154

کواڈ کا سربراہی اجلاس چین کو قابو کرنے پرتوجہ مرکوز ہوگی؟

کواڈ کا سربراہی اجلاس چین کو قابو کرنے پرتوجہ مرکوز ہوگی؟
جاپان نے دعوی کیا ہے کہ منگل کو دارالحکومت ٹوکیو میں ’کواڈ‘ کے سربراہی اجلاس کے دوران اسے اس وقت اپنے جنگی طیاروں کو فضا میں بھیجنا پڑا جب مبینہ طور پر چین اور روس کی فضائیہ کے لڑاکا طیارے اس کی فضائی حدود کے قریب آ رہے تھے۔
جاپانی وزیر دفاع نوباؤ کیشی نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ چین اور روس کی طرف سے یہ حرکت ایک ایسے وقت پر جب جاپان کواڈ میں شامل ملکوں کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا تھا صریحاً اشتعال انگیزی ہے۔
امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور انڈیا ’کواڈ‘ میں شامل ہیں جس ایک غیر رسمی اتحاد کہا جاتا ہے۔
جاپان میں ہونےوالے اس سربراہی اجلاس کو بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس کے بحرالکاہل اور بحیرہ ہند کے خطے میں دفاعی اور سلامتی کے حوالے سے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
دنیا میں کووڈ 19 کی بدترین عالمی وباء اور کسی حد تک یوکرین میں روسی حملے کے تناظر میں بننے والے اس گروپ کو ابھی تک رسمی طور پر اتحاد یا تنظیم کی شکل نہیں دی جا سکی ہے۔
گزشتہ دو برس میں اس گروپ میں شامل ملکوں کے سربراہان چار مرتبہ مل چکے ہیں۔ ان ملکوں کے سربراہوں کا آخری اجلاس ستمبر 2021 میں امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں ہوا تھا۔ اس کے علاوہ دو مرتبہ یہ انٹرنیٹ پر ‘ورچوئل’ ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں۔
کواڈ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف پانچ سال پہلے تک یہ گروپ صرف ایک تصور تھا۔ سنہ 2017 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کو اس کے خطے میں الجھائے رکھنے کی کوشش میں اس گروپ کو عملی شکل دینے کے لیے پیش رفت کی تھی۔
بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس گروپ میں شامل چار ملکوں کے چین کے ساتھ تعلقات میں بتدریج بگاڑ کی وجہ سے اس کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
امریکہ میں قائم وِلسن سینٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کگلمین کا کہنا ہے اس گروپ کے حالیہ اجلاس میں بحیرہ ہند اور بحرالکاہل کے خطے پر گفتگو مرکوز رہے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب جبکہ دنیا کووڈ کی وبا سے نکل چکی ہے اور یوکرین کے معاملے پر انڈیا کے موقف سے سمجھوتہ کر لیا گیا ہے تو یہ گروپ انڈو پیسفک خطے کو کھلا اور محفوظ رکھنے پر توجہ مرکوز کر سکتا ہے۔
انڈیا نے یوکرین پر روس کی فوجی کارروائی کی براہ راست مذمت یا تنقید کرنے سے گریز کیا تھا تاہم اس نے ملکوں کی خودمختاری کا احترام کرنے کی بات کی تھی۔
انڈیا کی طرف سے روس سے رعایتی نرخوں پر تیل حاصل کرنے پر بھی مغربی ملکوں نے سخت اعتراض کیا تھا۔ لیکن ابتدائی غم و غصے کے بعد مغربی دنیا نے انڈیا کے اس معاملے پر موقف پر سمجھوتہ کر لیا ہے۔
مغرب اور امریکہ کے لیے انتہائی حساس یوکرین کے بحران پر امریکہ اور انڈیا کے خارجہ اور دفاع کے وزراء کے مذاکرات ہوئے تھے جنہیں ‘ٹو پلس ٹو’ کا نام دیا گیا تھا۔
