتنی بھی تکلیف ہو۔ اسے تنگ نہیں کروں گی‘‘۔ میں نے بچوں سے کہا تم نے بڑا ظلم کر دیا۔ یہ بات مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی۔میں اپنی ماں کے گھٹنے چھوتا‘ ہاتھ اورپائوں چومتا ۔ گڑگڑا کران سے معافی مانگ لیتا۔ اپنی عظیم ماں کو رنجیدہ کرنے کا یہ صدمہ مجھے زندگی بھر نہیں بھولے گا۔

رستم زمان گاما پہلوان رشتے میں ناصر بھولو کے نانا ہیں۔ وہ ان پڑھ ہونے کے باوجود اردو اور فارسی کے اچھے شاعر تھے۔ میاں محمد نواز شریف کی شریک حیات محترمہ کلثوم نواز گاما پہلوان کی نواسی اور ناصر بھولو کی سگی خالہ زاد ہیں۔

فن پہلوانی کے زوال پر ناصر بھولو کا خیال ہے کہ اس کی وجہ سرپرستی کا نہ ہونا ہے۔ ماضی میں راجے‘ مہاراجے پہلوانوں کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے۔ اب ایسا ماحول موجود نہیں۔ بادام‘ گوشت‘ مکھن‘ دودھ‘ میوہ و مربہ جات‘ عرقیات‘ یخنی اور مالشیے سمیت روز مرہ کی دیگر ضرورتوں کا خرچہ پورا کرنا بہت مشکل ہے۔ ٹیلنٹ خواہ کتنا ہی کیوں نہ ہو۔ وسائل کی قلت کے باعث دم توڑ دیتا ہے۔ اچھے پہلوان صرف اپنی خوراک کا ہی خیال نہیں کرتے‘ وہ ان تمام ہمراہیوں کے خوردونوش کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں جو اکھاڑے میں ان کو ورزش کراتے ہیں۔ گھر بار کی ذمہ داریاں اور ضرورتیں اس کے علاوہ ہیں۔ بھارت میں اس فن کی سرپرستی کرنے والے موجود ہیں، اس لیے یہ ابھی تک زندہ ہے۔ میرے والد رستم ہند بھولو پہلوان 1953ء میں ہندوستان گئے۔ وہاں ان کے بے شمار عقیدت مندہیںجن میں زیادہ تعداد ہندوئوں کی تھی۔ ہندو والد کے درشن لینے آتے تو ان کے قدموں میں روپوں اور پھولوں کے ہار ڈھیر کر تے اور ہاتھ جوڑے الٹے پائوں واپس ہو لیتے تاکہ بے ادبی نہ ہو۔ میرے والدکی ملک کے لیے خدمات قابل فخر ہیں لیکن آخری دنوں میں کسی نے ہمارے خاندان کی خبر گیری نہ کی۔ ایسی صورتحال میں ایک بار انہوں نے کہا ’’اب ہم اپنے بچوں کو پہلوانی سکھانے کے بجائے تعلیم دیں اور کرکٹ سکھائیں گے‘‘۔ والد کی وفات پر انڈیا کے ایک اخبار نے سرخی جمائی ’’کسی سے نہ ہارنے والا موت سے ہار گیا‘‘۔

