435

کورونا: یکساں پالیسی ناگزیر

کورونا سے نمٹنے کے معاملے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ڈھائی ماہ کی مدت گزر جانے کے بعد بھی اتفاق رائے نہ ہونے سے ہر شہری الجھن کا شکار ہے اور اس کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ حکومت سندھ اور مرکز کے اختلافات دھواں دھار بیان بازی کی شکل میں پوری قوم کے سامنے ہیں جبکہ باقی تین صوبوں اور مرکز کی پالیسی میں بھی ہم آہنگی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے صورت حال یہاں تک آپہنچی کہ عدالتِ عظمیٰ کے موجودہ چیف جسٹس کو پچھلے مہینے کی دس تاریخ کو پہلی بار کسی معاملے میں ازخود نوٹس لینا پڑا جبکہ بیس تاریخ کو چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بنچ میں کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے حکومتی اقدامات، رقوم کے استعمال نیز وفاق اور صوبوں کے طریق کار میں ہم آہنگی اور شفافیت پر اہم سوالات اٹھائے۔ دو ہفتے بعد گزشتہ روز کیس کی تاریخ پر توقع کی جارہی تھی کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی رپورٹوں کے ذریعے عدالت کے سامنے اطمینان بخش صورتحال آئے گی لیکن سماعت کے موقع پر حکومتی کارکردگی کا کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا جو عدالت کے لیے باعثِ اطمینان ہوتا جس کی بناء پر چیف جسٹس کو کہنا پڑا کہ ’’کہیں شفافیت نہیں، لگتا ہے سارے کام کاغذوں ہی میں ہورہے ہیں‘‘۔ صدر اور وزیراعظم کے ارادوں کے نیک ہونے پر کسی شک کا اظہار نہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ بنچ کے رکن جسٹس عمر عطاء بندیال کسی لاگ لپیٹ کے بغیر اپنا مافی الضمیر ان الفاظ میں زبان پر لے آئے کہ ’’وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان تعاون نہ ہونے کی وجہ غرور، اَنا اور تکبر ہے، ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ وفاق میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا ذاتی عناد ہے جس سے وفاق کو نقصان پہنچ رہا ہے‘‘۔ جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا ’’کوئی صوبہ پالیسی کے ساتھ نہیں آیا، جس شعبے سے ڈرتے ہیں، اُسے کھول دیتے ہیں، تاجروں کو کاروبار کی اجازت نہیں اور مساجد کھول دی گئی ہیں‘‘۔ کورونا کے نام پر خرچ ہونے والی خطیر رقوم پر بھی عدالت نے سخت عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’’ٹیسٹنگ کٹس اور ای پی پیز پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں، ماسک اور دستانوں کے لیے کتنے پیسے چاہئیں، اگر تھوک میں خریدا جائے تو ماسک دو روپے کا پڑتا ہے، پتا نہیں یہ چیزیں کیسے خریدی جارہی ہیں، لگتا ہے سارے کام کاغذوں ہی میں ہورہے ہیں‘‘۔ کاروبار اور کارخانے کھولنے کے معاملے میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مسلسل اختلاف رائے اور تذبذب پر سخت گرفت کرنے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو یکساں پالیسی وضع کرنے کی خاطر ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ یکساں پالیسی نہ اپنائی گئی تو عدالت خود عبوری حکم نامہ جاری کردے گی۔ منتخب سیاسی حکومتوں کی کارکردگی پر عدالت عظمیٰ کا اس درجہ عدم اطمینان تمام متعلقہ اداروں اور ذمہ داروں کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ ماضی کے ادوارِ حکومت میں بارہا بیرونی جارحیت، دہشت گردی اور دیگر اہم چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے یکساں حکمت عملی تشکیل دینے کی خاطر تمام باہمی اختلافات کے باوجود کل جماعتی کانفرنسوں، پارلیمان کے خصوصی اجلاسوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ذمہ داروں کے مشترکہ تبادلہ خیال کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے لیکن موجودہ دور میں حد درجہ سنگین حالات میں بھی ایسے کسی بندوبست کی کبھی کوئی قابلِ ذکر کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اس تناظر میں سپریم کورٹ نے کورونا کے حوالے سے مسلسل کوتاہی پر جس قدر سخت برہمی ظاہر کی ہے‘ وہ بےجا نظر نہیں آتی لہٰذا حکمرانوں کو ذاتی اَنا کو بالائے طاق رکھ کر مقررہ مدت میں پوری سنجیدگی سے اس بارے میں یکساں پالیسی وضع کرنے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ اب بھی ایسا نہ کرنے کا مطلب اقتدار کا جواز کھودینے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