کیپٹن راجہ محمد سرور شہید 384

کیپٹن راجہ محمد سرور شہید

کیپٹن راجہ محمد سرور شہید

تعارف:

افواجِ پاکستان کی تاریخ جرات و بہادری کے بے مثال کارناموں سے بھری پڑی ہے ۔ جب بھی آزمائش کی مشکل گھڑی آئی؛ وطن کے سپوتوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر اپنے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا ۔کچھ ایسے ہی لازوال مجاہدوں میں ایک نام کیپٹن راجہ محمدسرور ،شہید کا ہے جنہوں نے 1948میں آزاد کشمیر کے علاقے اوڑی سیکٹر ( مقام تل پترا )میں انڈیا کی فوج کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔وہ خود دشمن کی پوسٹ پر قبضے کے دوران جام شہادت نوش کر گئے۔ان کی بہادری اور قربانی کوسامنے رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے انہیں بہادری کے اعلیٰ ترین اعزاز نشان حیدر سے نواز ا۔وہ نشان حیدر پانے والے پاکستان کے پہلے آفیسر تھے۔

ابتدائی زندگی:
کیپٹن محمد سرور شہید 10نومبر1910کو گاؤں سنگھوڑی ،تحصیل گوجر خان ،ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام راجہ محمد حیات تھا۔ان کا تعلق ایک مذہبی اورصوم و صلوۃ کے پابند گھرانے سے تھا۔وہ عید کے متبرک دن پیدا ہوئے۔ایک حیرت انگیز بات یہ ہوئی جب وہ شہید ہوئے تو وہ بھی عید کا ہی دن تھا۔ راجہ محمد حیات خان اپنے علاقے کی ایک مشہور و معروف شخصیت تھے۔بر طانیہ کے دور حکومت میں راجہ حیات خان نے برطانوی فوج میں اپنی قابلیت کے بل بوتے پر خاصا نام کما یا۔انہوں نے بطور حوالدار پہلی جنگ میں نہایت اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔انگریز حکام سرگودھا،میانوالی،جہلم اور راولپنڈی کے اضلاع کو مارشل ایریا کہا کرتے تھے۔ یہ علاقے زیادہ تر بنجر اور غیر آباد ہیں ۔ ان علاقوں سے زمانہ قدیم سے ہی لوگ فوج میں بھرتی ہونا نا پسند کرتے تھے۔راجہ محمد حیات ایک عرصہ تک اسی دیہات میں بطور نمبردار مقیم رہے۔اس دور میں نمبردار، حکومت کا ایک نہایت اہم نمائندہ ہوتاتھا ۔کیپٹن محمد سرور کے والد کو ملازمت کے دوران حکومت نے تعریفی اسناد سے بھی نوازا۔ان کا انتقال 23فروری 1932کو ہوا ۔کیپٹن محمد سرور کی ایک بہن اور تین بھائی تھے۔ان کے بڑے بھائی کا نام راجہ محمد مرزا خان تھا۔وہ اپنے والد کی طرح سپاہیانہ زندگی پسند کرتے تھے۔ چنانچہ وہ بھی فوج میں بھرتی ہوئے اور بوقت ریٹائرمنٹ دفعہ دار میجر تھے۔راجہ محمد سرور شہید کے دوسرے بھائی کا نام محمد سردار خان تھا ۔وہ فوج میں بھرتی ہوئے اور حوالدار کے عہدے پر ریٹائر ہوئے۔کیپٹن محمد سرورکے تیسرے بھائی کا نام راجہ محمد افسر خان تھا۔وہ فوج میں بھرتی نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے کھیتی باڑی کی ۔کیپٹن محمد سرور شہید بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔
تعلیم :
دستور کے مطابق اس زمانے کے لوگ اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم کیلئے مسجد بھیجا کرتے تھے؛ جہاں انہیں ابتدائی تعلیم کیساتھ ساتھ قرآن پاک بھی پڑھایا جاتا تھا ۔ کیپٹن محمد سرور شہید نے بھی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کی مسجد سے حاصل کی۔ اسکے بعد وہ اپنے والد گرامی کے ساتھ لائل پور(فیصل آباد) چلے گئے اور وہاں انہوں نے پانچویں جماعت تک سکول پڑھا۔وہ ذہین و فطین طالبعلم تھے اور اپنے اساتذہ کی