ہمارے یہاں کرکٹ پر خرچ ہونے والے فنڈز کا صرف پانچ فیصد بھی پہلوانی کے فروغ کی خاطر وقف کر دیا جائے تو صورت حال کافی سدھر سکتی ہے۔ فیکٹری مالکان اور بڑے بڑے اداروں کو چاہیے کہ وہ اس فن سے متعلق سرگرمیوں کو سپانسر کریں۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ہمارے یہاں پہلوانی کا معیار یہ تھا کہ مقامی چیمپیئن ہی ورلڈ چیمپیئن خیال کیا جاتا۔ طاقت کا یہ عالم تھا کہ میرے دادا‘ نانا ،والد‘ چچا دھاتی شیٹ کو کاغذ کی طرح پھاڑ کے رکھ دیتے۔ وہ جہاں جاتے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے۔ انہیں دیکھنے کے لیے خواتین اور بچے گھروں کی چھتوں پراُمنڈآتے۔ یہ لوگ بازاروں سے گاڑیوں کے لمبے جلوسوں کی صورت گزرتے۔ سینکڑوں لوگ تو ان کا زور دیکھنے کے لیے ہر روز اکھاڑے میں آ تے۔ عوام مہنگے ٹکٹ خرید کر اس کھیل سے لطف اندوز ہوتے۔ بدقسمتی سے آج کی نوجوان نسل میں یکسوئی ہے نہ ہی شدید محنت کی عادت ۔ یہ دس دن ہلکی پھلکی ورزش لگالیں تو شیشے میں اپنے ڈنڈ دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف لوگوں میں قوت برداشت بھی ختم ہو چکی ہے۔ کسی کو ذرا ٹوک دو تو آنکھیں نکالنا شروع ہو جاتا ہے۔ایسے معاشرے میںبچ کر ہی گزارہ کرنا چاہیے۔ یہاں تو اتنا بھی غنیمت ہے کہ انسان اپنے بچوں کو ڈانٹ لے اور وہ چپ ہورہیں ۔اس سے آگے کا تو سوچنا بھی بیوقوفی ہے۔

پہلوان کے علاوہ کرکٹ اور ہاکی پسند کرنے والے ناصر بھولو کووقت دستیاب ہو تو مہدی حسن کی غزلیں سننا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار روحانی بالیدگی کے لیے ان کا چکر داتا دربار بھی لگتا ہے۔ان کے نزدیک پہلوانی نام ہے صاف ستھرے کردار کا۔ ماضی میں اس طرف آنے والے تہجد گزار اور لنگوٹ کے کھرے ہوتے۔ جب بھاری جسم والے ہر لفنگے نے پہلوان کہلوانا شروع کر دیا تو اس پیشے کو بھی زوال آ گیا۔ بدمعاشی سچے پہلوان کا شیوہ نہیں‘ والد ہمیں رات دو بجے اٹھا کر ورزش شروع کرا دیتے۔ ہمیں حکم تھا کہ بیٹھک لگاتے وقت گنتی نہیں کرنی، اللہ ہو کہنا ہے۔ کسرت کی گنتی کے لیے الگ سے ملازم مقرر تھا۔ کشتی کے مقابلوں سے قبل گھروں میں آیت کریمہ کا ورد کرایا جاتا۔ اب تو یہ سارا سسٹم ہی ختم ہو چکا۔ ایسے ماحول میں ’جتی ستی‘ پہلوان بھلا کہاں سے آئیں؟ خوش قسمتی سے انہیں بچپن میں حج کا موقع ملا۔1985ء کے غیر جماعتی الیکشن میں انہوں نے ایم پی اے کا الیکشن لڑا مگر کامیابی نہ ہوئی۔ اس کے بعد اس طرف خیال نہیں گیا۔ شریف فیملی کا قریبی عزیز ہونے کے باوجود وہ سیاسی حوالے سے ان بہن بھائیوں کو ’’تنگ کرنے‘‘ کے حق میں نہیں۔ یہ البتہ ضرور ان کی خواہش ہے کہ ان کے یہ عزیز فن پہلوان کی سرپرستی کریں۔

مہنگائی اور لاقانونیت کے ہاتھوں غریبوں کی جو حالت ہورہی ہے ناصر بھولو کو اس کا گہرا احساس ہے۔ ان کے خیال میں ہمارا ملک سنگین صورت حال سے گزر رہا ہے۔ امریکی اثرورسوخ ہماری پالیسیوں پر حاوی ہے۔ وہ ایک شخص کے لیے پوری قوم کا ستیا ناس کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ہمارے ملک میں طاقت ان لوگوں کے پاس ہے جو بھٹو کی پھانسی کے ذمہ دارہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور ان کے ساتھیوں کی تذلیل کے ذمہ دار ہیں۔ خدا کرے معزول جج بحال ہوجائیں۔ جب تک غریب کو روزگار اور انصاف نہیں ملے گا، کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ کرپشن، ملاوٹ اور منہگائی نے برا حال کر دیا۔ ملک کی حالت ایسی ہے کہ قومی معاملات کو دیکھ کر‘ ٹھنڈ‘ نہیں پڑتی بلکہ آہ ہی نکلتی ہے۔

