mazhar-barlas articles 334

کرپشن رک سکتی ہے مگر. مظہر برلاس

بدھ 29جولائی کو جنگ کا اداریہ تھا ’’کرپشن کیسے روکیں؟‘‘، یہ اداریہ سپریم کورٹ میں پیش ہونے والی دو درخواستوں کے پسِ منظر میں لکھا گیا۔ دونوں درخواستیں مسترد ہوئیں، جو دو کرپٹ سرکاری افسران کی تھیں۔ وطنِ عزیز میں واقعی یہ بڑا سوال ہے کہ کرپشن کیسے روکیں؟ کیونکہ جہاں سے بھی ایک اینٹ ہٹائی جائے وہیں نیچے کرپشن کے کیڑے نظر آتے ہیں۔

میرے نزدیک تو کرپشن غداری کے مترادف ہے اور اپنے ملک کا پیسہ باہر بھجوانا سنگین غداری ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں غداروں کو ہمیشہ معاف کردیا گیا حالانکہ غدار تو سانپوں کی مانند ہوتے ہیں، سانپوں کے سرکچل دینے چاہئیں۔

سانپوں کو معاف کردینا کھلی ناانصافی ہے۔ گزشتہ چالیس برسوں میں ہمارے ملک کے ساتھ کھلواڑ ہوا، یہاں کے بھوکے حکمران طبقے نے ملک کو اتنا لوٹا کہ لوٹ مار کی ساری داستانوں کو مات دے گئے۔ ان حکمرانوں نے ملک دشمنی کی، اس سے بڑھ کر ملک دشمنی کیا ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے ملک کو کھوکھلا کردیں، اپنے ملک کی غربت میں اضافہ کریں اور ذاتی وسائل بڑھاتے جائیں۔

اس سے بڑی عہدوں سے ناانصافی کیا ہوگی کہ دولت کی ہوس میں عہدوں کے تقاضے بھول جائیں، محض طاقت کے نشے میں امانت، دیانت اور صداقت کا سبق فراموش کردیا جائے مگر ہمارے ہاں یہ ہوا، چالیس برس وطن کی لکڑی کو گھن کھاتا رہا، وطن کے وجود سے جونکیں خون چوستی رہیں۔

اقتدار سے باہر ہوتے ہی بیماروں کا بھیس بدل لینے والوں نے پورے چالیس برس محض ذاتی مفاد کے لئے پرمٹ، قرضے، لیزوں کا جمعہ بازار، کمیشن کے کھلے کھاتے، جعل سازیوں کا دھندہ اور اسی طرح کے بے شمار کالے کرتوت اختیار کئے رکھے۔ ملک کہیں پیچھے چل گیا اور ان کی جائیدادوں میںبقول اسحاق ڈار ’’ اللہ نے برکت ڈال دی‘‘۔

صاحبو! ایسا نہیں۔ اپنے حرام مال کو اللہ کی رحمت سے منسوب نہیں کرنا چاہئے۔ مخدوم فیصل صالح حیات کو اسحاق ڈار دبئی میں اپنی جائیدادوں کی قطاریں دکھاتا رہا، پھر جب اسحاق ڈار کی پوری فیملی (معذرت، اس میں ماروی میمن نہیں تھیں) کے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھےتو شاہ جیونہ کا سید بول پڑا، کہنے لگا ’’ڈار صاحب! اتنی جائیداد حلال کی کمائی سے نہیں بن سکتی‘‘۔

صاحبو! یہاں ایک نہیں کئی اسحاق ڈار ہیں، یہاں ہر شہر میں تعلیم تجارت بنی ہوئی ہے، ہر گلی میں کوئی نہ کوئی ٹھگ بیٹھا ہوا ہے، یہاں کوئی ادارہ ایسا نہیں جہاں کرپشن کا رواج نہ ہو، یہاں تو مذہبی اکابرین بھی شکم پرست بنے ہوئے ہیں۔ یہاں کرپٹ مافیا نے نظام کی تباہی کردی، ہر طرف بدعنوانی کا زہر ہے۔

خواتین و حضرات! کوئی مرض لاعلاج نہیں، اس بیماری یعنی کرپشن کا علاج بھی ہے۔ اس بیماری کے خاتمے کے لئے انقلابی سوچ چاہیے، انقلابی اقدامات چاہئیں، پھر یہ نہیں ہونا چاہیے کہ فلاں میرا بند ہ ہے تو فلاں تیرا بندہ ہے۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے چند انقلابی اقدامات اپنائے جا سکتے ہیں۔ مثلاً کرپشن کی سزا موت ہونی چاہئے۔

ایسے افراد پر غداری کا مقدمہ بھی چلنا چاہئے۔ جن افراد نے ملکی دولت لوٹ کر باہر بھجوائی ہو انہیں دس بار پھانسی کی سزا دی جائے، ان پر سنگین غداری کے مقدمات درج ہوں۔ جو دولت لوٹ کر باہر فرار ہو چکے ہوں ان کے دو تین علاج ہیں۔

نمبر 1، انہیں واپس لایا جائے۔

نمبر2، انہیں خفیہ آپریشن کے ذریعے وہیں مار دیا جائے۔

نمبر3، ان کی بچوںسمیت پاکستان کی شہریت منسوخ کردی جائے تاکہ ان کے کرپٹ اور بدبودار جسم اس پاک مٹی میں دفن بھی نہ ہو سکیں۔

ملک سے باہر ایک حد سے زیادہ پیسہ لے جانے پر پابندی لگا دی جائے۔ جن سرکاری ملازمین کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ فیسیں کون ادا کرتا ہے، ظاہر ہے وہ جھوٹ بولیں گے اس لئے خصوصی تحقیق ہونی چاہئے۔ جس کسی سرکاری ملازم کے پاس پچاس کروڑ سے زائد اثاثے ہیں، پچاس کروڑ سے اوپر ضبط کر لئے جائیں۔

کسی بھی سیاستدان کے پاس ایک ارب سے زائد اثاثے نہیں ہونے چاہئیں، خواہ وہ وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو۔ تیزی سے ترقی کرنے والے کاروباری افراد کا بھی احتساب ہونا چاہئے۔ اسی طرح زرعی اصلاحات نافذ کردی جائیں تاکہ کروفر کا خاتمہ بھی ہو سکے۔ ایک بار پھر عر ض ہے کہ کرپشن پر سزائے موت مقرر کردی جائے۔

آنے والی نسلوں کے لئے ابتدائی تعلیم کے ساتھ ہی حرام حلال کی تمیز سکھا دی جائے، سوشل ٹریننگ کی کلاسیں ہوں، نظام تعلیم ایک ہونا چاہیے۔ سرور ارمانؔ یاد آگئے کہ:

کچھ گفتگو ہے چند تہی داموں کے ساتھ

کچھ نامراد سوختہ جانوں کا ذکر ہے

بارِ غمِ حیات سے بوجھل مسافتیں

لاغر بدن، جھکے ہوئے شانوں کا ذکر ہے

صحنِ قفس میں طائر زنجیر پا کے ساتھ

کس سادگی سے اونچی اڑانوں کا ذکر ہے