آنکھوں کا تارا تھے۔راجہ محمد سرور نے کچھ عرصہ تاندلیانوالہ میں بھی گزارا ۔انہوں نے وہاں سے مڈل جماعت تک تعلیم حاصل کی۔انہوں نے 1925میں مڈل جماعت کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا ۔مڈل پاس کرنے کے بعدوہ لائل پور واپس آگئے؛ جہاں انہوں نے اسلامیہ ہائی سکول میں داخلہ لے لیا۔اسی سکول سے انہوں نے 1927میں میٹرک امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔وہ پورے ضلع میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے پہلے مسلمان طالب علم تھے۔ چنانچہ تمام مسلمانوں کو اس بات پر خوشی ہوئی ۔چونکہ ان کا تعلق ایک کٹر مذہبی گھرانے سے تھا لہذانہوں نے ہمیشہ صلح اور امن کو پسند کیا۔وہ بچپن سے کبھی کسی کے ساتھ تلخی کے ساتھ بات نہیں کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے دوست بھی کبھی ان سے تنگ نہ ہوئے۔وہ بچپن سے پوری توجہ سے پڑ ھائی کرتے تھے تاکہ فوجی افسر بن سکیں۔
سیرت وکردار:
کیپٹن راجہ محمد سرور شہید نشان حیدر ایک خوش شکل اور وجہیہ نوجوان تھے۔ان کا قد درمیانہ تھا اور اعضاء متناسب تھے جبکہ ان کا جسم سڈول اور گٹھا ہو ا تھا۔ان کی آنکھیں غزالی،کشادہ پیشانی اور چہرے پر مونچھیں عجب نکھار پیدا کرتی تھیں۔کیپٹن محمد سرور کا رنگ گندمی تھا اور وہ بچپن سے ہی فوجی یونیفارم کو بے حد پسند کرتے تھے۔جب بھی وہ کسی کو فوجی یونیفارم میں دیکھتے تو بہت خوش ہوتے تھے ۔جب وہ خود فوج میں شامل ہوئے تو وہ اکثر یونیفارم میں ہی ملبوس رہتے۔جب وہ اپنے گھر چھٹیوں پر آتے تو ان کا لباس دھوتی ،کرتا شلوار اور قمیض ہوا کرتا تھا۔انکے ایک ساتھی اور دوست لفٹینٹ کرنل عباس خان صاحب اس سلسلے میں یہ کہتے ہیں:’’کیپٹن محمد سروربہت ہی با اخلاق تھے اورہر ایک کی مدد کرتے تھے۔نماز با جماعت کے پابند تھے بلکہ تہجد گزار بھی تھے۔اولیائے کرام کے بہت عقیدت مند تھے اور ان کے مزارات پر اکثر حاضری دیا کرتے تھے۔بزرگان دین کے فیض کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگتے کہ اللہ کے یہ پیارے بندے مر کر بھی زندہ رہتے ہیں اور دوسروں کی روزی کا باعث بنتے ہیں۔وہ شراب سے سخت متنفر تھے۔شراب کی پارٹیوں میں اکثر مسلمان افسر بھی انگریز افسروں کا ساتھ دیتے تھے لیکن کیپٹن سرور ایسی پارٹیوں میں ایک کونے میں کھڑے رہتے تھے اور شراب کو ہاتھ تک نہ لگاتے تھے۔‘‘ایک اورواقعہ بھی آپ کے علاقے کے لوگوں میں بہت مشہور ہے کہ ایک دفعہ وہ چہل قدمی کر رہے تھے کہ انہوں نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جو بہت ہی خستہ حال اور تھکا ماندہ تھا۔انہوں نے دیکھا کہ وہ شخص ایک کنویں کی منڈیر پر نہایت ہی مایوسی کے عالم میں بیٹھا ہوا تھا ۔انہوں نے اس سے اس کا حال احوال دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ بہت بیمار ہے اور کافی تھک چکا ہے۔اس میں اب ایک قدم بھی چلنے کی سکت نہیں ہے ۔بوڑھے نے ان سے کہا کہ اگر وہ اسے کسی مسجد تک پہنچا دیں تو بڑی مہربانی ہو گی۔مسجد کی بجائے وہ بوڑھے کو اپنے ہمراہ گھر لے آئے۔ بستر پر لٹایا اور کچھ دیر بعد کھانا کھلا کر سونے کو کہا ۔صبح انہوں نے اس کو ناشتہ کروایا اور کچھ رقم دے کر نہایت ادب سے رخصت کیا۔
ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ قواعد و ضوابط کے سخت پابند تھے۔اگر آپ کی رہائش پر ان کو کوئی سلیوٹ کرتا تو وہ اسکو سختی سے منع کر دیتے اور یہ کہتے کہ سلیوٹ تو صرف یونیفارم میں کیا جاتا ہے۔اس وقت سلیوٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔وہ ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتے کہ فوج کے مروجہ قوانین کی پاسداری کی جائے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے متعدد بار اپنے افسران بالا کے حکم پر تقریبات کا انتظام بڑے احسن طریقے سے کیا حالانکہ یہ تقاریب ان کے اپنے مزاج کے بالکل خلاف تھیں۔انہوں نے کبھی ان میں ذاتی طور پر شرکت نہ کی ۔
شادی :
کیپٹن راجہ محمد سرور شہید 15مارچ1936کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ۔ان کی شادی ان کے خاندان کی ایک خوبصورت اور خوب سیرت خاتون محترمہ کر م جان سے ہوئی ۔ان کا آبائی گاؤں بھی سنگھوڑی تھا۔کہا جاتا ہے کہ شادی کی تقریب عین اسلامی روایات کے مطابق ہوئی۔ان کی زوجہ محترمہ نہایت ہی سلیقہ مند اور ملنسار خاتون تھیں۔ان کی پردہ داری کا اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ اپنے عظیم شوہر کاایوارڈ (نشان حیدر)27اکتوبر1959ء کو صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان سے وصول کرنے کیلئے آئیں تو انہوں نے برقعہ پہنا ہوا تھا۔
فوجی ملازمت :
کیپٹن راجہ محمد سرور شہید ایک فوجی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اسلئے ا ن کے والد اور بھائیوں کی دلی خواہش تھی کہ وہ بھی فوج میں شامل ہو جائیں۔ان کے بھائیوں کا خیال تھا کہ راجہ محمد سرور فوج میں بطورسپاہی بھرتی جائیں لیکن ان کا ارادہ افسر بننے کا تھا ۔ انہوں نے ان کی بات نہ مانی اور انہیں انتظار کرنے کو کہا۔1927میں انہوں نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرلیا تو ان کے فوج میں جانے مواقع پیدا ہو گئے ۔ 1929میں حالات نے اچانک کروٹ لی اور ان کو فوج میں بھرتی ہونا پڑا۔وہ امام بری سرکار کے سالانہ عرس کے لیے راولپنڈی آئے ہوئے تھے ۔عرس کی تقریبات سے فارغ ہو کر جب انہیں معلوم ہوا کہ راولپنڈی میں ان دنوں فوجی بھرتی ہو رہی ہے تو وہ غیر ارادی طور پر بھرتی ہونے چلے گئے۔وہ خوبصورت اور پڑھے لکھے نوجوان تھے ۔چنانچہ ان کو بلوچ رجمنٹ میں بطور سپاہی بھرتی کر لیا گیا۔فوجی تربیت حاصل کرنے کیلئے انہیں اولڈ بلوچ سنٹر کراچی بھیجوایا گیا۔جہاں سے کامیاب ہو کر انہوں نے 1930,31کے دوران شمال مغربی سرحدی صوبہ میں مہم کے دوران زبردست خدمات انجام دیں۔راجہ محمد سرور نے اس رجمنٹ میں 1930تا 1941 تک پہلے ایک سپاہی اور بعد ازاں بطورحوالدار خدمات انجام دیں۔ان کو1941میں رائل انڈین آرمی میں بطور جونئیر کمیشنڈ آفیسر ترقی دے دی گئی۔بعد میں انہیں 1942میں ہنگامی کمیشن کے لیے منتخب کر لیا گیا۔اس کے بعد 19مارچ1944کو وہ لفٹینٹ بنائے گئے اور 1/2 پنجاب رجمنٹ میں شامل ہوگئے ۔ا نکی قابلیت اور پیشہ ورانہ خوبیوں کی بنا پر انہیں یکم فروری 1946کو کیپٹن بنا دیا گیا۔ابھی یہ عہدہ حاصل کئے ہوئے انہیں محض چھ ماہ بھی نہ ہوئے تھے کہ انہیں ایک اور اعزاز حاصل ہوا ۔یہ اعزاز تھا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کیپٹن کے طور پر کارنامے سر انجام دینے کا موقع۔اس مرد مجاہد نے کس قدر جلدی سے ترقی کی منازل طے کیں انسان دیکھ کر دھنگ رہ جاتا ہے۔1941میں وہ فقط ایک سپاہی تھے لیکن مسلسل جدوجہد کے بعد انہوں نے درجہ بدرجہ تمام ترقی حاصل کی۔ ان کا سپاہی سے لیکر کیپٹن تک کا سفر صرف سات برسوں پر محیط تھا۔