ناصر بھولو کو گلہ ہے کہ فن پہلوانی کے لیے خدمات اور ملک کا نام روشن کرنے پر ہمارے خاندان کو اوکاڑہ اور کراچی میں زمین ملی۔ اوکاڑہ والی زمین ایک با اثر جیالے کی کرم فرمائی سے چھن گئی جبکہ ناظم آباد، کراچی والی زمین کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ شروع میں محترم اجمل خلیل کی مہربانی سے میری اور زبیر عرف ’جھارا‘ کی سرپرستی الائیڈبنک کی طرف سے منظور کی گئی مگر جب وہ نیک نفس ملازمت پر نہ رہے تو ہمیں بھی جواب دیدیا گیا۔حکومت چاہے تو میرے پاس ایسی ٹھوس تجاویز ہیں جن پر عمل کر کے دم توڑتے فن پہلوانی کو دوبارہ عروج کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے‘‘۔

والد ہمیں رات دو بجے اٹھا کر ورزش شروع کرا دیتے۔ ہمیں حکم تھا کہ بیٹھک لگاتے وقت گنتی نہیں کرنی، اللہ ہو کہنا ہے۔ کسرت کی گنتی کے لیے الگ سے ملازم مقرر تھا۔ کشتی کے مقابلوں سے قبل گھروں میں آیت کریمہ کا ورد کرایا جاتا۔

ناصر بھولو کا تعلق پہلوانوں کے بڑے خاندان سے ہے، اس لیے ان کا سینہ بے شمار واقعات سے بھراہوا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ میرے نانا گاما پہلوان رستم زمان بن کر گھر لوٹے تو بے شمار لوگ مبارکباد دینے وہاں آئے۔ ایسے میں ان کے خلیفہ (استاد) نے جن کا فن پہلوانی میں بہت دبدیہ ہوتا ہے‘ نے آواز دی۔ ’’اوئے گامے ! چل میری چلم بھر کے لا‘‘۔ والد لوگوں کے بیچ میں سے تیر کی طرح اٹھے اور دوڑے چلم بھرنے، کہ خلیفہ نے فرمایا ’’بس ٹھیک ہے بیٹھ جائو۔ یہی دیکھناتھا کہ تمہارے ذہن میں رستم زمان بننے کا خناس تو نہیں بیٹھ گیا۔یہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد اور چچا نے ایک ایسی فلم میں کام کیا جو فلمساز کی طرف سے بندہ مارنے پر ادھوری ہی رہی۔ مجھے بھی ایک فلم میں کام کا موقع ملا‘ جس کا نام ’’چٹان‘‘ تھا۔ فلم میں مسرت شاہین کو میرے مقابلے میں ہیروئن کا رول دیا گیا۔ میں نے پروڈیوسر کو بہت سمجھایا کہ ہیروئن شوبز کے حساب سے ایسی لائو کہ لوگ یاد کریں مگر وہ نہ مانا۔ نتیجہ جس کا یہ نکلا کہ فلم ہٹ نہ ہو سکی۔ مسرت شاہین مجھ سے بڑا پہلوان تھی یعنی ہیرو پہلوان تو ہیروئن بھی پہلوان۔ یہ فلم کتنے دن چلتی اور لوگ آخر اسے کتنے دن برداشت کرتے۔

ایک بارناصر کے چچا اور جھارا کے والد اسلم پہلوان یونس پہلوا ن کو شکست دے کر ڈھول باجے کے ساتھ گھر لوٹے تو ان کی والدہ نے ملازمہ سے پوچھا ’’یہ شور کس بات کا ہے؟‘‘نوکرانی نے بتایا ’’آپ کا بیٹا ایک بڑا دنگل جیت کر آیا ہے۔اس پر وہ محترم خاتون بولیں ’’واہ! خدا کی شان ہے جس لڑکے سے میرے شوہر کے مالشیے تگڑے تھے ،وہ اب بڑے بڑے دنگل جیتنے لگا ہے۔