انڈیا اور چین کے درمیان تعلقات میں نریندر مودی کے سنہ 2014 میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ابتدائی طور پر گرمجوشی اور بہتری آئی تھی لیکن بعد کے برسوں میں ان تعلقات میں شدید کشیدگی پیدا ہو گئی۔
امریکہ نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ روسی دفاعی ساز و سامان پر انڈیا کے انحصار سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
لہذا کواڈ گروپ میں مذاکرات کو باہمی مفادات کے مسائل پر مرکوز رکھنے پر اتفاق ہے اور ان میں چین بلاشبہ ایک مشترکہ تشویش کا باعث ہے۔
خطے میں جہاں سمندری حدود پر تنازعات موجود ہیں اور انڈیا کی شمالی سرحد پر جھگڑا ہے، چین کی پالیسی میں جارحیت کا عنصر تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔
چین اپنی بحری قوت میں اضافے کے لیے بے شمار پیسہ خرچ کر رہا ہے اور حال ہی میں چین نے سولومن جزائر کے ساتھ ایک سکیورٹی معاہدہ کیا ہے جس سے آسٹریلیا کو شدید تشویش لاحق ہو گئی ہے۔
اس معاہدے کا جو مسوداہ سامنے آیا ہے اور جس کی تصدیق آسٹریلیا کی حکومت نے کر دی ہے، اس کے تحت چین کے بحری جنگی جہاز ان جزائر پر لنگر انداز ہو سکیں گے اور چین ان جزائر میں امن و عامہ قائم رکھنے کے لیے سکیورٹی اہلکار بھی بھیج سکتا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ آسٹریلیا کے نو منتخب وزیر اعظم انتھونی البینیز اس معاملے پر کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں اور کیا اس کو کواڈ ملکوں کے سربراہی اجلاس میں اٹھاتے ہیں۔
چین کی بحریہ کی طرف سے جاپانی سمندری حدود کی خلاف ورزیوں پر جاپان کا کہنا ہے کہ یہ ایک معمول بن گیا ہے۔
جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو یہ ظاہر ہے کہ وہ خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتا ہے۔
امریکہ کی قیادت میں انڈو پیسیفک اکنامک فریم ورک (آئی پی ای ایف) کا آغاز، جس میں 13 علاقائی ملک شامل ہیں، اس سمت میں ایک قدم ہے۔ اس کا مقصد خطے میں علاقائی ترقی، استحکام اور شمولیت کو فروغ دینا ہے۔
یہ امریکی صدر جو بائیڈن کی واشنگٹن میں ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز (آسیان) کے رہنماؤں کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بعد ہوا ہے۔
اس خطے کی اہمیت کو اس حقیقت سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اس میں دنیا کی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سمندری گزرگاہیں ہیں، جن میں آبنائے ملاکا بھی شامل ہے۔ دنیا کی تقریباً 30-40 فیصد تجارت، بشمول مال اور خام تیل، ان راستوں سے ہوتی ہے۔
لہٰذا جب انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی، صدر بائیڈن، وزیراعظم البانیز اور جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیدا ٹوکیو میں ملیں گے، تو ہو سکتا ہے کہ وہ براہ راست چین کا ذکر نہ کریں لیکن علاقائی سلامتی ان کے ایجنڈے میں سرفہرست ہوگی۔
کواڈ کے پاس سائبر سکیورٹی، صحت، انفراسٹرکچر اور تعلیم سمیت متعدد ورکنگ گروپس ہیں، لیکن اس نے کسی دفاعی تعاون کے بارے میں واضح طور پر بات نہیں کی ہے۔
تاہم، امکان ہے کہ یہ بحرالکاہل کے علاقے میں غیر قانونی ماہی گیری سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی کا اعلان کرے گا جس کا حدف تجزیہ کاروں کے مطابق چین ہوگا۔