کارنامے:
پاکستان کو معرض وجود میں آئے ابھی ایک برس ہی ہوا تھا کہ بھارتی افواج نے آزاد کشمیر کی سرحد پر ایک انتہائی اہم مقام پر اچانک قبضہ کر لیا۔نا صرف قبضہ کر لیا بلکہ وہاں پر مضبوط مورچے بھی تعمیر کر لئے۔یہ صورت حال پاکستان کیلئے ناخوشگوار تھی۔چنانچہ صبر اور انتظار کی مزید ضرورت نہ تھی بلکہ عملی مظاہرہ کرنے کا وقت آن پہنچاتھا۔قیام پاکستان کے وقت چونکہ پنجاب رجمنٹ ایک منظم اور فعال رجمنٹ تھی اس لئے اس کو کشمیر میں متاثرہ سرحد پر جانے کا حکم ملا۔اسی رجمنٹ میں راجہ محمد سرور بھی اپنا سگنل کورس مکمل کر رہے تھے مگر ابھی ان کی تربیت مکمل نہ ہوئی تھی ؛چنانچہ وہ کسی طرح بھی محاذجنگ پر نہیں جا سکتے تھے۔اپنے تجربہ اور قابلیت کی وجہ سے وہ یہ خیال کرتے تھے کہ انہیں ضرور جنگ پر جانا چاہیے۔ابھی محاذ جنگ پر فوج گئی نہ تھی کہ ان کا کورس بھی مکمل ہو گیا ۔انہوں نے فوراً ہی کوشش شروع کر دی کہ ان کو محاذ پر جانے والی یونٹ میں شامل کیا جائے۔راجہ محمد سرور نے اس مرتبہ اپنے بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ملاقات میں کمانڈنگ آفیسر سے انہوں نے د رخواست کی کہ وہ محاذ جنگ پر جانا چاہتے ہیں؛ مگر انہیں جنرل ہیڈکوارٹر میں جانے کا کہا جا رہا ہے ۔کمانڈنگ آفیسرکو معلوم تھا کہ یہ محاذآسان نہیں ہے۔لیکن کمانڈنگ آفیسر نے ان سے وعدہ کر لیا اور کچھ دن بعد راجہ محمد سرور کو یونٹ میں شامل کر لیا۔چند روز کے بعد کمانڈنگ آفیسر لفٹینٹ کرنل مسعود احمد نے اپنے ماتحت جوانوں اور افسروں کو جمع کیا اور ان کو اس سلسلےمیں مشورے کیلئے کہا۔کمانڈر نے تمام صورت حال ان کے سامنے رکھ دی کہ کوئی ایسا جانباز چاہیےجو مختصر سی جماعت کے ساتھ دشمن کی اس چوکی کو تباہ و برباد کر دے جو فتح کے راستے میں حائل تھی۔ کیپٹن محمد سرور نے جواب دیایہ کام وہ بڑے شوق اور جذبے کے ساتھ کریں گے۔کیپٹن محمد سرور نے تمام باتوں کو غور سے سنا اور کمانڈر کی ہدایات پر عمل کرنے کا وعدہ کر لیا۔
معرکہ حق و باطل:
27جولائی1948کی صبح طلوع ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھاکہ کیپٹن محمد سرورنے اپنے ساتھیوں کو پیش قدمی کرنے کا حکم دیا۔پیش قدمی کا یہ منصوبہ کیپٹن محمد سرور کا اپنا تیار کردہ تھا۔یہ ایک محفوظ حکمت عملی تھی جس کی وجہ سے ان کے نوجوانوں کا نقصان بہت کم ہوتا۔کیپٹن راجہ محمد آگے بڑھتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو بھی دیکھتے جا رہے تھے کہ اچانک انہوں نے دیکھا کہ ان کے ایک ساتھی جو کہ برین گن چلا رہا تھا کو دشمن کی ایک گولی لگ چکی ہے۔ اس بہادر سپوت کانام فرمان علی تھا جس نے سب سے پہلے شہادت کا رتبہ اس دن پایا۔کیپٹن محمد سرورنے اپنے ساتھی فرمان علی کی برین گن سنبھالی اور دشمن پر دیوانہ وار گولیاں برسانے لگے۔ان کی گولیاں عین نشانے پر لگ رہی تھیں اور دشمن کے بہت سے سپاہی ڈھیر ہو چکے تھے۔