Kashmir dispute and United Nations 271

کشمیر، کچھ گزارشات. محمد مہدی

2019کی بات ہے ، میں امریکہ میں تھا۔ امریکی انتظامیہ اور تھنک ٹینکس سے وابستہ افراد سے گفتگو کے دوران یہ اندازہ ہو ا کہ امریکہ جنوبی ایشیا اور اس سے منسلک علاقوں کے حوالے سے کچھ حتمی اقدامات کی جانب بڑھنا چاہتا ہے اور امریکہ میں اگر کوئی سیاسی تبدیلی بھی رونما ہو جائے مگر ان اقدامات کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوگا، یہ تمام گزارشات میں نے امریکہ سے واپسی کے بعد اس وقت تحریر کر چکا ہوں۔ امریکہ میں اِس وقت جو سوچ چل رہی ہے، اس کا محور بھارت ہے کیونکہ چین کے اثر و رسوخ کو مقابلہ بازی کرکے محدود کرنے کیلئے بھارت ایک اہم مہرے کے طور پر اس بساط پر ابتدا سے موجود ہے۔ چین کے مقابلے میں بھارت کو استعمال کرنے کی سوچ یہ ہے کہ بھارت کے پاکستان سے معاملات بھارت کی خواہشات کے مطابق حل کروا دیے جائیں اور حل طلب امور میں حقیقی مسئلہ صرف کشمیر ہے۔ خیال رہے کہ یہ کوئی تازہ سوچ نہیں کہ بھارت کو اس طرح چین کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ کونسل فار فارن ریلیشنز سے وابستہ ایک دوست نے میرے سامنے نیویارک ٹائمز کا تیرہ اپریل انیس سو چونسٹھ کا ایک شمارہ رکھ دیا جس میں ایک مضمون کاعنوان Solutions for Kashmir۔ اس مضمون میں چین بھارت جنگ کے بعد کی صورتحال پر روشنی ڈالی گئی تھی کہ

One reason for Chinese communist success the last time was the crack troops were kept out of the battle to guard the Indian- held part of Kashmir against Pakistan. India’s millitary capacity has been strengthened by American aid, but unless India is able to concentrate her forces against the Chinese.

1964کے اس اقتباس سے با آسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ بھارت اور اس کا طریقہ استعمال برسوں سے زیر بحث رہا ہے اور کشمیر کا وہ حل جو بھارتی خواہشات کے مطابق ہو، وہ یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول کو بین الاقوامی سرحد مانتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ تسلیم کر لیا جائے۔ ایسا کرنے کی صورت میں بھارت کی اہمیت دوچند ہو جائے گی بلکہ بھارت میں جاری دیگر علیحدگی پسند تحریکوں کو بھی غیرمعمولی نقصان پہنچے گا، ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے۔ علاقے کا تھانے دار بننے کی بھارتی خواہش بھی پوری ہو جائے گی۔ ان تمام بھارتی خواہشات کے آگے بند پاکستان کی موجودگی نے باندھا ہوا ہے۔ پاکستان کا محل وقوع پاکستان کی بہت مدد کرتا ہے۔ پھر چین سے ہماری دوستی تو بہت پرانی ہے، سی پیک کی صورت میں دوستی کو معاشی دوستی میں تبدیل کر دینے سے معاملات اور آگے بڑھ گئے ہیں حالانکہ اس دوستی کو معاشی دوستی میں تبدیل نہ ہونے دینے کے لئے بہت زور بھی لگایا گیا اور ابھی تک لگایا جا رہا ہے لیکن بہر حال یہ ہو گئی۔ اب اس بند کو توڑنے کے لئے بھارت کو ہلہ شیری دی گئی اور اس طرح بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے اپنی جانب سے قضیہ حتمی طور پر سمیٹ دیا۔ اس حوالے سے اس نہ صرف بین الاقوامی حمایت حاصل تھی بلکہ باآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اپنوں کی بھی خاموش رضا مندی شامل تھی۔ اس میں کسی دوسری رائے کی کوئی گنجائش نہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو تمام حقوق ملنے چاہئیں مگر اس معاملے کو استعمال کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے کی جانب بڑھتے قدم درحقیقت پاکستان کے کشمیر پر موقف میں نرمی و لچک کی چغلی بھی کھاتے ہیں۔ یہ باتیں بھی عام ہیں کہ آزاد کشمیر کے انتخابات کے نتائج گلگت بلتستان کے نتائج کی مانند حاصل کر کے آزاد کشمیر کی بھی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کی جانب پیش رفت کی جائے گی مگر اس کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ کہ کیا کشمیریوں کی آزادی کی تحریک صرف اس وجہ سے قائم ہے کہ پاکستان اور انڈیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس معاملے کو لے کر گئے تھے اور یہ دونوں ممالک کے درمیان بس ایک جغرافیائی تنازع ہے یا یہ ایک قوم کا تصفیہ طلب معاملہ ہے کہ جو کہ کشمیری ہیں اور اس سارے معاملے میں سب سے اہم فریق بھی۔جنہوں نے ہی سیاسی جدوجہد سے لیکر گردن کٹوانے تک اپنی قربانیوں سے اس جدوجہد کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اگر کوئی بھی ایسا اقدام کیا گیا جو کشمیریوں کے حق خود ارادیت سے متصادم ہوا تو چاہے کاغذوں پر کچھ بھی معاہدہ کر لیا جائے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی اور یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ اس کا ذمہ دار صرف سیاسی چہرہ نہیں ہوگابلکہ زیادہ ذمہ داری حقیقی فیصلہ سازوں پر عائد ہوگی جیسے کہ آج کوئی یاد نہیں کرتا کہ شوکت عزیز کے دور میں کیا ہوا سب کو یہی یاد ہے کہ مشرف کے دور میں کیا کیا ہوا۔