672

کمائی ہوئی نیکی کیا ہے؟-ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

کیا نیکی کرنا اور نیکی “کمانا” ایک ہی ہیں ؟ صد فیصد مترادف ؟ اور کیا سماج پر ان کے اثرات میں بھی کچھ فرق ہوتا ہے یا اوہ ایک سے ہوتے ہیں ؟ یہ بہت دلچسپ بحث ہے۔

نیکی کرنا ایک وقتی عمل ہے ۔۔۔۔ آپ کو کامیابی ملی آپ نے بطور شکر نیکی کر ڈالی، کسی کی مالی یا دیگر لحاظ سے مدد کردی۔ آپ کسی وجہ سے بہت خوش ہیں تو اس موڈ میں کچھ اچھا کر لیا۔ مالی پریشانی نہیں اور کاروبار وغیرہ بھی ٹھیک چل رہا ہے تو معاملات میں بہتر ہوگئے۔ یا پھر کہیں پھنس گئے تو آسانی پانے کے لیے صدقہ خیرات کر دیا۔ کسی بھی وجہ سے سرزد ہو رہی ہوں لیکن یہ سب بلاشبہ نیکیاں ہی ہیں اور اللہ تعالی کے ہاں ان کے ثواب کی پوری امید رکھی جانی چاہیے۔ تاہم یہ سب مشروط نیکیاں ہیں ۔۔۔۔ حالات کے ساتھ، موڈ کے ساتھ مشروط۔
ان کا تاثر خوشگوار لیکن اثر محدود ہوتا ہے۔

نیکیوں کی ایک قسم وہ ہے جن کے اثرات اپنی جامعیت اور تسلسل کے حوالہ سے ہمہ گیر ہوتے ہیں۔ آپ آج کل کے معروف محاورے میں انہیں “گیم چینجر” نیکیاں کہہ سکتے ہیں ۔۔۔ ایسی اچھائی جو پورے معاشرے کو سیراب کرتی اور اس کی ہر سطح پر اپنا عکس مرتب کرتی ہے ۔ یہ وہ نیکیاں ہیں جو “کمائی” جاتی ہیں کی نہیں جاتیں۔

یہ ویسا ہی معاملہ ہے جو رقم حاصل ہو جانے اور رقم کمانے کا ہے۔ کرنسی نوٹ وہی ہوتا ہے لیکن کماتے ہوئے کمر دوہری ہو جاتی ہے۔ لیکن فرق یہ ہوتا ہے کہ کمائی ہوئی رقم سے ہی معیشت استوار ہوتی ہے ، پورا معاشرہ اس سے چلتا ہے۔ یہی معاملہ کمائی ہوئی نیکی کا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کمائی ہوئی نیکی ہے کیا ؟

یہ وہ ہے جس کا ذکر قرآن میں یوں آیا کہ اپنی ضرورت کو پس پشت ڈال کر دوسرے کی ضرورت کو ترجیحی بنیاد پر پورا کرنا، خود بھوکا رہ لینا دوسرے کو کھانا کھلانا۔ کسی کی کڑوی کسیلی بات کا جواب اچھائی سے دینا، دوسرے کی بدخواہی کے جواب میں اس کے ساتھ مسلسل اور غیر مشروط خیرخواہی رکھنا۔ یہ سب کچھ کسی پر احسان کی نیت سے نہ کرنا بلکہ صرف اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے کرنا، پھر جو کام اللہ کے لیے کرنا ہے پھر اس پر منہ بگاڑنے کا بھی کوئی سوال نہیں۔

اگر اہم اسے آسان زبان میں دیکھیں تو “کمائی ہوئی نیکی” وہ ہے جسے کرتے ہوئے “موت پڑ رہی ہو، لیکن کی اس شوق سے جائے جیسے کہ آپ اسے کرنے کے لیے مرے جا رہے ہوں !” وہی قرآن کی بات ۔۔۔ گھاٹی سے ہو گزرنےکا مشکل راستہ۔ وہ گھاٹی مالی مشکل کی ہو، ذہنی کوفت کی یا پھر انا کی۔

اس طرح کی نیکی کا اہم ترین حصہ یہ ہے کہ اس کے لیے آپ کا امیر ہونا، خوش ہونا، پریشان ہونا، مشکل میں ہونا کچھ بھی اہم نہیں۔۔۔۔ آپ نے اپنی موجود وسعت کے مطابق ہر صورت بھلائی ہی کرنی ہے۔ اور یہ شرط معاشرے کے تمام طبقات پر ان کی وسعت کے مطابق لاگو ہوتی ہے۔ گویا اب معلوم ہے کہ کوئی ایمانداری کرے یا نہ کرے، مجھے کرنا ہی ہے۔۔۔۔ مجھے سچ بولنا ہی ہے۔ میں خود کتنا بھی پریشان ہوں دوسرے کے ساتھ مجھے خوش مزاجی سے ہی پیش آنا ہے۔ اس رویہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ آپ کی فطرت ثانیہ بن جاتا ہے یعنی اس میں وقفہ نہیں آتا۔۔۔ یہ کسی بیرونی عنصر کا رہین نہیں ہوتا، اور پھر جیسے جیسے معاشرہ اس کو اپناتا چلا جاتا ہے ایک بڑی تبدیلی آپ کے سامنے آتی چلی جاتی ہے۔

اگر ہم خود سے یہ عمل شروع کرپائیں اور اپنے گھر والوں، عزیز و اقارب، دفتر، اڑوس پڑوس کی سطح پر اپنے عمل سے اس بات کی ترغیب دے سکیں کہ نیکی کا اعلی ترین درجہ دراصل کمائی ہوئی نیکی ہے۔۔۔۔ تو یہ ایک بڑی تبدیلی کا پہلا قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ پھر یہ راستہ امیر غریب، خواتین وحضرات سب کے لیے یکساں کھلا ہے۔

قرآن میں جس قدر خوشخبری اور فلاح کا وعدہ اس طرح کی نیکی کے حوالہ سے ہے وہ آسانی میں کی گئی نیکی کے لیے نہیں، گو اس کا ثواب اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے۔