369

کورونا اور معاشی مشکلات

وفاقی حکومت نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے توسیع کا فیصلہ کیا ہے جبکہ سندھ ، پنجاب اور بلوچستان کی حکومتوں نے بھی محدود کاروبار کی اجازت کے ساتھ لاک ڈاؤن کی مدت بڑھادی ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے انٹرسروسز انٹیلی جنس کی مدد سے لاک ڈاؤن کیلئے ٹریس اینڈ ٹریک سسٹم لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک میں بیروزگاری بڑھی، کسی ملک یا عالمی ادارے نے ایک ڈالر سے بھی ہماری مدد نہیں کی،زرمبادلہ اور ٹیکس گرگیا، کاروبار بند ہوگئے لہٰذا پاکستان کو سخت مشکلات کا سامنا ہے جبکہ قومی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی رپورٹ میں میکرو اکنامک نقصانات کے حوالے سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ قومی پیداوار کی شرح نمو 1.3فیصد ہوجائے گی، مزید دس فیصدا ٓبادی خط غربت سے نیچے چلی جائے گی اور کم و بیش تیس لاکھ افراد ملازمتوں سے محروم ہوجائیں گے۔ علاوہ ازیں قومی اقتصادی کمیٹی کو پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی وباء کے باعث سی پیک منصوبوں پر کام مقررہ رفتار سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ منصوبوں پر کام کرنے والی چین کی کمپنیوں کو تاخیر اور زیادہ لاگت کے ساتھ سپلائی چین اور مزدوروں سے متعلق مسائل کا سامنا ہوگا نیز پاکستان کا خصوصی اقتصادی زونز کے قیام کا منصوبہ بھی متاثر ہوگا کیوں کہ چین کی کمپنیوں کو افرادی قوت کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم ان مایوس کن حالات میں بھی امید کی کرنیں موجود ہیں۔ رپورٹ میں اس خوش آئند امر کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ جی۔8ممالک کاروبار کے لیے عالمی سپلائی چینز کو وسعت دینے پر سوچ بچار کررہے ہیں تاکہ ایک ملک میں ہنگامی صورت حال ہونے کی صورت میں دیگر ملکوں کے ذرائع سے استفادہ کیا جاسکے۔ چین میں بعض بڑے کاروباری افراد بھی اپنے پروڈکشن ہائوس مختلف ممالک میں منتقل کرنا چاہتے ہیں جبکہ پاکستان اپنے انفراسٹرکچر کی وجہ سے عالمی کاروبار کے مواقع سے مستفید ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتاہے۔قومی اقتصادی کمیٹی نے اس حوالے سے بجاطور پر بہترین پالیسی سازی کی ضرورت کا اظہار کیا ہے اور اہم تجاویز دی ہیں جن میں آمدنی اور خرچوں کے مقاصد میں ترجیحات کی تبدیلی خاص طور پر قابل ذکر ہے کیونکہ کم درآمدات کے نتیجے میں کم آمدنی کے ساتھ وباء سے نمٹنے کے لیے اخراجات میں اضافے سے مالی خسارہ بڑھ جائے گا۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے رپورٹ میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے کاروباری اداروں خصوصاً اقتصادی زونز کووافر نقد رقوم فراہم کیے جانے پر زور دیا گیا ہے کیونکہ عالمی اداروں سے قرض ملنا آسان نہیں ہوگا ۔آنے والے دنوں کا یہ نقشہ وزیر اعظم کے خطاب کے ان الفاظ کے عین مطابق ہے کہ’’ کورونا پاکستان سمیت دنیا بھر کیلئے امتحان ہے اورہمیں قوم بن کر اس امتحان سے نبرد آزما ہونا ہوگا۔‘‘بلاشبہ قومی یکجہتی ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ ہر مشکل اپنے ساتھ نئے امکانات بھی لاتی ہے ، کورونا کے نتیجے میں بھی ایسا ہونا ممکن ہے اور اوپر کی سطور میں ایسے بعض امکانات کا ذکر بھی موجود ہے لیکن امکانات سے وہی قومیں فائدہ اٹھاتی ہیں جو انتشار و افتراق کا شکار نہ ہوں، جن میں اختلاف رائے کو دشمنی نہ سمجھا جاتا ہو اور جو وسیع تر مشاورت سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی اہلیت رکھتی ہوں۔یہ امر اطمینان بخش ہے کہ وزیر اعظم خود بھی موجودہ حالات میں قومی یکجہتی کی ضرورت کا احساس رکھتے ہیں لیکن اس کا ثبوت انہیں احتساب کو انتقام کے تاثر سے پاک کرنے اور کورونا کے باعث رونما ہونے والی سماجی اور معاشی مشکلات سے عہدہ برآ ہونے کیلئے وسیع تر قومی مشاورت کا اہتمام کرنے جیسے عملی اقدامات سے دینا ہوگا کیونکہ محض زبانی دعوے کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوتے۔