کگلمین کا کہنا ہے کہ یہ اعلان کافی اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ اس میں سیٹلائٹ عکس اور فعال انٹیلی جنس شیئرنگ کا استعمال شامل ہے جس کے سکیورٹی اثرات ہوں گے۔
لیکن انہوں نے مزید کہا کہ اس گروپ کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہوگی، اس سے پہلے کہ آسیان ممالک اسے چین کے خلاف ایک بڑے توازن کے طور پر دیکھیں۔
صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ ایک کھلے اور منصفانہ انڈو پیسفک کے لیے پرعزم ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ کواڈ کا کوئی دفاعی زاویہ نہیں ہے۔ چار ممالک، اور چند دیگر، انڈیا کی مالابار بحری مشقوں میں حصہ لے چکے ہیں، اور کواڈ میں افغانستان اور شمالی کوریا کے جوہری پروگرام جیسے مسائل پر بات ہوئی ہے۔ صدر بائیڈن نے حال ہی میں چین کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس جزیرے پر حملہ ہوا تو امریکہ جزیرے کی حفاظت کے لیے فوجی مداخلت کرے گا۔
لیکن کگلمین بتاتے ہیں کہ آسیان اور کواڈ دونوں گروپوں میں شامل کئی ممالک کا چین کے ساتھ تجارتی حجم بہت زیادہ ہے اور وہ بیجنگ کے ساتھ کسی بھی براہ راست تصادم سے بچنے کی کوشش کریں گے، کم از کم اس وقت تک جب تک کہ کواڈ خطے میں ایک سکیورٹی فراہم کنندہ کے طور پر ابھر کر سامنے نہیں آتا۔
مزید برآں، دہلی کئی کثیر الجہتی فورمز میں بیجنگ کے ساتھ شراکت دار ہے، بشمول برکس – جس میں روس، جنوبی افریقہ اور برازیل بھی شامل ہیں۔
کگلمین کہتے ہیں کہ ’کواڈ نے ایک طویل سفر طے کیا ہے لیکن اس کا اب بھی ایک غیر رسمی ڈھانچہ ہے اور اس کا کوئی سیکرٹریٹ نہیں ہے۔ اس لیے اسے ترقی کرتے رہنے کی ضرورت ہے‘۔
دریں اثنا، چین کے ساتھ روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات ممکنہ طور پر نمایاں ہوں گے اور وہ دہلی کے جغرافیائی سیاسی اندازوں کے مطابق نہیں ہیں۔
کچھ تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ یوکرین کی جنگ ’روس کو چین کے ہتھیار حاصل کرنے پر مجبور کر سکتی ہے‘ اور بیجنگ ماسکو کو انڈو پیسیفک میں اپنی موجودگی بڑھانے کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے دہلی کے مفادات کو سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا کیونکہ اس کے روس کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور چین کے ساتھ جاری تنازعہ ہے۔
کگلمین کا کہنا ہے کہ یہ اس وقت صرف ایک منظر ہے، لیکن ایک ایسا منظر جسے مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر چونکہ روس کواڈ پر کافی تنقید کرتا رہا ہے۔
کواڈ کے بارے میں بیجنگ کا ابتدائی ردعمل اسے مسترد کرنا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ یہ گروپ ’سمندری جھاگ کی طرح پھیل جائے گا‘۔ لیکن بعد میں اس نے اس گروپ پر اپنی تنقید کو تیز کیا اور اسے ’ایشیئن نیٹو‘ کہا۔
اتوار کو، چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ کواڈ ’چین پر قابو پانے کے لیے‘ تشکیل دیا گیا تھا۔
دونوں طرف سے اس طرح کے سخت موقف کی وجہ سے آسیان ممالک جن میں سے کچھ کے چین کے ساتھ بحری تنازعات ہیں، خود کو ایسی صورتحال میں پا سکتے ہیں جسے ایک تجزیہ کار نے ’ایک چٹان اور مشکل جگہ‘ کہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں