mehmood-sham 287

کیا عمران تاریخ کی دستک سن رہے ہیں؟

تاریخ اسلام آباد کے در پر دستکیں دے رہی ہے۔ جغرافیہ ہمیں وسطی ایشیا ساتھ لے جانے کے لئے تیار کھڑا ہے۔پاکستان کی آزادی کا 75واں سال دو اتوار بعد سرپٹ دوڑنے والا ہے۔میرا وجدان کہہ رہا ہے کہ جس راہ سے برصغیر کو فتح کرنے غیر ملکی فوجیں آیا کرتی تھیں۔ اب اسی سے خوشحالی آنے والی ہے۔

یہ بشارت یہ نوید وسطی ایشیا سارے جنوبی ایشیا کے لئے ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت پھر ایک سنہری موقع پیش کررہی ہے۔ فلک کی آنکھیں اسلام آباد پر لگی ہیں کہ بحران کی آنکھ میں جھانکنے کی صلاحیت بروئے کار لائی جاتی ہے یا نہیں؟ تاریخ کے دھارے کو اپنے حق میں موڑنے کی اہلیت استعمال کی جاتی ہے یا نہیں؟

عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ اکیسویں صدی کے اس فیصلہ کن موڑ پر پاکستان کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں ہے۔ ہم 22کروڑ کو بھی اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنی تمام جبلتوں اور مہارتوں کو حرکت میں لانا چاہئے۔

درست فیصلوں اور معروضی پالیسیوں کے جو ثمرات نصیب ہوں گے وہ صرف عمران خان کی جھولی میں نہیں گریں گے۔ اس سے صرف بنی گالہ کے در و دیوار نہیں مہکیں گے۔ گوادر سے واہگہ تک گل و گلزار ہوسکتا ہے۔

ہوا اگر موافق ہے تو صرف عمران خان کے لئے نہیں ہے۔ پورے پاکستان کے لئے ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے عوام کی روایت یہی رہی ہے کہ وہ اسلام آباد میں جس کی حکومت ہوتی ہے خود کو اس کے سپرد کرتے ہیں۔

سیالکوٹ سے بھی یہی خبر آئی ہے۔ فتوحات کا نشہ غلط فیصلے بھی کروادیتا ہے۔ پہلا مرحلہ تو آزاد کشمیر کے لئے وزیر اعظم کی نامزدگی کا ہے۔ سوشل میڈیا پر دو نام چل رہے ہیں۔ سردار تنویر الیاس اور بیرسٹر سلطان محمود۔ خلق خدا بیرسٹر سلطان محمود کے تجربے کی روشنی میں انہیں صدر آزاد کشمیر بنانے کے مشورے دے رہی ہے۔ ان سے تو ہماری ملاقاتیں رہی ہیں۔

سردار تنویر الیاس سے کبھی سلام دُعا نہیں ہوئی۔ مگر خلقت شہر جب کسی کا نام زیادہ جپ رہی ہو تو اسے نقارۂ خدا سمجھ لینا چاہئے۔

اس فیصلے سے بھی خوشحالی اور استحکام کے سفر کا تعین ہوگا۔ ہمارے خطّے کی صورت حال پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ افغانستان کے عوام پھر امید اور مایوسی کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ سچ کہی جاسکتی ہے کہ ایک سپر طاقت کو پھر ہزیمت ہورہی ہے۔

افغانستان تسخیر نہیں ہوسکا ۔ میں اسے تاریخ کے تناظر میں یوں دیکھتا ہوں کہ اس سے نقصان ان طاقتوں کا نہیں۔ خود افغانیوں کا ہوتا ہے۔ وہ دنیا سے کتنا پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کیا یہ ان طاقتوں کی فتح نہیں ہے جو افغانستان کو گزشتہ تاریک صدیوں میں رکھنا چاہتی ہیں اور وہ کامیاب بھی ہوجاتی ہیں۔

اس انداز سے ہم کیوں نہیں سوچتے کہ امریکہ جیسی سپر طاقت اربوں ڈالر اور 20سال کی مطلق العنانیت کے ساتھ کیا افغانستان کے عوام کے لئے زندگی آسان نہیں کرسکتی تھی۔

کارخانے نہیں لگاسکتی تھی۔ زراعت کو ترقی دے کر افغانستان کے کھیتوں سے سونا نہیں اگلواسکتی تھی۔ کیا یہ امریکہ کی فتح نہیں ہے کہ وہ پھر افغانستان کو رجعت پسند قوتوں کے حوالے کرکے جارہا ہے۔ امریکہ پاکستان میں 1948 سے کیا رجعت پسند طاقتوں کا ساتھ نہیں دیتا آرہا۔ جمہوریت کا نام لیتا ہے لیکن آمروں کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے۔

بتائیے پاکستان کے کس آمر سے امریکہ کی یاری نہیں رہی۔ اب 1992سے بھارت سے پینگیں بڑھاکر وہاں ایک متعصب معاشرے اور انتہا پسند حکمرانوں کو مسلط نہیں کروادیا۔ ذرا تحمل سے سوچیں کہ وہ فکری بنیادوں پر فتح مند نہیں ہے؟

پاکستان کے عوام، دانشوروں، یونیورسٹیوں، دینی مدارس سب کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں موجود فراواں امکانات کا بغور جائزہ لینا چاہئے جو ہر شعبے میں بیکراں ہیں۔ تاریخ نے عمران خان کو یہ عزت دی ہے کہ اسے خطّے کے سب سے زیادہ مسلمان آبادی والے ملک کی قیادت حاصل ہے۔

افغانستان میں آئندہ مہینوں میں جو بھی رجحانات ہوں گے پاکستان ،وسطی ایشیا کی ریاستوں اور چین کی معیشت کا مستقبل ان سے وابستہ ہوگا۔ اس وقت ہمیں خاموش تماشائی بن کر یہ نہیں دیکھنا چاہئے اور نہ ہماری گفتگو کا محور یہ ہو کہ عمران خان کیا رُخ اختیار کرنے والے ہیں۔

وہ کس کے اشارے پر چل رہے ہیں۔ قومی سیاسی جماعتوں کو بھی ٹھوس تجاویز کے ساتھ سامنے آنا چاہئے۔ سنجیدگی کا تقاضا تو یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن)، پی پی پی، جمعیت علمائے اسلام اور دوسری جماعتیں اپنی مرکزی مجالس عاملہ کے اجلاسوں میں اس علاقے کی سیاسی، اقتصادی، سماجی حالات پر غور کرکے پالیسی بیان تیار کریں۔

عمران کی بجائے پاکستان کے عوام کو پیش نظر رکھ کر۔ اسی طرح یونیورسٹیاں، سمندر پار پاکستانی بھی تحقیق کی بنیاد پر تدابیر و تجاویز سے آگاہ کرسکتے ہیں۔ خیال رہے کہ افغانستان کے بارے میں درست پالیسی سے ہی ہم طاقت ور ہوں گے اور پھر کشمیر کی جدو جہد آزادی میں کشمیریوں کے لئے کچھ کرسکنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

عمران خان کو بھی ادراک ہونا چاہئے کہ انہیں زیادہ وسیع بنیادوں پر آفاقی سطح پر قیادت کا موقع مل رہا ہے تو وہ تدبر، کم گوئی اور مطالعے کے ساتھ اس موقع کے مطابق فکر کا معیار رکھیں۔

نواز شریف، زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کے ہیولوں سے بالاتر ہوکر افغانستان، تاجکستان،ترکمانستان، ازبکستان، آذر بائیجان، قازقستان، کرغزستان کے حوالے سے پاکستان کا مفاد سوچیں۔ چین سی پیک۔ قراقرم۔ گوادر شاہراہ سے ان ممالک تک رسائی حاصل کررہا ہے۔ اپنی مصنوعات وہاں تک لے جانا چاہتا ہے۔

ان ریاستوں میں معدنی وسائل بھی ہیں اور افرادی قوت بھی۔ خواندگی کی شرح بھی مناسب ہے۔ سوویت یونین میں کئی دہائیاں رہنے کی بدولت ایک ڈسپلن بھی ہے۔ نقطۂ نظر اقتصادی ہے۔ ہم بھی اپنی برآمدات اس وسیع مارکیٹ میں لے جا سکتے ہیں۔

ہمارا تو ان سے مذہب، ثقافت اور ادب کا رشتہ بھی ہے۔ تاریخ کے تناظر میں مجھے بھارتی حملے کے بعد صدر ایوب کی اپوزیشن سے ملاقات، شملہ جانے سے قبل مری میں صدر بھٹو کی تمام سیاسی قائدین سے مشاورت۔

جنیوا معاہدے کے وقت وزیر اعظم جونیجو کے سیاسی مخالفین سے مشورے اور نائن الیون کے بعد صدر پرویز مشرف کی مختلف رہنمائوں، مدیران، دانشوروں سے میٹنگیں یاد آرہی ہیں کیا، عمران خان کو وزیر اعظم ہائوس میں سیاسی جماعتوں ، سابق سیکرٹریز خارجہ، مورخین، ماہرین، ایڈیٹرز، تاجروں، صنعت کاروں سے ایسی ملاقاتیں نہیں کرنی چاہئیں؟

اس طرح ان کے فیصلے صرف ذاتی یا یک جماعتی فیصلے نہیں ہوں گے بلکہ اجتماعی روح پر مبنی تاریخ ساز اقدامات ہوں گے۔ قوم کو بھی چاہئے کہ وہ عمران خان پر سوشل میڈیا کے ذریعے اجتماعی فیصلوں کے لئے دبائو بڑھائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں