mazhar-barlas 451

کردار سازی. مظہر برلاس

میں نے ایرانی رہبر کے ہاں خوش الہان قاری سے تلاوت سنی تو دیر تک سوچتا رہا کہ قرآن پاک پڑھنے کے حوالے سے اتنی خوبصورت آواز پہلے کیوں نہ سن سکا پھر دل کا حال علی گڑھ یونیورسٹی کے بزرگ پروفیسر سے کہہ ڈالا، وہ میرے ساتھ ہی تشریف فرماتھے ۔

پروفیسر صاحب کہنے لگے ’’ماضی قریب میں تو میں نے بھی ایسی شاندار آواز نہیں سنی‘‘ پاکستان آکر ایک بڑی مذہبی شخصیت سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایرانی رہبر کی خواہش ہے کہ ایران سے کم از کم دس لاکھ حافظ قرآن تیار کئےجائیں۔مجھے یہ باتیں گزشتہ دنوں زیادہ شدت سے اس وقت یاد آئیں جب لوگ اشکبار تھے، طیب اردوان انہیں اپنی گفتگو کے حصار میں لے چکے تھے لوگوں کی آنکھیں تر تھیں اور طیب اردوان کہتے جا رہے تھے’’میرے والد پھل فروش تھے۔

ان کے مالی حالات قابل رشک نہیں تھے بلکہ اتنے خراب تھے کہ وہ مجھے اسکول میں پڑھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، ہمارے گھر میں بعض اوقات سالن نہیں ہوتا تھا، کئی مرتبہ ایسا ہوا ہم نے خربوزے کے ساتھ روٹی کھائی، میرے والد کو دین سے والہانہ لگائو تھا اسی لئے انہوں نے مجھے حفظ قرآن کی کلاس میں ڈال دیا۔

میں جب مدرسے جاتا تو مجھے کئی لوگ کہتے، کیوں اپنا مستقبل خراب کر رہے ہو، کیا تمہیں بڑے ہو کر مردے نہلانے کی نوکری کرنی ہے، مدرسوں سے پڑھنے والوں کیلئے غسال کی نوکری ہی تو ہوتی ہے لہٰذا کسی اچھے اسکول میں داخلہ لے لو، اپنا مستقبل سنوارنے کی فکر کرو۔

اس قسم کی نصیحتیں زیادہ تر بوڑھے لوگ کرتے، میں ادب سے ان کی باتیں سنتا، مسکراتا اور اپنی کتابیں بغل میں دبا کر مدرسہ امام الخطیب کی جانب گامزن ہو جاتا، وقت تیزی سے گزرتا رہا۔

میں نے اسی مدرسے سے 1973ء میں اپنی تعلیم مکمل کی، قرآن مجید تجوید کے ساتھ حفظ کیا، میں نے بعد میں ترکی کی مشہور یونیورسٹی سے اکنامکس اینڈ ایڈمنسٹریٹو سائنس میں ماسٹر کیا، اب جب میں مدرسے کے دور کی نصیحتوں کو یاد کرتا ہوں تو آنکھیں چھلک پڑتی ہیں تو میں خدائے لم یزل کی رحمتوں کو دیکھنا شروع کر دیتا ہوں‘‘۔

خواتین و حضرات! یہ باتیں اس شخص کی ہیں جو پورے عالم اسلام میں مقبول ترین لیڈر ہے۔ 70فیصد عرب اسے ٹیوٹر پر فالو کرتے ہیں۔ اسرائیل کو منہ توڑ جواب دینے پر وہ عرب ملکوں میں بسنے والے لوگوں میں بہت مقبول ہوا۔اتنا مقبول کہ عرب نوجوانوں نے اسے ’’البطل‘‘(ہیرو) کا خطاب دیا ہے۔

اس وقت ترکی میں سب سے زیادہ بچے مدرسوں میں پڑھتے ہیں اور یہ مدرسے جدید نظام تعلیم کے حامل ہیں۔پاکستان میں بارش کے پہلے قطرے کے طور پر الکرم یونیورسٹی قائم ہو رہی ہے ۔یہ یونیورسٹی جسٹس پیر کرم شاہ الازہری ؒکے نام پر ہے، اس کے لئے پیرامین الحسنات آف بھیرہ شریف کاوشیں کر رہے ہیں، سرگودھا سے ایم این اے سید جاوید حسنین شاہ یونیورسٹی کا بل اسمبلی میں لائے ہیں۔

اس یونیورسٹی کا مقصد دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم سے آگاہی ہےیہاں سائنس، آرٹ اور آئی ٹی کی تعلیم بھی دی جایا کرے گی۔اس سے پہلے ایک مدرسے کے طلبہ کی دنیاوی تعلیم کا بندوبست تھا مگر ان کی اپنی یونیورسٹی نہیں ہے، یہ مدرسہ راجہ ناصر عباس کا ہے ،مذہبی رہنمائوں سے کئی ملاقاتوں میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس مدرسے کی مثالیں دی ہیں۔

میرے نزدیک تعلیم سے بھی زیادہ اہم تربیت ہے، تربیت ہی سے کردار سازی ہوتی ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تربیت پر توجہ دی ہی نہیں جاتی، دولت کی ہوس میں اندھے ہوتے ہوئے معاشرے میں حلال حرام کی تمیز مٹتی جارہی ہے، حرام رزق کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں، ان نتائج کے بعد حساس دلوں پر گہرے اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

ایسے ہی ایک صاحب دل قاضی سعد اختر کو دو واقعات نے دکھی کرکے رکھ دیا ہے۔شیخوپورہ اور شاہدرہ میں دو مختلف واقعات میں مائوں کی تذلیل کی گئی ہے، ایک واقعہ میں نوجوان نے اپنی والدہ پر تشدد کیا ہے، دوسرے واقعہ میں بیٹے نے اپنی بیوی کے ساتھ ملکر ماں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔یہ دو واقعات معاشرے کا کونسا ’’چہرہ‘‘ سامنے لے آئے ہیں۔

پاکستان کے تعلیمی اداروں میں سوشل ٹریننگ یعنی سماجی تربیت یا اخلاقی تربیت کا کوئی رواج ہی نہیں۔چند سال میں بھیانک واقعات سامنے آئے ہیں۔ہمارے دور میں یہ پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ پیپرز کس استاد کے پاس گئے ہیں مگر جب سے ہماری یونیورسٹیوں میں سمسٹر سسٹم نازل ہوا ہے، شکایات کے انبار لگ گئے ہیں۔

طلبا و طالبات کو پتہ ہوتا ہے کہ فلاں ہمارا استاد ہے اور اسی نے پیپرز دیکھنے ہیں اسی نے نمبرز لگانے ہیں، اسی لئے استاد شاگرد کے رشتے میں تنائو پیدا ہو گیا ہے۔

ہراساں کرنے کے واقعات بڑھ گئے ہیں اسی طرح بلیک میلنگ کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں ان دو اعمال کے باعث کئی لوگ پاگل ہو چکے ہیں، کچھ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں پچھلے دنوں ایک ٹیچر کو محض اس لئے خودکشی کرنا پڑی کہ ان کی ایک شاگردہ نے ان پر الزام لگا دیا تھا، وہ پروفیسر صاحب کہنے لگے میں اپنے بیوی بچوں کا سامنا کیسے کرسکتا ہوں؟

خدارا پرانا نظام بحال کردو، تعلیمی اداروں میں نئے نظام نے تو کئی انوکھے چاند چڑھا دیئے ہیں ۔عدیم ہاشمی یاد آ گئے کہ

راہوں میں ملے تھے ہم، راہیں نصیب بن گئیں

تو بھی نہ اپنے گھر گیا، ہم بھی نہ اپنے گھر گئے