تمام خطرات سے بے نیاز وہ آگے بڑھتے جا رہے تھے کہ دشمن کی ایک گولی ان کے بائیں شانے کو چھیدتی ہوئی پار نکل گئی۔خون کا فوارہ پھوٹ پڑا مگر اس وقت خون بند کرنے کا کس کو ہوش تھا ؛یہ تو وقت شہادت تھا ۔انہوں نے خون کو بہنے دیا اور ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے بلکہ مزید تیز رفتاری سے آگے بڑھنے لگے۔ اب وہ دشمن کے سر پہنچ چکے تھے۔دشمن یہ دیکھ چکا تھا کہ کیپٹن محمد سرور اس کی لگائی ہوئی آہنی باڑھ کو کاٹنے میں مصروف ہیں ۔وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر تار کاٹنے میں مصروف عمل رہے ۔اس دوران بے تحاشا خون بہہ چکا تھااور وہ اپنا تمام کام کر چکے تھے کہ دشمن کی ایک گولی ان کے سینے میں لگی اور آپ کو شہادت کے رتبے پر فائز کر گئی۔ان کے ساتھی آگے بڑھے اور فائرنگ کرتے ہوئے دشمن کے مورچے پر قابض ہوگئے۔دشمن کے پاس بھاگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔دوپہر تک اس فتح کی اطلاع پورے پاکستان میں پھیل چکی تھی ۔اس وقت پاکستان کے ہر فرد نے انکو خوب خراج تحسین پیش کیا۔
نشان حیدر:
ان کا کارنامہ بہت عظیم تھا۔ بعد میں یوم جمہوریہ کے موقع پر یعنی 23مارچ1957کو صدر پاکستان سکندر مرزا نے کیپٹن راجہ محمد سرور شہید کو پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ، نشان حیدردینے کا اعلان کیا۔27اکتوبر1959کو جنرل ایوب خان کے انقلاب کی پہلی سالگرہ تھی۔جنرل ایوب خان نے اس موقع پر ایک تقریب میں راجہ محمد سرور شہید کی زوجہ محترمہ کرم جان صاحبہ کو کیپٹن راجہ محمد سرور شہید کا نشان حیدر عطا کیا۔ یہ قومی سطح پر کیپٹن محمد سرورکی بہادری ، دلیری ، اور جانبازی کو خراج تحسین پیش کرنے کا اظہار تھا۔
ان کے افسران کی ان کے بارے میں ذاتی رائے:
ان کی شہادت کے بعد اس وقت کے کمانڈر ان چیف جنرل چیف موسی ٰنے کہا :’’ میں کیپٹن محمدسرور شہید کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں جنہوں نے سب سے پہلے نشان حیدر حاصل کر کے پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے ۔انہوں نے عظیم قربانی دے کر اپنا ،اپنی فوج کا اور اپنی بٹالین کا نام ہمیشہ کیلئے زندہ کر دیا ہے۔بے شک ان کی قربانی پر ہم سب کو فخر ہے۔آئیے ہم سب مل کر عہد کریں کہ اس سنہری کارنامے کی یاد ہمیشہ تازہ رکھیں گے۔اسی طرح جنرل ٹکا خان تحریر کرتے ہیں :پوری قوم سرور شہید کے شاندار کارنامے پر خراج تحسین پیش کرتی ہے۔افواج پاکستان کی تاریخ میں ان کا یہ کارنامہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔انکے بارے میں جنرل اے ۔ان کے دیرینہ ساتھی میجر افضل کہتے ہیں:’’ میں یوں محسوس کرتا ہوں کہ جیسے سرور شہید ابھی میرے قریب سے گزرے ہیں اور مجھے نصیحت کر کے گئے ہیں کہ میں دشمن کی ناکامی اور ان کی شہادت کی دعا مانگوں مجھے وہ وقت یاد ہے۔ان کی زندگی مثالی تھی میں نیند کا شوقین تھا وہ صبح سویرے اٹھ کر نماز پڑھنے لگتے اور مجھے زبردستی اٹھاتے۔میں انہیں مولوی کہتا اور وہ مجھے روکتے اور شہید کہہ کر پکارنے کو کہتے۔‘‘صوبیدار منگت خان کا کہنا ہے :’’کیپٹن محمدسرور شہید فضول بات چیت نہ کرتے ۔وہ بہت کم گو تھے اور صرف کام کی بات کرتے تھے ،ہمیشہ باوضو رہتے اور وقت کی قدر کرتے تھے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں