mahar barlas article 715

کہیں سے دیانتداری لے آئیں تحریر مظہر برلاس بشکریہ جنگ

کہیں سے دیانتداری لے آئیں تحریر مظہر برلاس . بشکریہ جنگ

ایک اردو بولنے والے بزرگ عالمِ دین لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’میں صحابہؓ کی مثالیں نہیں دے رہا، نہ نبیوں اور پیغمبروں کی باتیں کر رہا ہوں، میں تو آج ان لوگوں کی باتیں کر رہا ہوں جنہیں ہم سب جہنمی سمجھتے ہیں۔

ہم ایک لمحے کے لئے نہیں سوچتے کہ جن کو ہم جہنمی سمجھتے ہیں، ان کی ترقی کا راز کیا ہے؟ مسلمان کی تمنا ہے کہ کافروں کو ترقی نہ ملے مگر یہ اللہ تعالیٰ کا قانون نہیں کہ وہ دیانتداروں کو پیچھے کرے۔

جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ایک شخص ٹیکسی میں سوار ہوا تو کیا ہوا؟ زبان نہ آنے کی وجہ سے زیادہ بات تو نہ کر سکا، بس اس انسٹیٹوٹ کا نام لیا جہاں اسے جانا تھا، ٹیکسی ڈرائیور سمجھ گیا، اس نے سر جھکایا اور مسافر کو دروازہ کھول کر بٹھایا۔

اس طرح بٹھانا ان کا کلچر ہے۔ سفر کا آغاز ہوا تو ٹیکسی ڈرائیور نے میٹر آن کیا، تھوڑی دیر کے بعد بند کر دیا اور پھر تھوڑی دیر بعد دوبارہ آن کر دیا، مسافر حیران تھا مگر زبان نہ آنے کی وجہ سے چپ رہا، جب انسٹیٹوٹ پہنچا تو استقبال کرنے والوں سے کہنے لگا، پہلے تو آپ اس ٹیکسی ڈرائیور سے یہ پوچھیں کہ اس نے دورانِ سفر کچھ دیر گاڑی کا میٹر کیوں بند رکھا؟ مسافر کی شکایت پر لوگوں نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ وہ بولا ’’راستے میں مجھ سے غلطی ہوئی، مجھے جس جگہ سے مڑنا تھا، وہاں سے نہ مڑ سکا، اگلا یوٹرن کافی دور تھا، میری غلطی کے باعث دو ڈھائی کلومیٹر سفر اضافی کرنا پڑا، اس دوران میں نے گاڑی کا میٹر بند رکھا، جو مسافت میں نے اپنی غلطی سے بڑھائی اس کے پیسے میں مسافر سے نہیں لے سکتا‘‘۔

آپ کو حیرت ہوگی کہ اس ڈرائیور نے نہ چلہ لگایا تھا، نہ وہ نماز پڑھتا تھا، نہ کلمہ، نہ اس کی داڑھی تھی، نہ جبہ، نہ ٹوپی، نہ پگڑی تھی مگر دیانتداری تھی، ہمارے پاس سب کچھ ہے مگر دیانتداری اور ایمانداری نہیں ہے۔ ہم مسلمان تو ضرور ہیں مگر ہمارے پاس اسلام نہیں ہے، اسلام پگڑی کا نام نہیں، اسلام کرتے، پاجامے اور داڑھی کا نام نہیں، اسلام سچ بولنے کا نام ہے، اسلام ایمانداری کا نام ہے، وعدہ پورا کرنے کا نام ہے، اسلام صحیح ناپنے اور پورا تولنے کا نام ہے، وقت کی پابندی کا نام ہے، اسلام دیانتداری کا نام ہے‘‘۔

میں اس بزرگ عالمِ دین کی باتیں سننے کے بعد بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے معاشرے میں جھوٹ کی عادت ہے، ملاوٹ کا چلن ہے، ہمارے ہاں چوری ہوتی ہے، لوٹ مار ہوتی ہے مگر اس پر کوئی ندامت نہیں ہوتی۔

کبھی غور کیجئے کہ پاکستان میں منشیات بیچنے والے کہیں باہر سے نہیں آتے، جعلی ادویات تیار کرنے والے بھی کسی دوسرے ملک سے نہیں آئے، عوام کو حرام گوشت کھلانے والے بھی کسی دوسرے ملک کے باسی نہیں۔

ہمارے ایوانوں، دفتروں اور عدالتوں میں جھوٹ بولنے والے سب پاکستانی ہیں۔ یہ تمام کسی دوسرے ملک سے نہیں آئے، یہاں جتنے مافیاز کام کرتے ہیں، سب لوکل ہیں، یہاں کا تاجر سارا سال لوگوں کو لوٹ کر مقدس مقامات کا رخ کرتا ہے، یہاں تو زکوٰۃ تک کھائی جاتی ہے، یہاں ہر طرف بددیانتی پھیلی ہوئی ہے، جدھر دیکھو بدعنوانی منہ کھولے کھڑی ہے۔

پتا نہیں وہ کون لوگ تھے جو جی ٹی ایس کی بسیں پی گئے، جو جی ٹی ایس کے اڈے کھا گئے، جو ریلوے کے پورے پورے ٹریک ہضم کرگئے، پتا نہیں یہ کون لوگ ہیں جو گرفتار ہوتے ہی بیمار ہو جاتے ہیں، ان لوگوں کی بھی کوئی خبر نہیں جو بدعنوانیوں پر مٹی ڈالتے ہیں، فائلیں غائب کرتے ہیں، سچ سامنے نہیں آنے دیتے، ہر وقت پردہ ڈالنے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں، مجھے تین چار سال پرانا واقعہ یاد آرہا ہے، قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے اطلاعات کا اجلاس ہو رہا تھا، یہ اجلاس وزارت کے ایک ذیلی ادارے پی این سی اے پر بات کر رہا تھا، (ن) لیگ کی حکومت تھی اور (ن) لیگ ہی کی ایک رکن عارفہ خالد پرویز نے انکشاف کیا تھا کہ پی این سی اے میں صادقین اور چغتائی کی جعلی پینٹنگز لگی ہوئی ہیں، اصلی پینٹنگز غائب ہیں، اس انکشاف کے بعد پی این سی اے اور لوک ورثہ کے سربراہوں کے رنگ فق ہو گئے، کمیٹی کے دیگر اراکین بھی حیران ہوئے مگر یہ حیرت چند لمحوں کے لئے تھی، پھر مٹی ڈالنے والے بولنے لگے مگر عارفہ خالد کہنے لگیں کہ ’’مجھے صادقین کی اصل اور نقل پینٹنگز کی پہچان ہے، پینٹنگز امیروں کا شوق ہے، غریبوں کا نہیں، جو پینٹنگز چوری ہوئی ہیں اس کے پیچھے یقیناً امیر طبقہ ہوگا‘‘۔

کمیٹی کی اس رکن کو ٹرخانے کے لئے کہا گیا کہ اس سلسلے میں رپورٹ منگواتے ہیں، ان کا خیال تھا کہ اس بیان کے بعد خاموشی ہو جائے گی مگر ایسا نہ ہو سکا، ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا اور پھر تیسرے کے بعد کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے مگر وہ رپورٹ نہ آسکی، پینٹنگز چوری کرنے والے کتنے طاقتور ہوں گے کہ اس حکومتی رکن کو حکومت ہی کے دیگر اراکین سمجھانے لگے کہ آپ یہ معاملہ چھوڑ دیں لیکن وہ آخری اجلاس تک رپورٹ مانگتی رہیں، اب پی ٹی آئی کی حکومت ہے، اسے بھی ایک سال سے زائد ہوگیا ہے، یہ حکومت بھی رپورٹ حاصل نہیں کر سکی، انہوں نے تو شاید پوچھا ہی نہ ہو۔

ایک صحافی کو پی این سی اے کے معمولی اہلکار نے بتایا کہ پینٹنگز آدھی رات کو ٹرکوں کے ذریعے چوری کی گئی تھیں اور ان کی جگہ دو نمبر پینٹنگز لگا دی گئیں۔ یعنی ہم صادقین سے بھی دو نمبری کرتے ہیں، ہم چغتائی سے بھی دو نمبری کرتے ہیں ایک طرف ان کی پینٹنگز چوری کرواتے ہیں تو دوسری طرف انہیں نکما فنکار ثابت کرنے کے لئے ان کے نام پہ تیار کردہ جعلی پینٹنگز بھی آویزاں کر دیتے ہیں۔

(ن) لیگ کے دور میں تو چوری کی یہ رپورٹ نہ آ سکی، پی ٹی آئی کے عہد ہی میں یہ رپورٹ منگوا لی جائے، مگر یہاں کون سنتا ہے؟ اکیلا عمران خان دیانتدار ہے مگر اس دیانتدار کے ساتھ بھی چوروں کی پوری بارات ہے، بقول محسن نقوی؎

ان کے دامن بھی جلتے دیکھے ہیں

وہ جو دامن بچا کے رکھتے ہیں

ہم بھی کتنے عجیب ہیں محسنؔ

درد کو دل میں چھپا کے رکھتے ہیں